حاملہ اور مرضعہ کے روزہ کی قضا کے تعلق سے میں نے تین قسطوں میں ایک مضمون لکھا تھا جس پر کچھ لوگوں کی طرف سے بعض اعتراضات کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر کسی کا ہر دلیل سے مطمئن ہونا ضروری نہیں ہے اور دلیل کی روشنی میں ہر کسی کو مخالفت کا پورا حق ہے۔ کیونکہ یہ ایک دینی مسئلہ ہے، یہاں بے لاگ ولپیٹ حق بات کو واضح کرنا ہی اولین ترجیح ہے۔
مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ بعض فاضل اور انتہائی محترم حضرات کی طرف سے میرے مضمون کا علمی تعاقب کیا گیا۔ مجھے پورا حسن ظن ہے کہ انھوں نے یہ کام حق کے دفاع اور صحیح و راجح کو واضح کرنے کے لیے کیا ہے اور انھوں نے اپنے تئیں پوری دیانتداری اور ذمہ داری کے ساتھ دلائل کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے میں تہ دل سے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان کی تمام آراء سے میرا متفق ہونا ضرروی نہیں ہے۔ ویسے میری کوشش یہی تھی کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کے بحث ومباحثے سے مکمل احتراز کروں کیونکہ عمومی طور پر عام قاری اس سے تشویش کا شکار ہوتا ہے اور پھر معاملہ اور زیادہ مبہم اور غیر واضح ہو جاتا ہے جیسا کہ سابقہ تجربہ بتاتا ہے۔ لیکن چونکہ میرے دلائل کا جواب سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے دیا گیا ہے اس لیے اب میری مجبوری ہے کہ میں بھی اپنی ملحوظات کو سوشل میڈیا پر رکھوں۔
پہلا مسئلہ:
کیا حاملہ اور مرضعہ کو روزہ سے معمولی مشقت ہو تو وہ روزہ ترک کرسکتی ہیں یا پھر اگر روزہ سے مشقت شدید ہو یا ضرر ہو اور بدرجہ اولی اگر جان کا خطرہ ہو تو وہ روزہ ترک کرسکتی ہیں؟
میں نے ائمہ سلف وخلف کے اقوال کی روشنی میں دوسرے موقف کو رکھا تھا، یعنی اگر روزہ سے مشقت کم ہو یا معمولی ہو یا اس سے قریب تر ہو جسے انسان بآسانی برداشت کرسکے تو یہ رخصت نہیں ہے۔
جبکہ بعض حضرات کا دعوی ہے کہ معمولی پریشانی کی بنیاد پر بھی حاملہ اور مرضعہ کو روزہ ترک کرنے کی رخصت ہے۔
اس موقف کی تائید کے لیے جن دلائل کو پیش کیا گیا ہے ان کا جائزہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
1- پہلی دلیل: قال ابن عبد البر: “وأما الذين كانوا يقرؤون (عَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ) فَهَذِهِ القراءة رويت عن ابن عَبَّاسٍ مِنْ طُرُقٍ، وَعَنْ عَائِشَةَ كَذَلِك،َ كَانَ يَقْرَأُ مُجَاهِدٌ وَعَطَاءٌ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَعِكْرِمَةُ وَجَمَاعَةٌ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، وَكُلُّهُمْ يَذْهَبُ إِلَى أَنَّ الْآيَةَ مَحْكَمَةٌ فِي الشَّيْخِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ الَّذِينَ يُكَلَّفُونَ الصِّيَامَ وَلَا يُطِيقُونَهُ”۔ (الاستذكار:3/ 364)
ابن عبد البر کی اس عبارت کا مقصود میں آگے ان شاء اللہ پیش کروں گا، یہاں محل شاہد یہ جملہ ہے:
“أَنَّ الْآيَةَ مَحْكَمَةٌ فِي الشَّيْخِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ الَّذِينَ يُكَلَّفُونَ الصِّيَامَ وَلَا يُطِيقُونَهُ”۔
