تہ دام ہونے کو دانے بہت ہیں

خمار دہلوی شعروسخن

تہ دام ہونے کو دانے بہت ہیں

پرندے بھی لیکن سیانے بہت ہیں


بناؤ نہ ہم کو ہمیں سب خبر ہے

“حقیقت کی تہ میں فسانے بہت ہیں”


رکھوں رابطہ کیوں نئے دشمنوں سے

ابھی دوست میرے پرانے بہت ہیں


ابھی زرد چہرے ہیں انسانیت کے

میں کیسے کہوں دن سہانے بہت ہیں


اگر ملنا چاہیں تو مشکل نہیں ہے

نہ ملنے کے لیکن بہانے بہت ہیں


یہ فٹ پاتھ جنگل ندی کے کنارے

جو بےگھر ہیں ان کے ٹھکانے بہت ہیں


ترقی پذیر ان بڑی بستیوں میں

ہیں اسکول کم کارخانے بہت ہیں


دلوں میں وفا نام کو بھی نہیں ہے

لبوں پر وفا کے ترانے بہت ہیں

آپ کے تبصرے

3000