ڈاکٹر شمس کمال انجم: ایک اچھے انسان بہترین استاد

ارشد احمد ارشد تاریخ و سیرت

ایک عرصے سے میری خواہش تھی کہ میں اپنے استاد و مرشد ڈاکٹر شمس کمال انجم صاحب کی شخصیت کے بارے میں کچھ لکھوں مگر میرے قلب و ذہن میں ہمیشہ یہ کشمکش رہی کہ ان کی شخصیت کے کس پہلو پر قلم اٹھاؤں کیونکہ ان کی شخصیت کے بہت سارے پہلو ہیں مثلا:
ڈاکٹر شمس کمال انجم بحیثیتِ شاعر:
سوچا تھا ان کی شاعری کو اپنا موضوع بناؤں، یوں مجھے ایک ایسے شاعر پر لکھنے کا موقع مل جائے گا جن کو شاعری وراثت میں ملی ہے۔ آپ کے والد محترم جناب مولانا ڈاکٹر ابوالمآثر حامد الانصاری انجم صاحب بھی شاعر تھے بلکہ مقبول شاعر تھے۔ آپ کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ فی الحال آپ کے تمام مجموعوں کا مجموعہ”کلیات انجم” کے نام سے ڈاکٹر شمس کمال انجم نے ہی شائع کیا ہے۔ ان کے بھائی حماد انجم ایڈوکیٹ بھی صاحب دیوان شاعر تھے۔ خود ڈاکٹر شمس صاحب کا ایک نعتیہ مجموعہ ”بلغ العلی بکمالہ” کے نام سے شائع ہوا ہے۔اس کو پڑھ کر ایک رقیق القلب انسان اس کتاب کے سخنور کے حق میں چند کلمات قلمبند کرنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے مگر چونکہ میں شاعری کے محاسن اور اس کی باریکیوں سے ناواقف ہوں اس لیے میں نے اپنے آپ کو اس موضوع پر قلم اٹھانے لائق نہیں سمجھا کہ میں اس موضوع کے ساتھ شاید انصاف نہ کر پاؤں۔

ڈاکٹر شمس کمال انجم بحیثیتِ مترجم:
ڈاکٹر شمس کمال انجم کی شخصیت کی یہ جہت بھی کافی عرصے تک میرے ذہن میں تھی۔ میں چاہتا تھا دورِ حاضر کے ایک ایسے بڑے مترجم پر اپنے خیالات کا اظہار کروں جس نے عربی ادب کا ایک بہت ہی بڑا ذخیرہ اردو ادب میں منتقل کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔ آپ کی ترجمہ کردہ کتابیں مثلا جدید عربی ادب، عربی نثر کا فنّی ارتقا، تاریخ ادب عربی، بلاغتِ قرآن کریم، تاریخ مدینہ منورہ وغیرہ کتابوں سے ہندوپاک کی یونیورسٹیوں میں ہزاروں طلبہ مستفید ہو رہے ہیں۔ آپ کے ترجموں کی خصوصیت یہ ہے کہ پڑھنے والے کو ذرا بھی محسوس نہیں ہوتا کہ کسی مترجم کتاب کا مطالعہ کررہا ہے۔ اس نزاکت اور باریک بینی سے بہت کم مترجمین کام لیتے ہیں جو عبارت کے ترجمہ کے ساتھ ساتھ جذبات اور احساسات کو بھی منتقل کرتے ہیں۔ ہمارے استاد محترم کے ترجموں میں یہ خوبی بہت وضاحت سے سامنے آتی ہے۔
لہذا میں نے سوچا کہ ایک ایسا شخص جس نے کسی کتاب کا ترجمہ نہ کیا ہو اتنے بڑے مترجم پر جسے یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا اردو ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی طرف سے سید سلیمان ندوی ایوارڈ برائے ترجمہ نگاری تفویض ہوا ہو کیا لکھے اور کیسے لکھے۔ اس لیے میں نے اس موضوع پر لکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔

