تحریر: یوسف القبلان، سعودی عرب
ترجمانی: ابو حسان مدنی
بعض بیماریاں اس قدر خطرناک ہوتی ہیں کہ وہ جان لے لیتی ہیں جیسے کورونا۔ لیکن نسل پرستی ایک ایسی بیماری ہے جو پورے انسانی سماج و معاشرہ کے لیے مہلک اور خطرناک ہے، گرچہ آہستہ آہستہ ہی سہی۔
نسل پرستی ایک سماجی ومعاشرتی بیماری ہے، جو عفو و درگذر کا گلا گھونٹ دیتی ہے، محبت اور امن و سلامتی کا جنازہ نکال دیتی ہے اور تشدد و زیادتی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ یہ سب اس کی نمایاں علامتیں ہیں۔
جس طرح بیماری انسانیت کی دشمن ہوتی ہے ویسے ہی نسل پرستی بھی دشمن انسان ہے۔ بیماری قاتل ہوتی ہے اور اس سے تحفظ مشترکہ عالمی و علمی کوششوں کا مطالبہ کرتی ہے، لیکن نسل پرستی ایک ایسی سماجی بیماری ہے جو اتحاد معاشرہ کے تار و پود کو بکھیر دیتی ہے اور امن و امان کی رسی کو کاٹ ڈالتی ہے۔
ممکن ہے بیماری کے علاج یا ویکسین کی دریافت میں زیادہ وقت درکار نہ ہو لیکن نسل پرستی کا علاج کئی نسلوں کا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ تربیتی، اجتماعی، سیاسی اور قانونی جد و جہد کا تقاضا کرتا ہے۔ بیماری غیر مرئی طریقہ سے ہر جگہ پھیلتی ہے لیکن نسل پرستی ہر جگہ پائی جاتی ہے، لوگوں میں مذہب، منطق اور انسانیت مخالف اسباب و وجوہات کی بنا پر نفرت و امتیاز عام ہے۔
دنیا کورونا وبا کے خلاف پوری قوت سے لڑ رہی ہے۔ عبادت گاہوں، بازاروں، سفر اور ہر قسم کے مشاغل کو بند کررہی ہے، تعليم کو معلق کررہی ہے، گھر کے اندر رہنے کو لازم کر رہی ہے۔
نسل پرستی دین و مذہب، اخلاق و کردار، قانون اور امن و سلامتی کے مخالف ہے۔ اور یہ اسباب اس بات کے لیے کافی ہیں کہ ہر قسم کے تعليمى، صحافتی اور قانونی وسائل و ذرائع کو اختیار کر کے اس سے جنگ لڑی جائے۔
جیسے وبا بیماری ہے ویسے ہی نسل پرستی بھی ایک بیماری ہے، وبا سے لڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا علاج تلاش کیا جائے اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جائے تاکہ وبا کم ہو یا ختم ہو۔ ممکن ہے کہ نسل پرستی کی علامتیں وبا کی طرح ظاہر اور واضح نہ ہوں لیکن یہ بیماری(نسل پرستی) سلوک و رویہ میں اچانک ظاہر ہوجاتی ہے، نسل پرستی کا علاج دواؤں، ہاتھوں کی صفائی اور جراثیم کش مواد اور عمدہ خوراک سے ممکن نہیں ہے، بلکہ اس کا علاج روح کی پاکیزگی، تہذیب و ثقافت کی خوراک، عمدہ تربیت، میڈیا اور صحافت، بین الاقوامی یکجہتی اور نسل پرستوں پر قوانین کے سخت نفاذ سے ممکن ہے۔
دنیا نسل پرستی کی بیماری سے اب تک جوجھ رہی ہے جو اب تک کی گئی سیاسی، تعلیمی اور صحافتی کوششوں کو تفتیش و جائزہ کے دائرہ میں لاتی ہے۔
پہلا مرحلہ اس مرض کے خاتمہ کے لیے یہ ہونا چاہیے کہ اس تعلق سے منعقد ہورہے تعلیمی پروگراموں کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔
دوسرا مرحلہ جو حکمت عملی پر منبی ہے کہ بچپن سے ہی مختلف مراحل میں تعلیمی پروگراموں کے ذریعے اس بیماری (نسل پرستی) کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ نسل پرستوں پر ہر طرح سے قانونی سختی کی جائے اور ان قوانین اور ان کے نفاذ پر بین الاقوامی یکجہتی فراہم ہو۔ نسل پرستی کے ساتھ ایک خطرناک بیماری جیسا معاملہ برتا جائے جس کی خطرناکی ہلاک کرنے والی بیماریوں سے کم تر نہیں ہے۔
وبا کی صورت میں ایک دوسرے سے فاصلہ انسانیت کی خاطر ہوتا ہے، جب کہ نسل پرستی میں ایک دوسرے سے فاصلہ انسانیت مخالف ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
(یہ تحریر حالیہ امریکی نسل پرستی کے پس منظر میں لکھی گئی ہے، جو یومی جریدہ الریاض کے 10/06/2020 کے شمارہ میں شائع ہوئی ہے)
آپ کے تبصرے