فکر ونظر کی بندگی

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی ادیان و مسالک

فکر ونظر کی حقیقت:
انسان کو جو قوتیں اور صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں ان میں سے ایک غور وفکر کی صلاحیت بھی ہے۔ ہر انسان سوچتا ہے مگر ہر شخص کی سوچ ’’فکر ہر کس بقدر ہمت اوست‘‘ کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
لکھنے پڑھنے والوں کے ساتھ ایک معاملہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں طرح طرح کے افکار جنم لیتے ہیں اور اکثر ان کے علمی سفر کی اگلی منزلیں یا تو ان افکار کو مزید مستحکم کردیتی ہیں اور پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ افکار ان کے قلب ودماغ میں یقین کے مدراج طے کرتے چلے جاتے ہیں یا پھر مستقبل میں ان کا علمی سفر ان افکار کے نقص اور کمزوری کو خود ان پر واضح کردیتا ہے اور وہ افکار چند نئے افکار یا حقائق کی چٹانوں سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہوجاتے ہیں اور وہ لوگ ان افکار سے دست بردار ہوجاتے ہیں۔
فکرونظر کا یہ سفر خود اپنے آپ میں ایک الگ لذت اور چاشنی بھی رکھتا ہے جس کا کوئی بدیل نہیں ہے۔ لوگ تو شراب ومنشیات اور دولت کی مستی جانتے ہیں ورنہ نشہ تو فکر ونظر کا بھی ہے اور بدمست تو بہت سارے اہل نظر بھی ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس جادونگری میں آپ کو طرح طرح کے نمونے ملیں گے۔
یہاں آپ کو بڑے سے بڑا دیوانہ بھی ملے گا اور ایک سے ایک فرزانہ بھی۔ انسانی زندگی کے مسائل اور انسانی سماج کے مختلف گوشوں اور ہر میدان سے متعلق عام روش سے ہٹ کر سوچنے والے اور ایک نئے زاویے سے متعلقہ مسائل کو دیکھنے والے آپ کو بکثرت نہ سہی معتدبہ تعداد میں ضرور ملیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لکھنے پڑھنے والے لوگ آزاد ہوتے ہیں، ان کی روح آزادی کے احساس سے سرشار ہوتی ہے اور فکر مسلسل پرواز کرتی رہتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے جسم قید بھی ہوتے ہیں تو ان کی فکر آزاد ہوتی ہے بلکہ یوں کہیں ایسے حالات میں کچھ زیادہ ہی آزاد ہوتی ہے۔ ان کا مطالعہ ان کی غذا ہوتی ہے تو فکر وتدبر اور غور وفکر کی عادت اور قابلیت ان کی فکر کے بازووں کو طاقت پرواز بخشتی ہے۔

فکر ونظر کی اہمیت:
شخصی فکر بسا اوقات اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ دوسروں کے ذہنوں کو متاثر سے مسخر کرنے تک کا سفر بڑی آسانی سے طے کرلے جاتی ہے اور دوسروں کو اپنا غلام بنالیتی ہے۔ اور صاحب فکر کو ایک قسم کے احساس برتری یا یافت کی کیف ومستی سے سرشار کرجاتی ہے۔ علم وآگہی اور فکرونظر کی لذت کا یہ تجربہ اس لذت سے قریب تر ہے یا اسی کا ایک پرتو ہے جس کا تعارف ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے (لویعلم الملوک وأبناء الملوک مانحن فیہ من السروروالنعیم إذا لجالدونا علی ما نحن فیہ بأسیافہم أیام الحیاۃ، علی ما نحن فیہ من لذۃ العیش وقلۃ التعب)
اگر بادشاہ اور شہزادے یہ جان لیں کہ ہم (دنیا والوں کی طرح) جسمانی مشقت سے پرے مگر زندگی کے مزے سے بھرپور کیسی نعمت اور سرور میں جیتے ہیں تو زندگی بھر ہم سے اپنی تلواروں کے ذریعے لڑتے رہیں گے۔(حلیۃ الأولیاء: ۷: ۳۷۰)
جس شخص کو جس قدر اپنی فکر ونظر اور اس کی یہ آزادی عزیز ہوتی ہے وہ اسی قدر اس کی حفاظت کرتا اور اپنی انفرادیت باقی رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
