حالات کے تقاضے

محمد مظہر الاعظمی فقہیات

قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے
تب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلم قوم اب اپنی فکری صلاحیت کھو چکی ہے، اسے یہ معلوم نہیں کہ حالات کیا ہیں اور حالات کے تقاضے کیا ہیں، ان تقاضوں کے مطابق ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ جو قوم حالات اور ان کے تقاضوں کو بروقت نہیں سمجھے گی، وہ اپنا وقار، عزت وآبرو اور مقام ومرتبہ سب کچھ کھو دے گی اور اقوام عالم کے سامنے ذلیل ہو کر رہ جائے گی، اور ذلیل ورسوا ہونے کے بعد وہ اچھی اور سچی بات بھی نہیں کہہ سکتی اور اگر کہے گی تو اسے کوئی اہمیت نہیں دے گا اور نہ ہی اس بات میں کوئی وزن سمجھا جائے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اور صحابہ کرام کو بھی اخلاقیات سے اسی لیے مرصع کیا تھا کہ جب ہم با اخلاق ہوں گے تو با وقار بھی ہوں گے اور جب باوقار ہوں گے تو ہماری بات کو اہمیت بھی دی جائے گی اور توجہ سے سنی بھی جائے گی۔ بر خلاف اس کے بے وقار کی بات کا سماج میں کیا وقار ہوتا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔

قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی، صرفہ کم ہونے کہ وجہ سے اسے مختصر کر دیا۔ باقی حصہ کو حطیم کی شکل میں چھوڑ دیا جو آج بھی پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ يا عائشة لو أن قومك حديث عهد بالجاهلية لأمرت بالبيت فهدم، فأدخلت فيه ما أخرج منه (صحیح البخاری:1586)
اے عائشہ تیری قوم زمانہ جاہلیت سے ابھی قریب نہ ہوتی تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ (نئی تعمیر میں) اس حصہ کو بھی داخل کردوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے۔

یہ حدیث واضح ثبوت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کس طرح حالات کو سامنے رکھا اور صرف اس لیے نہیں گرایا کہ ابھی ان کی حمیت بھڑکے گی تو معاشرے کا امن وسکون سبوتاژ ہو سکتا ہے۔

ہمارے برادران وطن کا مذہبی جانور گائے ہے، اسے وہ بھگوان سمجھتے ہیں اور اس کی وہ پوجا کرتے ہیں، ان کے اسی مذہبی جذبات اور آستھا کو ملحوظ رکھ کر حکومت نے اس پر پابندی بھی عائد کردی ہے، جس پابندی کو ملحوظ رکھنا اور برادران وطن کے مذہبی جذبات کو سمجھنا وقت اور حالات کا تقاضہ ہے۔ مگر افسوس کہ کچھ نا عاقبت اندیش اس معاملہ کی نزاکت کو نہیں سمجھتے اور بلا وجہ ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جو پوری امت کی بدنامی اور پریشانی کا سبب بنتی ہے۔

اس قسم کے ناعاقبت اندیش لوگوں نے چند روز پہلے جو حرکت کی ہے اگر لاک ڈاؤن نہ ہوتا اور انتظامیہ سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے اصل مجرم تک نہ پہنچی ہوتی تو پھر مئو ناتھ بھنجن کا اس وقت کیا نقشہ ہوتا اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہے، دعا ہے کہ اللّٰہ ہم سب کو حالات سمجھنے کی توفیق بخشے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000