تھکن حد سے گزر جائے تو پھر جھولوں سی لگتی ہے

خمار دہلوی شعروسخن

تھکن حد سے گزر جائے تو پھر جھولوں سی لگتی ہے

نکیلے پتھروں کی سیج بھی گدوں سی لگتی ہے


کسانوں کو سنہرے خواب دکھلاتی تو ہے لیکن

یہ بارش بھی کسی کے ہو بہ ہو وعدوں سی لگتی ہے


ہمیں دنیا کی ہر ایک چیز ہر آرائش دنیا

کسی مجنون کے دیکھے ہوئے خوابوں سی لگتی ہے


تعجب ہے کہ یہ سارے کے سارے کارخانے ہیں

بناوٹ تو مگر ان سب کی اسکولوں سی لگتی ہے


دوپہری میں جو پتھر توڑتے ہیں وہ سمجھتے ہیں

کرن سورج کی ننگے جسم پر شعلوں سی لگتی ہے


زمانے والے جس کو سنت منصور کہتے ہیں

کئی لوگوں کو یہ عادت مری بھولوں سی لگتی ہے


ہوا یہ معجزہ الله جانے کس کی آمد سے

جو تھی خاروں کی وادی اب وہی غنچوں سی لگتی ہے

آپ کے تبصرے

3000