اس جملہ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جنھیں روزہ رکھنے میں پریشانی نہ ہوتی ہو، بغیر کسی پریشانی کے روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں، ان پر روزہ کا کوئی اثر نہ ہو، حمل ورضاعت کی حالت ان کے لیے عام حالت کی طرح ہو تو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس جملہ سے یہ استدلال درست ہے؟ کیا اس جملہ کا یہی مفہوم ہے؟ اور کیا اس مفہوم کو نص قرآنی، سلف صالحین اور آثار صحابہ وتابعین کی طرف منسوب کرنا صحیح ہے؟ جیسا کہ کیا گیا ہے۔
واضح ہو کہ (الَّذِينَ يُكَلَّفُونَ الصِّيَامَ وَلَا يُطِيقُونَهُ) ایک ہی جملہ ہے اس لیے سب سے پہلے اس جملہ کے مفردات پر غور کرتے ہیں پھر پورے جملہ کا مفہوم جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
• پہلا کلمہ ہے: (يُكَلَّفُونَ)
مشہور تابعی مجاہد نے آیت کریمہ (سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) کی تفسیر (سيكلّفون) سے کی ہے۔
اس قول کو ذکر کرنے کے بعد امام رازی فرماتے ہیں: ونظيره ما روي عن ابن عباس أنه كان يقرأ وعلى الذين يطوقونه فدية [البقرة: 184]، قال المفسرون: يكلفونه ولا يطيقونه، فكذا قوله: سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة۔ (تفسير الرازي:9/ 444)
اسی طرح ضحاک (عامِلَةٌ ناصِبَةٌ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: يُكَلَّفُونَ ارْتِقَاءَ جَبَلٍ مِنْ حَدِيدٍ فِي النَّارِ (تفسير البغوي:5/ 245)
ان دونوں قول میں لفظ (يُكَلَّفُونَ) کا استعمال شدید مشقت یا نا قابل برداشت امر کے لیے کیا گیا ہے۔
اس کلمہ کا ایک معنی (يتجشمون) کے بھی آتا ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی بعض طریق میں ہے: {وعلى الذين يطيقونه} [البقرة: 184] قال: “الذين يتجشّمونه ولا يطيقونه” (شرح مشكل الآثار:6/ 185)
اس کے معنی میں بھی سخت مشقت کا معنی پایا جاتا ہے:
مشہور مفسر ونحوی ابن حیان فرماتے ہیں:
الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ (المراد: الشيخ الهرم، والعجوز، أي: يطيقونه بتكلف شديد، فأباح الله لهم الفطر والفدية، والآية على هذا محكمة، ويؤيده توجيه من وجهَ: يطوقونه ، على معنى : يتكلفون صومه ويتجشمونه (تفسير البحر المحيط – العلمية:2/ 43)
• اس میں دوسرا کلمہ ہے: (ولا يطيقونه)
ابن منظور فرماتے ہیں: والطَّوْقُ الطاقةُ أَي: أَقصى غَايَتِهِ، وَهُوَ اسْمٌ لِمِقْدَارِ مَا يُمْكِنُ أَن يَفْعَلَهُ بمشقَّة مِنْهُ (لسان العرب:10/ 233)
اس میں طاقت کی تعریف میں تین الفاظ استعمال کیے گئے ہیں: أقصى/ غاية/ مايمكن
یہ تنیوں الفاظ انسان کی طاقت کی انتہا کو بتلانے کے لیے ہیں۔ چنانچہ (أقصى غايته) سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد طاقت نہیں ہے۔ اور یہ کسی کام کو ممکنہ حد تک پرمشقت انداز میں انجام دینے کو کہتے ہیں۔
• مشہور مفسر ولغوی ابن عاشور فرماتے ہیں:
وَالْمُطِيقُ هُوَ الَّذِي أَطَاقَ الْفِعْلَ أَيْ كَانَ فِي طَوْقِهِ أَنْ يَفْعَلَهُ، وَالطَّاقَةُ أَقْرَبُ دَرَجَاتِ الْقُدْرَةِ إِلَى مَرْتَبَةِ الْعَجْزِ، وَلِذَلِكَ يَقُولُونَ فِيمَا فَوْقَ الطَّاقَةِ: هَذَا مَا لَا يُطَاق۔ (التحرير والتنوير:2/ 166)َ
طاقت عجز سے قریب ترین مرحلہ کو کہتے ہیں، اسی لیے جو طاقت سے باہر کی چیز ہوتی ہے اس کے لیے (هذا مَا لَا يُطَاق) کہا جاتا ہے یعنی جس کی طاقت نہ ہو۔
