دن بدن اموات کے اضافہ اور وائرس کے خطرات کے بڑھنے کی صورت میں وطن عزیز کے تمام باشندگان کو تحفظ صحت کا مکمل خیال رکھنا چاہیے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اگر کسی موقع سے جان اور مال کے تحفظ کو خطرہ لاحق جائے تو اپنی جان اور مال کو تحفظ فراہم کرنا واجب اور فرض ہوجاتا ہے ۔اسی وجہ سے اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک شخص کو فساد پھیلانے کے لیے بلا سبب قتل کرنے کے جرم کو پوری انسانیت کے قتل کا مجرم قرار دیا ہے۔ (سورۂ مائدہ ۳۲) اور جان ہی کے تحفظ کے لیے قتل عمد پر سخت وعید کے ساتھ قتل کے بدلہ قتل یا بھاری جرمانہ اور دیت بھی متعین فرمائی ہے۔ نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مار دیا جائے وہ شہید ہے۔ (سنن ابوداؤد – ترمذي)
موجودہ وقت میں کورونا کے تیزی سے پھیلنے اور اس کے بالخصوص دہلی میں اور بڑی آبادیوں میں ڈرانے والے آنکڑوں تک پہنچ جانے نیز ایک تخمینہ کے مطابق جولائی کے اخیر تک صرف دہلی میں اس کے مریضوں کی تعداد چھ لاکھ کے قریب تک پہنچ جانے کے خدشہ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب اس کے بعد یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ بھیڑ بھاڑ کی جگہوں پر جانے سے ہماری جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور بیماری میں مبتلا ہونے سے علاج اور دوسری ضروریات کو سامنے رکھا جائے تو ہمارے مال پر بھی خطرہ منڈلاتا نظر آتا ہے کیونکہ اس بیماری میں عموماً اس کا علاج ناپید ہے اور اسپتالوں میں محض جان کے تحفظ کے نام پر موٹی رقمیں ادا کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے لہذا ہمیں جہاں ایک جانب اپنی جان کی فکر ہونی چاہیے وہیں ہمارے ذریعہ بیماری سے متأثر ہونے کی صورت میں ہمارے گھر والوں اور بالخصوص بزرگوں اور بچوں کے اس وبا سے متأثر ہونے کے خطرہ سے بھی ہمیں لا پرواہی نہیں برتنی چاہیے اور مال کی حفاظت کی خاطر بھی ہمیں اپنے آپ کو اس وبا سے حتی المقدور بچانے کی تدابیر کرنی چاہئیں۔
کورونا کی رفتار کے مد نظر مساجد میں جمعہ و جماعت کا مسئلہ بھی جان اور مال کے تحفظ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے “فاتقوا اللہ ما استطعتم“ (سورۂ تغابن ۱۶) اللہ سے اپنی طاقت بھر ڈرو، اللہ رب العالمین کا ایک جگہ فرمان ہے “ولا تلقوابأیدیکم إلی التہلکة ” (البقرة ١٩٥) اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ اس وقت مساجد میں حاضری اور مسلمانوں کا بھیڑ بھاڑ کی جگہوں پر بے ضابطہ ہوجانے کا عادی ہونا یقینا وبا کے پھیلنے کے خطرہ کو بڑھا دیتا ہے۔ اس وجہ سے مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں ہمیں اپنی طاقت بھر جان اور مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے نمازوں کا اہتمام اپنے گھروں ہی میں حسب سابق جاری رکھنا چاہیے۔ یہی حکمت کا تقاضہ بھی ہے اور ان شبہات پر اطمینان حاصل کرنے کا ذریعہ بھی جن کی خبر آئے دن مسلمانوں کو مزید ڈرا رہی ہے کہ اسپتالوں میں ان کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اور ان کو مناسب علاج سے محروم رکھنے کی بعض متعصب عناصر کی جانب سے کوشش بھی ہورہی ہے۔
اسلام کے دوسرے خلیفہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب طاعون عمواس پھیلا تھا تو جو صحابہ کرام اس وبا سے متأثر تھے ان کو بعض دوسرے صحابہ نے پہاڑوں اور آبادی سے دور بھیج دیا کہ ان کے ذریعہ یہ وبا مزید نہ پھیل جائے اور جب اس عمل کی خبر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو انھوں نے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔ وبائی امراض سے تحفظ ہی کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ جہاں وبا پھیلی ہو وہاں کے لوگ اس آبادی کو چھوڑ کر باہر نہ جائیں اور باہر والے اس آبادی میں داخل نہ ہوں۔ اس کے علاوہ بھی حفظان صحت کے لیے اسلام نے بے شمار تعلیمات بیان کی ہیں:
ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر اور جامعہ اسلامیہ سنابل کے ماتحت مساجد کو کورونا کے پھیلنے کے خدشہ کے مد نظر شریعی گنجائش کے نتیجہ میں ۸ جون کو حکومت کے عبادت گاہوں کو کھولنے کے اعلان کے باوجود نہیں کھولا گیا تھا۔
لہذا وبا کے پھیلنے کے گراف کی تیزی کے ان ایام میں ہمیں مزید صبر سے کام لینا چاہیے اور فی الحال مساجد کے بجائے گھروں ہی پر نمازوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ نیز اللہ رب العالمین کو راضی کرنے کی بھرپور سعی کرنی چاہیے اور ماضی کی زندگی میں کوتاہیوں، ظلم وجور سے توبہ اور دین کی طرف رجوع اور حلال وحرام کی تمیز کرکے حلال پر اکتفا کرنے کی فکر کرنے کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔
اللہ رب العالمین پوری انسانیت کو ہر قسم کی وبا سے محفوظ رکھے اور دنیا کو جلد سے جلد کورونا وائرس سے نجات عطا فرمائے تاکہ ہم مساجد کو جلد آباد کر سکیں۔آمین
آپ کے تبصرے