پروٹسٹ پروف سرکار

عبد اللہ فیصل سیاسیات

ایک وقت وہ تھا جب عوامی مسائل کے حل کے لیے سیاسی، سماجی اور فلاحی تنظیموں کے ذمہ داران وکارکنان اور سیاسی پارٹیوں کے لیڈران احتجاج اور مظاہرے کرے تھے اور ان احتجاجی مظاہروں کی قیادت بھی کرتے تھے خاطر خواہ کامیابی بھی ملتی تھی۔ حکومت وقت کو جھکنے پر مجبور کردیا جاتا تھا۔ حکومت بات چیت کے لیے مسئلہ کے حل کے لیے آمادہ ہوجاتی تھی۔ ایسے کئی واقعات ماضی میں پیش آچکے ہیں کہ عوامی احتجاج کے سامنے حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں اور عوام نے اپنے مطالبات بھی منوا لیے ہیں۔ احتجاج گوجروں نے بھی کیا تھا ان کا احتجاج جارحانہ وجاہلانہ تھا جس میں حکومت کو اربوں روپیوں کے نقصانات ہوئے، مسافروں کو تکلیفیں بھی ہوئیں۔ ریل پٹریوں پر جھگی بنا کر بچوں عورتوں بوڑھوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ جاتے تھے، گیس باٹلہ اور خوردنی اشیاء مع سازوسامان کے ہفتوں دھرنے پر بیٹھے رہتے تھے اور مطالبات منوا کر ہی چھوڑتے تھے۔
لیکن موجودہ وقت کی حکومت تمام تر مخالفتوں، دھرنوں اور مظاہروں کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتی ہے نہ عوام کے جائز مطالبات پورے ہوتے ہیں۔

ریل اور بس کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ:
مودی حکومت آنے کے بعد ہی ۱۵ فیصد ریل کرائے میں اضافہ کیا گیا تھا اور ہر سال کرایہ بڑھتا ہی رہا ہے لیکن مسافروں کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ ٹرینوں میں انسانوں کو بھوس کی طرح ٹھونس دیا جاتا ہے اور یہ اتر بھارت کی طرف جانے والی ٹرینوں کے ساتھ زیادہ تر ہی ہوتا ہے۔ جن مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کر کے لوگ سفر کرتے ہیں وہ ناقابل بیان ہے۔ چالو ڈبوں کا حال ناگفتہ بہ رہتا ہے‌، جہاں جو بیٹھ گیا بیٹھ گیا ٹوایلٹ تک میں لوگ بیٹھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اوپر سے پولس والوں کی ظلم وزیادتی، پولس زور زبردستی کر کے ڈنڈے مار کر وصولی آج بھی کرتی ہے۔ ریزرویشن سلیپر کو چالو ڈبہ بنا دیا گیا ہے۔ تھرڈ اے سی کو اب سلیپر بنادیا گیا ہے۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہے۔ ریلوے کا سسٹم بری طرح فلاپ ہے۔ جس ریلوے کو لالو پرساد یادو نے کروڑوں روپیوں کا فائدہ پہنچایا تھا اسے مودی حکومت نے اربوں روپیے کا خسارہ بتایا ہے۔

خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ:
بازاروں میں بکنے والی اشیاء کو من مانی بیچنے والوں پر نہ کوئی گرفت ہے نہ روک ٹوک۔ من مانی سب کچھ ہورہا جو جتنے میں بیچنا چاہے کوئی منع کرنے والا نہیں ہے۔ حکومت و انتظامیہ سب مل جل کر عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ اب احتجاج دھرنے مظاہرے عوامی مفادات کے لیے نہیں ہوتے بلکہ احتجاج کی دھمکی دے کر صرف خانہ پوری ہی کی جاتی ہے اور اندرونی طور پر حکومت سے مفاہمت کر لی جاتی ہے بہت بڑے پیمانے پر ڈیل ہوجاتی ہے۔ ذاتی مفاد کے لیے عوامی مسائل کے حل کے لیے لڑنے والے سوشل ورکرس دھرنا احتجاج مظاہرہ کرنے والے عوامی لیڈران عوامی مفادات کو قربان کر دیتے ہیں اور حکومت وقت سے سودے بازی بھی کر لیتے ہیں۔
کچھ ایام قبل مہاراشٹر کی ایک پارٹی کے چیف نے ٹول ناکہ کے خلاف تحریک شروع کی تھی اور ٹول نہ دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ کئی ٹول ناکوں پر ان کے ورکرس نے احتجاج کر کے ٹول ناکوں پر تعینات وصولی کرنے والوں کو نہ صرف ٹول لینے سے منع کیا بلکہ ان کو زدو کوب بھی کیا گیا اس کا نتیجہ مثبت برآمد بھی ہوا۔
حکومت کو جھکنا پڑا اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے تیار بھی ہوگئی۔ لیکن اچانک کیا سودے بازی ہوئی کہ ٹول ناکے کے خلاف احتجاج کو واپس لے لیا اور معاملہ جہاں کا تھا وہاں رہ گیا۔ یہ ہے ہمارے سیاست دانوں کا وطیرہ۔
ٹول ناکہ:
نوگڈھ سے ممبئی آنے میں دو ہزار سے زیادہ کار کا ٹول لگ جاتا ہے۔ قدم قدم پر ٹول ناکہ بنا ہوا ہے۔ یہ ٹول ناکے مافیاؤوں کے قبضے میں ہیں۔ حکومت اور مافیا دونوں مل کر زبردست وصولی کرتے ہیں نہ حساب نہ کتاب، ٹول ناکوں پر سب سے زیادہ گھپلہ اور کرپشن ہے۔
حکومتوں کے مظالم دیکھ کر لگتا ہے جیسے آج لوگوں کی قوت برداشت بہت بڑھ گئی ہے۔ مہنگائی بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بے حد وحساب اضافہ ہو رہا ہے۔ کھانے پینے والی چیزوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ دال چاول سبزی ترکار ی کی قیمیتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ دال روٹی تک کے لالے پڑے گئے ہیں۔
غربت ومفلسی کا عالم یہ ہے کہ بچہ مزدوری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ کم عمر بچے محنت مزدوری کرکے، ٹھیلے ہاتھ گاڑی کھینچ کر اور دیگر شعبوں میں کام کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں میں پڑھائی نہیں ہوتی، اساتذہ بڑی بڑی تنخواہیں لے کر عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مصدقہ رپورٹ کے مطابق کئی اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ پرائیویٹ اسکول اور کلاس بھی چلا رہے ہیں۔ جتنی لگن اور دلچسپی پرائیویٹ اسکولوں میں ہے اتنی سرکاری اسکولوں میں نہیں ہے۔ صرف حاضری لگاکر غائب رہنے کی عادت بن چکی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی بہت بری حالت ہے۔ صرف ایجوکیشن کے مقدس نام پر لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں میں کیا ہوتا ہے مت پوچھیے، دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو لوٹا جارہا ہے۔ تعلیم کے نام پر اس قدر استحصال ہوتا ہے کہ ناقابل بیان ہے۔ ضرورت مندوں غریبوں کی رعایت قطعی نہیں کی جاتی ہے۔ مڈل کلاس اور لوور کلاس کے بچے کہاں تعلیم حاصل کریں، سرمایہ دار طبقہ تو پرائیویٹ اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلاتا ہے لیکن متوسط طبقے کے بچے ان بلڈنگوں والے اسکولوں میں پڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو مناسب دوائیں نہیں ملتی ہیں، ڈاکٹر وقت پر ڈیوٹی نہیں کرتے، اسپتالوں سے اکثر غائب رہتے ہیں اور پرائیوٹ ڈسپنسری پر موجود رہتے ہیں۔ اپنا وقت ذاتی دواخانوں اسپتالوں پر گزارتے ہیں۔ پوری توجہ اس کی طرف ہوتی ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی حالت زار پر رونا آتا ہے۔ کورونا جیسی مہلک بیماری میں یومیہ دیکھا جارہا ہے کہ مریضوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ جانوروں سے زیادہ بری حالت ہے کورونا مریضوں کی۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ کھانسی زکام والے مریضوں کو کورونا بتا کر الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ آج مریض جس اذیت و عذاب سے گزر رہے ہیں وہ بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔
کئی اسپتالوں میں مریض وقت پر دوا نہ پانے کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ کتنی حاملہ عورتیں اسپتالوں کے سامنے وقت پر علاج نہ ہونے پر موت کی آغوش میں چلی گئی ہیں، زچے بچے دونوں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ پرائیوٹ کلینک اور نرسنگ ہوم والے مریض اور اس کے اہل خانہ کو معاشی اور جسمانی طور پر زندہ درگو کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر مریض کی معاشی حالت کی معلومات کر کے بل بھی بناتے ہیں تاکہ ان کی مالی حالت کا اندازہ لگ سکے اور رقم بھرنے کی طاقت رکھتے ہوں تو پوری رقم وصول کرتے ہیں۔
کسی سرکاری محکمہ میں ٹھیک سے کام کاج نہیں ہورہا ہے۔ پولس اسٹیشین ٹارچر سیل بنے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے پولس والے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے لوٹ مار کرنے، دولت مند طبقے کے لوگوں کی خدمت کرنے، سیاسی آقاؤں کی اطاعت گزاری اور دلالوں کے ذریعہ میٹر پٹانے کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔
لاک ڈاؤن میں مزدوروں اور مسافروں کا پولس نے مار مار کے کس بل نکال دیا، کچھ لوگوں کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا۔ کتنی اموات پولس کی زیادتی سے ہوئی ہیں۔ کورونا سے کم اموات ہوئی ہیں لیکن پولس کی پٹائی اور اپنے آبائی وطن جانے والے مزدوروں اور پریشان حال لوگوں کی حادثے میں زیادہ ہوئی ہے۔
دو ٹرکوں کا ٹکر 29 لوگوں کی ہلاکت اور ٹرین سے کٹنے کی واردات اور بہت سے مقامات پر حادثات میں اموات ہوئی ہیں جن کا کوئی اعداد وشمار نہیں۔ سیکڑوں لوگوں نے بھکمری وفاقہ کشی سے تنگ آکر خودکشی کرلی ہے۔ اور یہ حکومت کی لاپرواہی وغفلت سے ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے حکومت عوام کے خلاف اقدام کررہی ہے۔