کسی بھی مفکر کی نظر میں اپنی فکر کی حیثیت – جس کو نکھارنے اور سنوارنے میں اس نے اپنا بہت کچھ صرف کیا ہوتا ہے – بالکل وہی ہوتی ہے جو حیثیت ایک ماں کی نظر میں اپنے بچے کی یا ایک کسان کی نظر میں اپنی کھیتی کی ہوتی ہے۔ وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اسے بے حد عزیز رکھتا ہے گرچہ دنیوی اعتبار سے وہ اس بات پر قادر ہو کہ دوبارہ اس جیسی ایک اور فکر کو جنم دے مگر پھر بھی موجودہ فکر کو قربان کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں ہوتا۔
غور وفکر کی اس عظیم صلاحیت سے مالامال سماج کے مختلف شعبوں سے وابستہ یہ لوگ دراصل تھنک ٹینک کی حیثیت رکھتے ہیں اور سماج کا رخ متعین کرتے ہیں۔ اور انسانی زندگی کے مختلف شعبہ جات پر ان کے بڑے دور رس، مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سائنس تو کل کی کل اسی ڈھرے پر چلتی ہے، اکتشافات واختراعات کی دنیا اسی طرز سے رفتار پکڑتی ہے، ہر دور میں انسانی تہذیب بھی اسی شاہ راہ پر گامزن ہوکر ترقی کے مدارج طے کرتی چلی آئی ہے۔
فکر ونظر کی تشکیل میں دراصل کئی چیزیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں فکر استقامت یا انحراف دونوں راہوں میں سے کسی پر بھی گامزن ہوسکتی ہے۔ بسااوقات ایک غلط ماحول یا صحبت، یا کسی بھٹکے یا بہکے انسان یا معاشرہ کی تاثیر بھی اپنا اثر دکھلاتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیشتر کو اس بات کی بھی خبر نہیں ہوتی کہ انسان کے جسم اور اس کے اخلاق وعادات کی طرح فکر بھی نشو ونما اور تربیت کی محتاج ہوتی ہے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر ہر ذہن کو میسر آتی ہے، جو کبھی اختیاری ہوتی ہے تو اکثر غیر اختیاری۔ مگر ہر ذہن اس سے گزرتا ضرور ہے اور انسان کے آس پاس موجود مختلف عوامل تأثر وتاثیر کے اس عمل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
فکر ونظر سے متعلق مذکورہ حقیقت ہی کا نتیجہ ہے کہ علم کے جویا اور فکر کے رسیا ان لوگوں میں کئی طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جن کے پاس ایسی بہت ساری شخصی آراء یا انفرادی افکار ہوتے ہیں جو خلل کا شکار اور نقص سے بھر پور ہوتے ہیں مگر ان کا نقص خود ان افکار کے حاملین پر عیاں ہوتا ہے اسی لیے وہ کبھی ان کا اظہار کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ بہت سارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے فکری شذوذ اور تفردات کا اظہار یا تو اس لیے نہیں کرپاتے کہ خود ان کو اس فکر پر کلی اعتماد نہیں ہوتا یا پھر مزاج میں وہ بانکپن ہی نہیں ہوتا کہ زمانے کی عام ڈگر سے ہٹنے کی ہمت وحوصلہ جٹا سکیں۔ دوسری طرف کئی لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر اپنی فکر کا سحر طاری ہوتا ہے، وہ دوسروں کو مطئن نہ کرسکیں تو نہ کریں مگر اپنی جگہ خود اس فکر کو ایک مسلمہ حقیقت کے درجے میں تسلیم کیے بیٹھے رہتے ہیں۔ انہی میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی دریافت پر اس قدر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں اور اس کی نشر واشاعت میں اس قدر مگن کہ وہ پورے سماج سے ٹکرا جاتے ہیں مگر اپنی بات رکھنے اور اس کی ترویج و اشاعت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

موجودہ مذاہب عالم کی تشکیل میں فکرونظر کا کردار:
زندگی کے ہر میدان کی طرح مذہب کا معاملہ بھی اس تکوینی سنت سے مستثنی نہیں ہے۔ یہاں بھی انسانی ذہن اپنا کردار ادا کرتا ہے بالخصوص اگر آپ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوں کہ مذہب محض بندہ ورب کے باہم رشتے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں رب کی رضا وخوشنودی تلاش کرنے کا نام ہے یا کم ازکم بقول مولانا ابوالکلام آزاد اس حقیقت کے قائل ہوں کہ انسانیت کی دکھتی ہوئی پیٹھ کو مذہب کی دیوار ہی سہارا دے سکتی ہے تو پھر مذہب سے متعلق بھی انسانی فکر کا یہ طرز عمل سماج اور تاریخ کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے آپ آنکھیں نہیں چراسکتے۔ بلکہ انسان کے یہ افکار کچھ زیادہ ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، بالخصوص کسی بھی مذہب کے عام دھارے اور روش سے ہٹ کر جنم لینے والے افکار کا معاملہ سب سے اہم ہوتا ہے۔
دنیا میں پائے جانے والے مذاہب بالخصوص جنھیں آسمانی مذاہب کہا جاتا ہے ان میں سے سوائے اسلام کے سبھی مذاہب ایک تلخ تاریخی حقیقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ان مذاہب کے پیروکاروں نے اپنی بنیادی کتابیں ضائع کردیں اور مذہب اور دین کے نام پر محض افراد اور مذہبی رہنماووں کے افکار کا ذخیرہ ہی ان کی کل جمع پونجی ہے۔ لہذا {ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا}
اگر یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے (النساء: ۸۲) کے بمصداق دین کے نام پر موجود افکار میں تضاد بھی ہے اور افکار کے اس تضاد کو قبول کرنا ان کی مجبوری بھی تو دوسری طرف (ھم رجال ونحن رجال) کے ضابطہ کی رو سے ہر نئی فکر کو قدیم فکر سے بھڑا دینا ان کا حق بنتا ہے۔
انہی حقائق کو اللہ تعالی نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے {اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولاتتبعوا من دونہ أولیاء قلیلا ما تذکرون} تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمھارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔ (الأنفال:۳) {إن یتبعون إلا الظن وما تھوی الأنفس ولقد جاء ھم من ربھم الھدی} یہ لوگ تو اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔ (النجم:۲۳) {اتخذوا أحبارھم ورھبانھم أربابا من دون اللہ} ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے۔ (التوبۃ:۳۱) {أم لھم شرکاء شرعوا لھم من الدین ما لم یأذن بہ اللہ} کیاان لوگوں نے ایسے شریک (مقرر کررکھے ہیں) جنھوں نے ایسے احکام دین مقرر کردیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔ (الشوری:۲۱) {ولاتتبعوا أھواء قوم قد ضلوا من قبل وأضلوا کثیرا وضلوا عن سواء السبیل} اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ (المائدۃ:۷۷)

فکر ونظر کی بندگی:
لیکن دین اسلام کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ اس کی بنیادیں محفوظ ہیں اور تا قیامت رہیں گی۔ (إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحافظون) ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ (الحجر:۹) اس لیے نہ یہاں فکر ونظر کا ہر تضاد قابل قبول رہ جاتا ہے اور نہ ہی یہاں(ھم رجال) کہنے کی گنجائش نکل پاتی ہے۔ یہاں ہر فکر چھلنی میں چھانی جائے گی۔ (فإن تنازعتم في شيء فردوہ إلی اللہ والرسول إن کنتم تؤمنون باللہ والیوم الآخر ذلک خیر وأحسن تأویلا) پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف اگر تمھیں اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ (النساء:۵۹)
عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ بہت سارے مسلمان مفکرین بھی مستشرقین کی طرز پر دنیا کے دیگر مذاہب کی طرح اسلام کو بھی اسی پیمانے سے ناپنے پر تلے ہیں۔ یہاں وہ چاہتے ہیں کہ ان کی یا ان کے اپنے پیشوا کی ہر رائے کو ویسے ہی تقدس حاصل ہو جیسے دیگر مذاہب کے پیشواوں کے ملفوظات یا فرمودات کو حاصل ہے اور اسے فریق مخالف کی رائے کے احترام جیسے خوشنما الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں اصول یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی موضوع پر دوچار سو صفحات کو سیاہ کردینے کے بعد اس موضوع کے سلسلے میں اتھارٹی یا سند کی حیثیت پالیتا ہے۔ یہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دیگر مذاہب کے ساتھ یہ مجبوری ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی پیمانہ نہیں کہ جس پر کسی فکر کو تولا جاسکے، صحیح وغلط کی بات کی جاسکے، اس لیے وہ سب کے احترام کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ سب کی رائے کا بھی احترام کیا جائے چاہے وہ کتنی ہی خلاف شرع بات ہو۔ دور جدید کا جن سیکولرازم ہے تو یہ لوگ چاہتے ہیں سب کا دین بھی سیکولر ہوجائے۔
کتاب وسنت کی واضح تعلیمات اور اسلامی شریعت کے مصادر افکار کے اس سیکولر نظریہ کی تردید کرتے ہیں۔ یہاں خود ایک مفکر یا صاحب قلم کو یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی رائے صرف رائے ہے۔ اسے دین کا نام دینے سے پہلے ہزار بار پرکھنا چاہیے کہ کیا واقعی یہ اللہ کی اور اس کے رسول کی تعلیمات کی ترجمانی ہے؟ یہاں خود آدمی کو اپنی فکر دوسرے کے سامنے پیش کرنے سے پہلے ترازو میں تولنی ہوگی، یہاں اس حقیقت کو تسلیم کرنا اس کا فریضہ ہوگا کہ وہ ایک بندہ ہے اور اس کی زندگی عبادت سے عبارت ہے اور یہ عبادت اس کی فکرونظر کو بھی اپنے دائرے میں گھیرے ہوئے ہے۔ یہاں فکرونظر کے بحر بے کنار کے غواص کو اس حقیقت کو یاد رکھنا ہوگا اور اس کو قبول بھی کرنا ہوگا کہ اکثر سالہا سال تک ذہن ودماغ کو تپا کر جس فکر کو جنم دیا ہے بسا اوقات اس فکر کو بالکل ویسے ہی ذبح کرنا پڑے گا جیسے ابراہیم علیہ السلام نے رب کی رضا کی خاطر سالہا سال کے ارمانوں اور دعاؤں کے بعد ملے اپنے فرزند کو بے انتہا لگاؤ اور غیر معمولی محبت کے باوجود ذبح کرنے پر آمادگی ظاہر کردی تھی کہ یہی کمال بندگی ہے۔
زندگی کے دیگر میدانوں کے بالکل برعکس دین ومذہب کا میدان ایک گونہ پابندی کا ہے۔ یہاں فکر آزاد بھی ہے اور قید بھی، یہاں ایک انسان آگے کی طرف دیکھنے سے پہلے پیجھے مڑ کر دیکھنے کا پابند ہے، یہاں دوڑنے سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ پیروں میں بندھی رسی کی لمبائی کتنی ہے۔ کیونکہ انسان اپنے ظاہر وباطن کے ساتھ جب بندگی کی عظیم ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے تو اس کی فکر ونظر کیسے اس بندگی کے دائرے سے باہر ہوسکتی ہے؟
انسانی فکر پھر دودھاری تلوار بن جاتی ہے، عقیدہ وفقہ کے مختلف مسائل کی طرح دلائل شرعیہ کی روشنی میں فکر بھی غلط یا صحیح ہوسکتی ہے۔
قرآن مجید میں وحی سے متعلق وارد آیات اور ان کے مفہوم پر نظر دوڑائیں تو ایک بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ نبوی وحی کے علاہ قرآن مجید میں مزید دو قسم کی وحی کا تذکرہ ہے۔ ان دونوں قسم کی وحی کی حقیقت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ فکر ونظر کا منبع ومصدر ان دونوں میں سے کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ ایک تو وہ جس کے بارے میں فرمایا: {وأوحی ربک إلی النحل أن اتخذي…} آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ …(النحل:۶۸) مزید فرمایا: {وأوحینا إلی أم موسی أن أرضعیہ فإذا خفت علیہ فألقیہ في الیم ولا تخافي ولا تحزني} ہم نے موسی کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی رہ اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہادینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج غم نہ کرنا۔ (القصص:۷) اور دوسری وہ جس کے بارے میں فرمایا: {وإن الشیاطین لیوحون إلی أولیائہم لیجادلوکم وإن أطعتموہم إنکم لمشرکون} اور یقینا شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقینا تم مشرک ہوجاؤگے۔ (الأنعام:۱۲۱) لہذا ہر خیال کو خود کی دریافت سمجھنے اور اس کی راستی پر اصرار کرنے سے پہلے اس کو قرآن وسنت اور سلف صالحین کے فہم اور منہج کی روشنی میں پرکھنے کے لیے آمادہ رہنا ہی دراصل عقلمندی اور سمجھداری ہے۔