• امام رازی فرماتے ہیں:
أَمَّا الطَّاقَةُ فَهُوَ اسْمٌ لِمَنْ كَانَ قَادِرًا عَلَى الشَّيْءِ مَعَ الشِّدَّةِ وَالْمَشَقَّةِ فَقَوْلُهُ: وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ أَيْ وَعَلَى الَّذِينَ يَقْدِرُونَ عَلَى الصَّوْمِ مَعَ الشِّدَّةِ وَالْمَشَقَّةِ۔ (تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير:5/ 248)َ
یعنی طاقت، شدت اور مشقت کے ساتھ کسی چیز کی قدرت رکھنے کو کہتے ہیں، چنانچہ (وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ) کا معنی ہے: جو لوگ شدت اور مشقت کے ساتھ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں۔
ان مفردات کو جاننے کے بعد اب دیکھتے ہیں کہ مفسرین اور فقہاء نے اس جملہ کا کیا مفہوم بیان کیا ہے؟
چنانچہ ابن عبد البر خود اس عبارت کو ذکر کرنے کے بعد اس کا معنی یہ بیان کرتے ہیں:
(ومعنى (يطيقونه) عند جميعهم يكلفونه، ثم اختلفوا فقال بعضهم يكلفونه ولا يطيقونه إلا بجهد ومشقة مضرة فهؤلاء جعلت عليهم الفدية، … وقال بعضهم: يكلفونه ولا يطيقونه على حال النية فألزموا الفدية بدلا من الصوم) {الاستذكار:3/ 362}
“(يطيقونه) کا معنی ان سب کے نزدیک (يكلفونه) ہے، لیکن لفظ (يكلفونه) کے معنی میں ان کے درمیان اختلاف ہے، چنانچہ بعض اس کا معنی یہ لیتے ہیں: انھیں روزہ رکھنے میں اس قدر کلفت اور مشقت ہوتی ہو کہ وہ ضرر رساں مشقت و دشواری کے ساتھ ہی اس کی طاقت رکھتے ہوں۔
اور بعض لوگ اس کا یہ معنی لیتے ہیں: انھیں روزہ رکھنے میں اس قدر کلفت اور مشقت ہوتی ہو کہ وہ روزہ کی نیت کے وقت اس کی طاقت ہی نہیں رکھتے ہوں”۔
اس عبارت سے ایک صفحہ پہلے وہ بیان کرتے ہیں:
وهي محكمة عند بعضهم فقالوا كل من طاف (أطاق) الصوم فلا مشقة تضر به فالصوم واجب عليه وكل من لم يطق الصوم إلا بجهد ومشقة مضرة به فله أن يفطر ويفتدي لقول الله – عز وجل – (يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر) البقرة 185
“یہ آیت محکم ہے بعض کے نزدیک، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جو بھی روزہ کی طاقت رکھتے ہوں اور یہ ان کے لیے ضرر رساں مشقت کا باعث نہ ہو تو ان پر روزہ واجب ہے۔ اور جنھیں روزہ رکھنے میں ضرر رساں مشقت اور کلفت ہو وہ روزہ ترک کریں اور فدیہ دیں۔ اللہ رب العالمین کے اس فرمان کی وجہ سے: (يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر) اللہ رب العالمین تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، مشکل نہیں چاہتا ہے”۔
ابن عبد البر نے اپنے دونوں عبارت میں مشقت کو بتانے کے لیے تین کلمہ کا استعمال کیا ہے:
جهد، مشقة اور مضرة
جهد کا معنی ابن الاثیر فرماتے ہیں: قَدْ تَكَرَّرَ لَفْظُ الجَهْد والجُهْد فِي الْحَدِيثِ، وَهُوَ بِالْفَتْحِ، الْمَشَقَّةُ، وَقِيلَ: المبالغة والغاية، وبالضم، الْوُسْعُ وَالطَّاقَةُ؛ وَقِيلَ: هُمَا لُغَتَانِ فِي الْوُسْعِ وَالطَّاقَةِ (النهاية في غريب الحديث والأثر:1/ 320)
یعنی جہد (بالفتح) میں مشقت یا اس کی انتہا کا معنی پایا جاتا ہے اور بطور مترادف اس کے ساتھ مشقت لایا گیا ہے جس کا ایک فائدہ تاکید ہے اور اس کی صفت مضرت لائی گئی ہے۔ یعنی ضرر رساں مشقت وکلفت۔