ڈاکٹر شمس کمال انجم بحیثیت اسکالر:
پھر میں نے سوچا کہ میں ایسے اسکالر پر لکھوں جس نے عربی اور اردو میں اتنا ریسرچ کا کام کیا ہے کہ بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کی طرف سے اسے ممتاز محقق ایوارڈ برائے 2017 تفویض کیا گیا۔ آپ کی عربی زبان میں سب سے بہترین تحقیقی کتاب ”الطبقات الکبری لابن سعد: دراسۃ تحلیلیۃ” قابل ذکر ہے جو لبنان سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں آپ کی کتاب ‘جدید عربی شاعری، نقوش جاوداں اورحدیث عرب و عجم’ میں انمول معلومات پائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کے سینکڑوں مقالات مختلف مجلات وجرائد اور اخباروں میں شائع ہوئے ہیں۔ مگر مسئلہ یوں ہوا کہ میں نے سرسری طور پر آپ کی ریسرچ ورک کا مطالعہ کیا اور یوں لگا کہ میں اس موضوع کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر پاؤں گا اور پھر اس موضوع کو بھی چھوڑ دیا۔

ڈاکٹر شمس کمال انجم بحیثیت صدر شعبۂ عربی:
اس موضوع کے ساتھ اگرچہ میں کم و بیش انصاف کر سکتا تھا کیونکہ میں خود شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے متعلق اس وقت سے واقف ہوں جب کہ یہ شعبہ اس بچے کی مانند تھا جو ماں کی گود میں دودھ پیتا ہو اور اس کی کمزوری کا عالم یہ تھا کہ بہت کم امید کی جاتی تھی کہ یہ کبھی چل پائے گا مگر پھر 2009ء میں ڈاکٹر شمس کمال انجم صاحب اس کشتی کے ناخدا بن کر 20، 22 طالبہ کا کارواں لے کر سمندر کی لہروں کے ساتھ مقابلہ کرنے اترے اور اپنی غیرمعمولی محنت، جدوجہد اور لگن سے اس کشتی کو ساحل آشنا کیا۔ 2009ء سے 2020ء کی لمبی مدت تک آپ کی صدارت ونگرانی میں ہزاروں طلبا کو گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگریاں تفویض کی گئیں۔ اسکالروں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر مختلف حکومتی شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی اردو اور اسلامک اسٹڈیز کے ساتھ غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے ہی دونوں شعبے کیمپس میں وجود پذیر ہوئے اور دونوں شعبوں کی صدارت آپ کے شانوں پر رکھی گئی۔ دو سال سے آپ ان دونوں شعبوں کو بھی عربی کے ساتھ نگرانی کررہے ہیں۔ بیک وقت تین تین شعبوں کی صدارت کے لیے بے انتہا جرات وہمت، تجربہ اور وقت کا متقاضی ہے۔چنانچہ آپ اپنی ہمت، لگن اور تجربے سے ان تین شعبوں کی صدارت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر مختلف سیمیناروں، کانفرنسوں، ورکشاپ اور مشاعروں کے انعقاد کے ذریعے طلبہ کو ایک بہترین علمی وادبی ماحول فراہم کرنا بھی آپ کی انتظامی بصیرت کا حصہ ہے۔ اس کامیابی کے پیچھے آپ کے کلیگس جناب ڈاکٹر عفان صاحب، ڈاکٹر منظر عالم، ڈاکٹر محمد أعظم کا بڑا اہم رول ہے جنھوں نے قدم قدم پر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا۔ اس طرح یہ شعبہ اساتذہ کی آپسی ہمدردی اور اخوّت کے ساتھ کامیابی کی بلندیوں کو چھوتا گیا۔
بہت کوشش کے بعد میں نے اس موضوع پر لکھنا چاہا مگر پھر خیال ہوا کہ اس موضوع پر لکھنے کا حق آپ کے کسی کلیگ کو ہی ہوسکتا ہے کیونکہ ان پر شعبہ کا اندرون اور بیرون مجھ سے زیادہ عیاں ہے، اس طرح اس موضوع سے بھی میں نے گریز کیا۔