کیونکہ فکر اگر مستقیم ہو اور نیتوں میں اخلاص ہو تو ایسی فکر کے حاملین ہی سماج کا دھارا بدلتے اور مصلحین امت کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس فکر خود ساختہ ہو، جادہ حق سے منحرف ہو مگر صاحب فکر کو اپنی راستی پر اصرار ہو اور اس پر مستزاد خودنمائی کا جذبہ بھی کارفرما ہو تو ایسے مفکرین پھر سماج میں فتنہ بنتے ہیں۔ لہذا فکرو نظر کے اس پرخطر دوراہے پر کھڑے ہر شخص کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی فکر اور اپنی شخصیت سے زیادہ اس فکر کے نتائج وعواقب پر نظر رکھے۔ زندگی کے ہر معاملہ کی طرح فکر بھی بندگی کی پابند ہے۔ فکر ونظر کا جمود وتعطل ایک المیہ ہے تو اسی فکر ونظر کی حد سے بڑھی بے باکی اس کی سرکشی اور تمرد ہے۔ دین ومذہب کے باب میں فکری آزادی کو اگر بندگی کی بیڑیوں سے باندھا نہ جائے تو آخرت میں اس کا حاصل بس یہی ہوگا کہ بندہ زبان حال وقال سے کہتا پھرے گا:
اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی
یہاں فکر کی آزادی جزوی طور پر پابند سلاسل ہے۔ بقول عامر عثمانی:
آزادی کامل بھی عامر پابند ہے کچھ قانونوں کی
ہر قید چمن سے آزادی آزادئ نیک انجام نہیں
مگر یہ جزوی قید قید نہیں حقیقی آزادی کا ادراک ہے، یہ دراصل خود فکر کی غلامی سے آزادی کا حسین احساس ہے۔ بندہ بندہ ہے، عبدیت اس کی فطرت ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
زندگی کے دیگر شعبہ جات کی طرح دین میں بھی مطلق العنانی اور فکری آزادی کی چاہ اور طلب دراصل فطرت سے بغاوت ہے۔ دین کے معاملے میں فکرونظر کو شریعت کے تابع رکھنا دراصل فکر ونظر کی بندگی ہے، اسی بندگی کی یاد دہانی کرواتے ہوئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: (اتھموا الرأي علی الدین) بات جب دین کی ہو تو تم خود اپنی فکر کو متہم کرو۔ (فضائل الصحابۃ للإمام أحمد بن حنبل:۵۵۸) اور اسی بندگی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: (لوکان الدین بالرأي لکان أسفل الخف أولی بالمسح من أعلاہ ولکني رأیت رسول اللہﷺ یمسح علی ظاھرھما) اگر دین رائے کا نام ہوتا تو موزوں کا نچلا حصہ زیادہ مناسب تھا کہ اس پر مسح کیا جاتا۔ لیکن میں نے رسول اللہﷺ کو اس کے اوپری حصہ پر مسح کرتے دیکھا ہے۔ (ابوداؤد)
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بہت سارے ہیں جو عبادت کے نام پر نماز، روزہ، حج اور زکوۃ جیسے اعمال کے تو پابند ہیں مگر اپنی فکر اور اپنے نظریات کو اس دائرہ سے آزاد یا خارج کوئی ایسی چیز سمجھتے ہیں جس کا بندگی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ حالانکہ اعضاء وجوارح کی بندگی سے بڑی بندگی فکر ونظر کی بندگی ہے اور انسان کی ظاہری بندگی کا دارومدار بھی دراصل اس کی باطنی بندگی پر ہے۔

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی کی دیگر تحریریں

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
rasheedsalafi321@gmail.com

شیخ کی تقریر کی طرح تحریر بھی بہت متوازن اور معیاری ہوتی ہے،فکرانگیز تحریر۔۔۔۔۔اس طرح کے موضوعات کیلئے دماغ کو پسینہ پسینہ کرنا پڑتا ہے جو آپ نے اس لکھ دیا جزاکم اللہ خیرا