مدارس دین کے قلعے ہیں، ہیں نا؟
وہ سوداگر جو بادشاہ کے قلعے کی دیوار سے لگ کر سوگیا تھا جب بیدار ہوا تو خود کو لٹا پٹا پایا۔ دربار میں حاضر ہوکر شکایت کی تو بادشاہ نے کہا: ’’کیا تو نے جلتا ہوا چراغ نہیں دیکھا کہ چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے؟‘‘
لاک ڈاؤن کیا ہوا مدرسوں کے یہ ناظم حضرات ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘ والے بادشاہ ہوگئے۔ اساتذہ یقین ہار رہے ہیں۔ اپنے آپ کو دین کے قلعوں میں محفوظ سمجھنے کی امید کھو رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق یوپی کے وہ بتیس لاکھ لوگ جو اپنے گھر لوٹے ہیں ان میں سے اٹھارہ لاکھ لوگوں نے یہ عہد کیا ہے کہ اب وہ روزی روٹی کے لیے شہر نہیں جائیں گے۔ ممبئی شہر کے ایک معروف مسلم آبادی والے علاقے میں واقع ایک مشہور تاریخی مسجد کے امام صاحب اپنی تنخواہ کے انتظار میں تھک کر جب عید سے دو تین دن پہلے اپنے گاؤں جانے کے لیے ٹرین پر سوار ہوئے تو انھوں نے بھی یہی عہد کیا تھا۔ اس طرح انھیں بھی ان اٹھارہ لاکھ لوگوں میں شامل مانا جاسکتا ہے، وہ بھی یوپی کے ہیں۔
کس مدرسے والے نے اپنے اساتذہ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے یہ تو دیر سویر تاریخ کا حصہ بننے والا ہے۔ لاک ڈاؤن شروع بھی نہیں ہوا تھا تب سے رکی ہوئی تنخواہیں اب تک رکی ہوئی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ناظم حضرات کو تنخواہ روک لینے، کم یا آدھی کرنے یا جب تک لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوتا ہے نہ دینے کی مختلف اسکیمیں سوجھ رہی ہیں۔ اور یہ سب اٹکل نہیں روداد ہے۔ کس سیٹھ نے کتنا چندہ دیا، ویسی روداد۔ یہ روداد بھی چھپے گی ایک دن۔
لاک ڈاؤن اگر اساتذہ کی تنخواہیں کاٹنے یا تنخواہیں نہ دینے کا بہانہ نہیں ہے تو ناظم حضرات ایک بار اپنے لائف سٹائل کا بھی جائزہ لے لیں۔ اپنے گھر میں گوشت مچھلی کی کھپت ہی دیکھ لیں۔ کم ہوئی ہے کیا؟ کسی کی دال روٹی اللہ جانے کیسے چھین پاتے ہیں۔
’’چراغ تلے اندھیرا‘‘ والی کہاوت کے وجود میں آنے کی جو حکایت بیان کی جاتی ہے وہ اگر سچی ہے تو مجھے لگتا ہے وہ بادشاہ پہلے ڈاکو رہا ہوگا۔ قلعے کی تو پہرے داری کی جاتی ہے اسی لیے تو اس سوداگر نے قلعے کے پاس سونے میں اپنے آپ کو محفوظ تصور کیا ہوگا۔ مگر وہ لٹ گیا۔ چلو مان لیتے ہیں بادشاہ نے نہیں لوٹا ہوگا لیکن جب وہ بادشاہ کے پاس حاضر ہوا تو بادشاہ نے ایک کہاوت چپکادی۔
ارے ہم کسانوں کے گاؤں جو خانہ بدوش ٹھہرتے ہیں وہ بھی کسی رات بھوکے نہیں سوتے، بس دن میں کسی وقت آکر انفارم کردیتے ہیں کہ ہم یہاں رکے ہوئے ہیں۔ گھر کے باقی لوگوں کی طرح ان کا کھانا بھی تیار رہتا ہے۔ گنا والے بیل گاڑیوں پر اپنی پورٹیبل دکان لگاکر دو چار دن رہ جاتے ہیں، ہر قسم کا تعاون پاتے ہیں۔ ہمارے شہر میں ایسے کنبے بھی کچھ نہ کچھ پا جاتے ہیں جو اپنے آپ کو کسی گاؤں کا بتاتے ہیں اور گاؤں جانے کا کرایہ مانگتے ہیں۔