ڈاکٹر شمس کمال انجم بحیثیت استاد:
فقط اسی موضوع کے لیے میں نے اپنے آپ کو موزوں پایا کیونکہ ایک شاگرد کو اپنے استاد کے بارے میں لکھنے کا بہرحال حق ہے۔ یہ موضوع اختیار کرنے میں مجھے آپ کے اخلاق نے مجبور کر دیا۔ مجھے یاد آتا ہے وہ دن جب کالجوں کے لیے اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ پر میرا تقرر نہیں ہوا تو رزلٹ آنے کے بعد سب سے پہلا کال مجھے آپ ہی کے نمبر سے آیا اور آپ میرے رنج و غم میں شریک ہوئے۔ اس وقت آپ کی نصیحت یاد آئی کہ ارشد! میں نے کہا تھا کہ پی ایچ ڈی کی تکمیل پر ہی یونیورسٹی سے رخصت ہونا۔ صرف ایم فل کافی نہیں ہے۔ لو آج تم وہی پی ایچ ڈی نہ ہونے کی وجہ سے ڈراپ ہوگئے۔ پھر آپ نے فرمایا آج کل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے فارم نکلے ہوئے ہیں۔ اپلائی کرو گے؟ میں نے کہا میں مشورہ کروں گا۔ آپ نے کہا آخری تاریخ ختم ہونے والی ہے۔ ”ہاں یا نہ” میں جواب دو۔ میں نے کہا ہاں۔ پھر رابطہ منقطع ہوگیا۔ اور میں نے اپلائی بھی نہیں کیا اور ایک مہینے کے بعد مجھے یونیورسٹی سے کال آتا ہے کہ آپ کا وائیوا ہے۔ میں حیران ہوا کہ وائیوا کس چیز کا ہے؟ بتایا گیا پی ایچ ڈی ایڈمیشن کا ہے میں نے کہا میں نے اپلائی نہیں کیا۔ بتایا گیا شمس سر نے خود آپ کا فارم بھردیا تھا اور فیس بھی آپ نے خود بھر دی تھی۔ آپ کے ڈاکومنٹس ایم فل فائل سے نکال کر لگادیے تھے اور آپ کا فوٹو فیس بک سے نکالاتھا۔ تو اس وقت میں نے جانا کہ ایک اعلی استاد کی شان کیا ہوتی ہے۔ وہ ہر حال میں اپنے طلبہ کا بھلا چاہتا ہے اور ہر حال میں محبت و شفقت سے پیش آتا ہے۔
میں اسی وقت چاہ رہا تھا کہ آپ کے اعلیٰ اخلاق اور اعلی کردار پر ایک مضمون لکھوں مگر پھر ڈر ہوا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اپنے گائیڈ کو خوش کرنے کے لیے لکھتا ہے۔ لیکن آج جبکہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اور میرے اساتذہ اور والدین کی دعاؤں سے مجھے لیکچررشپ کے منصب پر فائز کر دیا ہے تو اگر اب میں آپ کی شخصیت پر قلم اٹھاتا ہوں تو میرے اخلاص پر انگلی نہیں اٹھ سکتی۔
مجھے یاد آتا ہے۔ ہم لوگ ایم فل کے طالب علم تھے۔ وہ ہمیں پہلے سمسٹر میں ریسرچ میتھاڈولوجی پڑھاتے تھے۔ انھوں نے ہم لوگوں میں عربی اور انگریزی کا شوق پیدا کرنے کے لیے کلاس میں کبھی اردو میں بات نہیں کی۔ ہم لوگ بھی سوال وجواب عربی اور انگریزی میں کرتے تھے۔ جس سے ہم لوگوں کی زبان بہت صاف ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ شرط بھی لگادی تھی کہ ان کے پاس یا ان کے دفتر میں جو بھی جائے گا وہ عربی میں بات کرے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم لوگ جملے بناکر ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ اس طرح انھوں نے ہم لوگوں میں عربی کا شوق پیدا کیا اور بولنے کی مشق کرائی۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں بیٹھا ہوا تھا۔ عشاء کی اذان ہو رہی تھی۔ میں وضو کرکے ہاسٹل سے باہر نکلا اور مسجد کی طرف نماز پڑھنے کے لیے چل دیا۔ اچانک میری نظر عربی ڈپارٹمنٹ پر گئی۔ میں دور سے دیکھ رہا تھا کہ آفس میں بجلی جل رہی ہے۔ میں نے سوچا کہ آفس والے آج بجلی بند کرنا بھول گئے۔میں نے فون اٹھا کر شمس صاحب سے بات کی۔ سر آفس والے آج آفس کی بجلی بند کرنا بھول گئے۔ تو آپ نے جواب دیا کوئی بھولا نہیں، میں یہیں بیٹھا ہوا ہوں۔ میں نے حیرت سے پوچھا سر خیریت ہے! تو آپ نے جواب دیا کہ ہاں خیریت ہے۔ آجاؤ آفس میں۔ پھر ساتھ واپس چلتے ہیں۔ میں نے آفس کی طرف دوڑ لگائی اور آفس کا دروازہ کھول کر دیکھتا ہوں کہ آپ تن تنہا ایک کتاب اور کمپیوٹر لے کر کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا سر آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا یہ میرے ایک اسکالر کی تھیسس ہے وہی چیک کر رہا ہوں۔ دن میں ٹائم نہیں ملتا۔ آفس کا ایک بڑا بوجھ میرے کندھوں پر ہے۔ اوپر سے دن میں بی اے اور ایم اے والوں کی کلاس اور سیمینار کی تاریخ بھی نزدیک آ رہی ہے۔ اس لیے میرے پاس میرے اسکالروں کو دینے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور وقت نہیں کہ میں رات کے 10 بجے تک آفس میں بیٹھا رہوں۔
اس وقت میں نے یہ محسوس کیا ”ومن طلب العلٰی سہر اللیالی” بلندیوں کو چھونے والے راتوں کو جاگا کرتے ہیں۔ صبح 8 بجے سے شام کے 10 بجے تک کام کرنے والی یہ شخصیت کبھی کاہلی اور سستی کا شکار نہیں ہوتی بلکہ ہر وقت سرگرم اور متحرک رہتی ہے۔ یہی ہے ایک بہترین استاذ کی نشانی۔
شمس صاحب کی شخصیت پر بہت لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے مگر ان کی تحریروں کا سرچشمہ شمس صاحب کی کتابیں ہیں جن کا مطالعہ کر کے انھوں نے آپ کے متعلق اپنی آراء قلمبند کی ہیں مگر میری آراء ان سے کچھ مختلف ہیں۔ میں نے ان چشم دید حقائق کا انکشاف کیا ہے جو لوگوں سے مخفی ہیں۔ یہ حقائق آپ کو ایک استاد ہونے کے ناطے آپ کی سیرت کو جِلا بخشتے ہیں۔
آپ کے طلبہ کیسے ان چیزوں کو بھول سکتے ہیں کہ آپ خود ان کو سیمینار اور کانفرنس میں شرکت کے لیے تیار کرتے ہیں۔ کبھی تحریری طور پر تو کبھی تقریری طور پر۔ سیمینار اور کانفرنس میں اسٹیج پر بڑی بڑی شخصیات کے سامنے ان کی بڑی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اسی حوصلہ افزائی سے آپ نے ان کے اندر علم و ادب کا ایک جنون و جذبہ پیدا کیا ہے جس جنون اور جذبے کا پھل آپ آج کل خود محسوس کر رہے ہیں کہ آپ کے طلباء بڑے بڑے منصبوں پر فائز ہوکر تحریری اور تقریری طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ میرے نزدیک ایک بہت بڑی کامیابی ہے اس شخص کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے پودوں کو پھل دار درخت کی شکل میں دیکھتا ہے۔