اور یہی معنی مفسرین اور شارحین حدیث نے بھی بیان کیا ہے:
• قرطبی فرماتے ہیں:
“وأجمعوا على أن المشايخ والعجائز الذين لا يطيقون الصيام أو يطيقونه على مشقة شديدة أن يفطروا”۔ (تفسير القرطبي:2/ 289)
• قسطلانی فرماتے ہیں:
“إنها ليست بمنسوخة وهي للشيخ الكبير والمرأة الكبيرة لا يستطيعان أن يصوما فليطعما مكان كل يوم مسكينًا. وهذا الحكم باق وهو حجة للشافعي ومن وافقه في أن من عجز عن الصوم لهرم أو زمانة أو اشتدت عليه مشقته سقط عنه الصوم لقوله تعالى: {وما جعل عليكم في الدين من حرج} [الحج: 78]”۔ (إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري:3/ 388)
• قاضی عیاض فرماتے ہیں:
وقال ابن عباس وغيره: نزلت فى الكبير والمريض لا يقدران على الصوم، فهى على قوله محكمة، ويعضدها قراءة “يطوقونه ” أو “يطوقونه” بفتح الياء وضمها، أى يتكلّفونه أو يكلفونه ولا يقدرون عليه”. (إكمال المعلم بفوائد مسلم:4/ 99)
• ابن حجر فرماتے ہیں:
وأما على قراءة بن عباس فلا نسخ لأنه يجعل الفدية على من تكلّف الصوم وهو لا يقدر عليه فيفطر ويكفر، وهذا الحكم باق۔ (فتح الباري لابن حجر:8/ 180)
• سندی فرماتے ہیں:
يطيقُونَهُ أَي يبلغون بِهِ غَايَة وسعهم وطاقتهم۔ (حاشية السندي على سنن النسائي:4/ 191)
• عظیم آبادی فرماتے ہیں:
(كانت) هذه الآية وعلى الذين يطيقونه (رخصة) ثابتة باقية إلى الآن (للشيخ الكبير والمرأة الكبيرة وهما يطيقان الصيام) لكن مع شدة وتعب ومشقة عظيمة أو للشيخ الكبير والمرأة الكبيرة لا يطيقان الصيام (عون المعبود وحاشية ابن القيم:6/ 308)َ
• سہارنپوری فرماتے ہیں:
يُطوُّقونه: يكلفونه يعني: ولا يطيقونه ({فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ}، قال: كانت رخصة للشيخ الكبير) الذي يلحقه بالصوم مشقة شديدة (والمرأة الكبيرة وهما يطيقان الصيام) أي مع المشقة والتكلف الكثير (بذل المجهود في حل سنن أبي داود:8/ 430)
ان تفصیلات کو جاننے کے بعد آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا اس جملہ سے یہ مسئلہ مستنبط کرنا درست ہے کہ معمولی مشقت کی بنیاد پر روزہ ترک کرنے کی رخصت ہے؟ یعنی جنھیں روزہ رکھنے میں پریشانی نہ ہوتی ہو، بغیر کسی پریشانی کے روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ان پر روزہ کا کوئی اثر نہ ہو۔ حمل ورضاعت کی حالت ان کے لیے عام حالت کی طرح ہو تو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ ورنہ وہ روزہ ترک کر سکتی ہیں اور پھر اس مفہوم کو نص قرآنی اور سلف صالحین کی طرف منسوب کرنا صحیح ہے؟
علقمہ ومجاہد کے فتوی سے استدلال:
ابراہيم فرماتے ہیں: جاءت امرأة إلى علقمة، فقالت: إني حبلى، وإني أطيق الصيام، وإن زوجي يمنعني، فقال لها علقمة: أطيعي ربك، واعصي زوجك۔ (مصنف عبد الرزاق: 4/53 ، ح7699)
عثمان بن الاسود فرماتے ہیں: سألت مجاهدا عن امرأتي وكانت حاملًا، وشقّ عليها الصوم فقال: مرها فلتفطر ولتطعم مسكينا كل يوم فإذا صحّت فلتقض
ان دونوں نص سے کچھ اس طرح استدلال کیا گیا ہے:
“یہ دونوں فتوے میرے ہی موقف کی تائید کرتے ہیں جیسا کہ شروع میں اسے بیان کیا گیا کہ حاملہ ومرضعہ پر اگر روزے کا کوئی اثر نہ ہو، حمل ورضاعت کی حالت اس کے لیے عام حالت کی طرح ہو، یہ مشقت کا باعث نہ ہو تو اسے روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں”۔