حکومت کی طرف سے بڑی بڑی ترقیاتی اسکیمیں بنتی ہیں کروڑوں کا بجٹ ہوتا ہے (ابھی ہزاروں لاکھ کروڑ مودی جی نے عوامی فلاح بہود کے لیے اعلان کیا ہے۔ مودی جی جب سے برسر اقتدار آئے ہیں تو صرف اعلانات ہی کرتے ہیں۔ دینا تو کچھ نہیں ہے اعلان کر کے کانوں کو خوش کردیتے ہیں) لیکن اس بجٹ کا بڑا حصہ سیاست دانو ں اعلیٰ افسروں اور ان کے دلالوں کی جیب میں جاتا ہے اور عوام کے حصے میں پھوٹی کوڑی نہیں۔
خراب سڑکیں، جان لیوا گڑھے، بجلی پانی ناقص سپلائی، دم گھٹنے والا ٹریفک نظام، نتیجے میں مختلف قسم کی بیماریاں تناؤ دباؤ ڈپر یشن بھکمری سے زندگی عذاب بنا دی گئی ہے۔
عدالتیں انصاف کے لیے بنی ہیں لیکن یہاں انصاف کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔ مقدموں کی تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے اور انسان کنگال ہوجاتا ہے۔ معاشی تنگ دستی کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہاں اکثر فیصلے طاقتوں کے حق میں ہوتے ہیں۔ اگر کسی حق دار کے حق میں فیصلہ ہو بھی گیا تو اتنی تاخیر ہوچکی ہوتی ہے کہ انصاف ملنا نہ ملنا برابر ہوتا ہے۔ آج کے دور میں انسان کو برباد کرنے والی دوچیزیں ہیں ایک بیماری اور دوسری مقدمہ بازی۔

انصاف لوگوں کا حق ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی شخص کسی نہ ناکردہ گناہ میں گرفتار ہوجاتا ہے تو ہندوستان کا قانون شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا جاتا ہے اور انصاف ملتے ملتے وہ بے گناہ شخص اپنے قیمتی ایام جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار رہا ہوتا ہے۔ کتنے مقدمات ایسے ہیں جن میں معمولی جرم کی بنا پر ہزاروں لوگ جیل میں ہیں۔ نہ ان کی تاریخ چلتی ہے اور نہ انصاف کی امید ہے۔ آج ظالم کو مظلوم قاتل کو مقتول بنادیا جاتا ہے۔
عدالتیں بھی مشکوک ہوگئی ہیں۔ عدالتیں دباؤ میں کام کرتی ہیں۔ عدل وانصاف کا جنازہ نکل گیا ہے۔
ملک میں ایسی خراب صورت حال ہے۔ اور سب سے خراب بات یہ ہے کہ کسی بھی پروٹسٹ کا اس سرکار پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ سیاسی لیڈران اب عوامی لڑائی نہیں لڑتے۔ الیکشن سے بدلاؤ بھی نہیں آتا۔ مسلم پارٹی اور مسلم لیڈران والے ٹوٹکے بھی اب کسی کام کے نہیں رہے۔ مسلم دلت اتحاد والی پڑیا بھی کارگر نہیں لگ رہی۔ اللہ خیر کرے!
اللہ رب العالمین ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے، ہمارے حالات اچھے کردے اور جب تک دنیا‌ میں رہیں ایمان کی راہ پر چلیں اور جب خاتمہ ہو مسلمان رہیں۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000