یہ جو کچھ میں نے شمس سر کی بحیثیت استاد پرسونا پر لکھنے کی جرأت کی ہے اس کے گواہ شعبے کے سارے طلباء ہیں۔ باتیں اور بھی ہیں لیکن فی الحال میں اسی پر اکتفا کروں گا اور دعا کروں گا کہ علم کے پیاسے آپ کے بحر سے سیراب ہوں اور آپ شاد رہیں آباد رہیں۔ آمین

3
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالمتين

ما شاء الله. بہت خوب. آپ نے ڈاکٹر صاحب کی شخصيت کے جن پہلووں پر لکھنے کیلئے خود کو اہل نہیں پایا ان پہلووں پر بھی آپ نے بہت کچھ لکھ دیا. الله مزید ایسے اساتذہ پیدا فرمائے جو اتنے خلوص کے ساتھ طلبہ کی تربیّت کرتے ہیں. يقينا عملی زندگی میں کامیاب طلبہ اپنے اساتذہ کیلئے صدقہ جاریہ ہوتے ہیں اور یہی ان اساتذہ کی کمائ ہے. ڈاکٹر صاحب کے والدین بھی کمال کے تھے جنہوں نے اتنا پیارا نام منتخب کیا “شمس كمال أنجم”. یہاں عربی کا ایک مقولہ صادق آتا ہے “تفاءلوا بالخير تجدوه”.

Dr Shams Kamal Anjum

جزاكم الله خيرا اخانا الفاضل الكريم…. اسأل الله ان يجعلني عند حسن ظنكم بي…. بارك الله فيكم

ڈاکٹر عبد الروف

ماشاء اللہ. بہت ہی مختصر مگر جامع تعارف پیش کیا ہے. ڈاکٹر شمس کمال انجم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں. میرے خیال میں ان کی شخصیت کو بیان کرنے میں کہیں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں. میرے نزدیک بلاغتِ قرآن پر جو انہوں نے کام کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے. اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کو سلامت رکھے اور ادب کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 🌹