بادشاہ تو ایسا نہیں ہوتا۔ سوداگر کے نقصان کی بھرپائی کرنا کیا مشکل تھا اس کے لیے۔ اور یہی تو بادشاہت ہے، رعایا کا خیال۔ لاک ڈاؤن میں کتنے لوگوں نے کہاں کہاں تک راشن کٹ پہنچایا۔ ہمارے شہر کی کتنی ایسی مسجدیں ہیں جنھوں نے سرا و علانیہ یہ نیک کام کیا۔
ان مسجدوں میں مدرسے ہیں، ان مدرسوں میں اساتذہ ہیں۔ اساتذہ جامعات میں ہیں۔ مشکل حالات میں ہیں۔ راشن کٹ نہیں مانگ رہے ہیں، اپنی تنخواہ چاہتے ہیں بس۔ چھٹی سے پہلے کی تنخواہ، چھٹی کی تنخواہ۔ وہ چھٹی جو انھوں نے لی نہیں لاک ڈاؤن کے سبب ناظم حضرات کو دینی پڑی۔ عام حالات میں تنخواہ کاٹنے کی کتنی راہیں نکال رکھی ہیں ان حضرات نے، بندھوا مزدوروں جیسا ویوہار ہے اساتذہ کے ساتھ۔ نہ کوئی اگریمنٹ نہ جاب ڈسکرپشن۔ لیکن اپنا مفاد زد پر ہو تو دلیلیں کم نہیں پڑتیں، فتاوے سرحد پار سے آجاتے ہیں۔ دم ہے تو اس صورت حال پر بھی کوئی فتویٰ ائمہ حرم سے منگوا کر دیکھ لیں۔ وہی ائمہ حرم جن کی حاضری سے ہائی بجٹ کانفرنسیں کامیاب کہی جاتی ہیں۔
اگر اس مسئلے میں بھی دلیل نہ دیکھی گئی، فتوے نہ منگائے گئے تو باقی معاملات میں دلیلوں کی تجارت سے کیا بھلا ہوگا؟
جن ناظم حضرات کی اپنے اساتذہ کی تنخواہوں پر نظر ہے اللہ انھیں سمجھ دے، دل میں رحم پیدا کر اور اس بادشاہ جیسا نہ بنا جس نے سوداگر کو ایک کہاوت پر ٹرخادیا تھا۔
جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر نیپال کے ناظم کی طرح بنا جنھوں نے پرسوں (03/06/2020) یہ اعلان جاری کیا ہے کہ اساتذہ کی تنخواہوں میں کوئی تخفیف نہیں کی جائے گی اور شوال کے تیسرے ہفتے تک شعبان رمضان کی تنخواہ ادا کردی جائے گی۔
چراغ (سراج) تلے یہ اجالا بھی اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ بادشاہ ایسا ہوتا ہے۔ ناظم بھی جس مدرسے کو دین کا قلعہ کہا جاتا ہے اس کا بادشاہ ہی ہوتا ہے۔
❤️❤️🌹🌹🌷🌷
ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر ہے اور ذمہ داران مدارس کے لے یقیناً پھٹکار ہے نظماء حضرات ناجانے اپنے کو کیا سمجھتے ہیں اللہ خیر کرے کہ وہ اساتذہ جو اپنی پوری محنت و لگن مدارس کے ترقی کے لئے صرف کر دیتے ہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ظالمانہ اور ناقابل برداشت رویہ اختیار کیا جاتا ہے دین کے ٹھیکیدار بنے پھرتے تھے کہاں ہے وہ آپ کی دینیت؟ اگر آپ اس مصیبت میں اساتذہ کے نہیں دے سکتے تو ایسے ادارے سے دین اسلام کیا وابستہ ہے جو اپنے کا بھلا نہیں… Read more »
ماشاءالله بھت خوب جزاك الله خيرا
ماشاء اللّٰہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو جزاےء خیر دے اور نظماء حضرات کو اپنا محاسبہ کرنے کی توفیق دے ۔۔۔آمین
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔۔۔۔۔۔۔ ماشاءاللہ بہت عمدہ مزید حق وباطل کی طرف رہنمائی کا جذبہ دے۔۔
چراغ تلے اجالا… بہت زبردست تعبیر(افسوس کا مقام ہے جس ہمدردی،خیرجواہی،انسانیت کے دہائی،صدائیں ان درسگاہوں،منبرومحراب سے دی جاتی ہیں وہیں پر یہ چراغ تلے اندھیرا…