اس وقت مساجد میں ایسے اسپرے اور سینیٹائزر موجود ہیں جن میں الکوحل کی ملاوٹ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کورونا وائرس کے حملے سے بچنے کے لیے الکوحل سے تیار کردہ ادویات مثلا اسپرے، صابن اور شیمپو وغیرہ استعمال کرسکتے ہیں؟
یقینا سوال اپنی جگہ معقول ہے کیونکہ اس وقت نہ صرف مساجد میں بلکہ تقریبا ہر آدمی کی جیب میں ہینڈ سینیٹائزر موجود ہے جو الکوحل مکس ہے۔ ایسے میں ایک مسلمان کو اس بات کی جانکاری ہونا ضروری ہے کہ اس کا استعمال صحیح ہے یا غلط؟ اور اس بات کی جانکاری اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ ایسی الکوحل والی ادویات کا استعمال کرکے نماز بھی پڑھتے ہیں ایسے میں نماز پر کوئی اثر تو نہیں پڑتا؟
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اسلام نے نہ صرف ہر قسم کا نشہ حرام قرار دیا ہے بلکہ نشہ کے زمرے میں آنے والی تمام چیزیں بھی حرام ہیں حتی کہ کم مقدار والی غیر مسکر چیز بھی۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ ایک چیز نشہ والی ہے مگر اس کی کم مقدار سے نشہ پیدا نہیں ہوتا تو اس کم مقدار والی نشیلی اشیاء کا استعمال بھی ممنوع ہے۔ سینیٹائزر میں الکوحل کی مقدار کم ہے اور پھر اس کا استعمال کھانے یا پینے کی غرض سے نہیں کرتے بلکہ ہاتھ کی صفائی کی غرض سے استعمال کرتے ہیں پھر بھی الکوحل مکس ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال عام حالات میں جائز نہیں ہے کیونکہ منشیات کے سلسلے میں اسلام کا جو اصول ہے اس کے تحت ممنوع قرار پاتا ہے۔
ان دنوں کورونا وائرس کا خطرہ اس قدر شدید ہے کہ لوگوں کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اس وبائی مرض کی وجہ سے علماء نے اس وقت جمعہ اور جماعت کے سقوط اور اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کرنے کا فتوی دیا ہے جبکہ مردوں کو جماعت سے نماز ادا کرنا واجب ہے اور نماز جمعہ ہفتہ کی اہم ترین عبادت ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب کورونا کے خوف سے لوگوں سے جماعت ونماز جمعہ ساقط ہوسکتی ہے تو اس مجبوری میں سینیٹائزر کا استعمال جائز کیسے نہیں ہوسکتا ہے؟
اس لیے میرا ماننا ہے کہ عمومی حالات میں الکوحل مکس کوئی دوا اور سامان استعمال نہیں کرسکتے ہیں لیکن کورونا یا اس قسم کی مجبوری میں الکوحل مکس دوا جیسے ہینڈ سینیٹائزر استعمال کرسکتے ہیں بشرطیکہ اس کا بدل موجود نہ ہو۔ اگر الکوحل کے بغیر کوئی دوسرا سامان نظافت موجود ہے تو پھر اس سینیٹائزر کا استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔
میرے علم کے مطابق بروقت الکوحل سے مبرا کوئی دسری دوا موجود نہیں ہے لہذا حفاظت کے طور پر مساجد میں ہینڈ سینیٹائزر رکھنا اور اس کا استعمال کرنا کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور اس سے نماز کی صحت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اس کے استعمال کے فورا بعد اس کی رطوبت زائل ہوجاتی ہے۔
جماعت اور نماز جمعہ کے سقوط سے جہاں ایک بات پتہ چلی وہیں بحالت نماز ماسک کے استعمال سے بھی ایک بات معلوم ہوتی ہے۔ بحالت نماز منہ ڈھکنا منع ہے مگر کورونا کے خطرہ سے بچنے کے لیے ماسک لگاکر نماز پڑھنے میں حرج نہیں ہے۔ پھر ایسی مجبوری میں الکوحل والی دوا کیوں نہیں استعمال کرسکتے ہیں؟
یہ باتیں بطور تائید ہیں اور اس معاملہ میں اس کی دلیل اضطراری صورت میں شریعت کا یہ معروف اصول ہے کہ “ضرورتیں حرام چیزوں کو جائز کر دیتی ہیں” جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ[الأنعام:119]
ترجمہ: اللہ تعالی نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتادی جن کو تم پر حرام کیا ہے مگر وہ بھی جب تم کو سخت ضرورت پڑجائے تو حلال ہے۔
ساتھ ہی وہ تمام نصوص بھی اس باب میں دلیل ہیں جن میں اپنی جان اور نفس کو ہلاکت سے محفوظ رکھنے اور ضررونقصان سے بچانے کی تعلیم دی گئی ہے۔
بارك الله فيكم ونفع بكم الإسلام والمسلمين. الكحول (ِalcohol) پر نجاست کا حكم محل نظر ہے. اس کی حرمت كا تعلق پینے یا اشیاء خورد ونوش میں استعمال سے ہے نہ کی ظاہری استعمال سے. برائے كرم تحقيق كر لیں. حتى کہ شراب کی نجاست بھی محل نظر ہے. شيخ ابن عثيمين رحمة الله عليه شراب کی طہارت کے قائل ہیں إلا یہ کہ واضح دليل مل جائے. میری معلومات کی حد تک تقریبا تمام انگریزی دواوں میں alcohol موجود ہوتا ہے خواہ کم یا زیادہ. لہٰذا sanitizers کے استمال میں عام حالات میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے. یہی… Read more »