سعودی عرب میں اس قدر احتیاط کے باوجود کورونا کے مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے، حتی کہ 70 سے زائد مساجد کو دوبارہ بند کرنا پڑا۔
تازہ ترین خبر کے مطابق شہر ریاض کی ایک جامع مسجد کے مؤذن کی کورونا سے وفات ہوگئی – إنا لله وإنا إليه راجعون – لازما مسجد کو علی الفور بند کردیا گیا۔ یہ ملک سعودی عرب کی حالت ہے جہاں ہر کسی کو علاج بآسانی ميسر و متوفر ہے بغیر کسی ادنی تفریق کے۔
وہیں ہم اپنے ملک ہندوستان کی حالت جانتے ہیں، اس مہاماری میں بھی دلال نیتاؤں کو اپنی دولت میں اضافہ کی سوجھی ہوئی ہے، مال و دولت کی حرص و ہوس اور اپنی تجوری بھرنے کی چاہت نے ایسی شدت اختیار کرلی ہے کہ جس کی وجہ سے آئے دن نئے نئے گھوٹالوں کا انکشاف ہورہا ہے، کہیں پی پی ای کٹ گھوٹالہ، کہیں نقلی وینٹی لیٹر گھوٹالہ، کہیں اناج گھوٹالہ اور نہ جانے کیسے کیسے گھوٹالے روزانہ خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ اور یہ سب ملک کے نیتاؤں خصوصا حکمراں طبقہ کی بے حسی اور نا اہلی کا نتیجہ ہیں۔
ملک کے نظام صحت کی حالت کسی سے مخفی نہیں، پرائیویٹ اسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کا بہانہ، پھر موٹی رقم بطور رشوت لے کر داخلہ یا فیس کے نام پر من مانی وصولی اور مریض کے اہل خانہ دینے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اکثر معاملوں میں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
وہیں سرکاری اسپتالوں کی حالت دگرگوں ہے۔ مریضوں کی کثرت، ڈاکٹروں کی قلت، سہولیات کی عدم دستیابی حتی کہ آکسیجن کی کمی سے ایک ہی دن میں کئی کئی اموات اور حالت بایں جا رسید کہ اب یہاں تو سماج کے اعلی و نفع بخش طبقہ کو جیسے پروفیسروں، ڈاکٹروں اور صحافیوں کو حتی کہ بڑے سیاسی رہنماؤں کے قریبی رشتہ داروں تک کو طبی سہولیات سے محرومی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس لیے اسے ہلکے میں نہ لیں، کامل احتیاط برتیں، ان لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھریں جو اسے معمولی کھانسی، زکام اور بخار وغیرہ قرار دے رہے ہیں۔ یا اسے ایک خفیہ سازش بتلا کر اس بیماری کی خطرناکی کو کم کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس انتہائی خطرناک اور جان لیوا ہے، یہ بات دنیا بھر میں ہونے والی لاکھوں اموات سے عیاں ہے۔ لہذا اس سے بچنے کے لیے مقوی وعمدہ خوراک کھائیں، اپنے جسم کے مدافعتی نظام کو بڑھائیں، ذہنی طور پر بے فکر اور آزاد رہیں، وائرس کو اپنے دل و دماغ پر سوار نہ کریں، ضرورت نہ ہو تو گھر سے نہ نکلیں، نکلنے پر احتیاط و بچاؤ کی ساری تدابیر (دعا، ماسک اور ہینڈ گلبز وغیرہ کے استعمال) کو ملحوظ رکھیں۔
لیکن – اللہ نہ کرے – بیماری لاحق ہونے کی صورت میں مایوسی اور خوف میں مبتلا نہ ہوں (لا تقنطوا من رحمة الله/ الزمر:٥٣) گھبراہٹ اور جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں، ذہنی تناؤ كو کم کرنے کے لیے ایسے افراد سے بذریعہ موبائل گفتگو کریں جن سے سکون و اطمینان اور قوت و ہمت میسر ہو جیسے والدین، بیوی اور بچے وغیرہ۔ ساتھ ہی مناسب علاج کریں، دعاؤں کا خصوصی اہتمام کریں اور قلب و ذہن میں یہ بات نقش کالحجر کرلیں کہ آپ کو اللہ شفا دے گا۔ (وإذا مرضت فهو يشفين/ الشعراء:٨٠) جیسے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو اللہ نے دیا، اس بات کا بھی خیال رہے کہ اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد انتہائی کم اور صحت و شفا پانے والوں کی تعداد انتہائی زیادہ ہے۔
اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، جو بیمار ہیں انھیں شفا دے، وفات پانے والوں پر رحم کرے، درگذر کا معاملہ کرے، ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین
آپ کے تبصرے