کیا ان دونوں فتوے سے یہ استنباط صحیح ہے؟
علقمہ کے فتوی میں (أطيق الصيام) کا لفظ آیا ہے۔
اوپر لفظ (الطاقة) کے سلسلے میں ابن منظور، رازی اور ابن عاشور کا قول گزرا کہ یہ انسان کی طاقت کی انتہا کو بتلانے کے لیے ہے یا کسی کام کو مشقت اور شدت کے ساتھ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عرف میں بھی یہ جملہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کام کو کرنے میں مشقت ہوتی ہے۔
چنانچہ امام رازی فرماتے ہیں: إِنَّهُ لَا يُقَالُ فِي الْعُرْفِ لِلْقَادِرِ الْقَوِيِّ: إِنَّهُ يُطِيقُ هَذَا الْفِعْلَ لِأَنَّ هَذَا اللَّفْظَ لَا يُسْتَعْمَلُ إِلَّا فِي حَقِّ مَنْ يَقْدِرُ عَلَيْهِ مَعَ ضَرْبٍ مِنَ الْمَشَقَّةِ۔ (تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير:5/ 248)
اسی طرح مجاہد کے فتوی میں (وشقّ عليها الصوم) کا لفظ ہے۔
شقّ عليه الصَّومُ: کا معنی معاجم اللغة العربية میں ہے: صعُبَ عليه تحمُّله، أرهقه وكان عسيرًا عليه۔
اور (إِرْهَاقُ النَّفْسِ کا معنی اس میں ہے: حَمَّلَهَا مَا لَا تُطِيقُ بِعَمَلٍ زَائِدٍ زِدْتُ نَفْسِي إِرْهَاقاً)
گویا شق عليه الصوم کا معنی: روزہ کو برداشت کرنا مشکل اور انتہائی تکلیف دہ اور سخت ہو۔
شیخ ابن عثیمین نے مسافر کے لیے روزہ کے تین حالات بیان کیے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
الحال الثالثة: أن يشق عليه مشقة شديدة غير محتملة فهنا يكون الصوم في حقه حراماً۔
والدليل على ذلك أن النبي صلّى الله عليه وسلّم: «لما شكى إليه الناس أنه قد شق عليهم الصيام، وأنهم ينتظرون ما سيفعل الرسول صلّى الله عليه وسلّم دعا بإناء فيه ماء بعد العصر، وهو على بعيره فأخذه وشربه، والناس ينظرون إليه، ثم قيل له بعد ذلك: إن بعض الناس قد صام فقال: «أولئك العصاة، أولئك العصاة» (1) فوصفهم بالعصيانَ ۔ (الشرح الممتع على زاد المستقنع:6/ 344)َ
اس حدیث میں وارد: (قد شق عليهم الصيام) کو شیخ نے ناقابل برداشت سخت مشقت کے لیے بطور دلیل پیش کیا ہے۔
ایک اور مشہور حدیث ہے: لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، أَوْ عَلَى النَّاسِ لأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلاَةٍ [صحيح البخاري:887، مسلم:252]
اور ظاہر ہے کہ اس حدیث میں بھی مقصود کوئی معمولی مشقت نہیں ہے، بلکہ اس امر میں سخت مشقت پائے جانے کی وجہ سے ہی آپﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا۔
خلاصہ یہ نکلا کہ ان دو آثار سے بھی یہ نہیں پتہ چلتا ہے کہ معمولی مشقت کی وجہ سے روزہ ترک کرنے کی رخصت ہے۔
حاملہ اور مرضعہ کے تعلق سے ابن عبد البر کے قول کے علاوہ یہ دو آثار پیش کیے گئے اور ان دلائل سے مذکورہ مسئلہ پر استدلال کرنا کس حد تک درست ہے وہ آپ نے دیکھ لیا۔
مریض پر قیاس کی حقیقت:
در اصل اگر فتوی کی بنیاد شریعت کے مقررہ اصول پر نہ رہے تو فتوی میں اضطراب اور شذوذ پیدا ہوتا ہے۔ اب اس مسئلہ میں دیکھیں کہ جب حاملہ اور مرضعہ کو شیخ کبیر پر قیاس کرکے اس پر فدیہ کو واجب کہہ رہے ہیں تو پھر مریض پر قیاس کس بنیاد پر؟ اور اگر اس کو مریض مانتے ہیں (جو کہ حقیقت میں ہے) تو پھر اس پر مریض کی طرح قضا کیوں نہیں؟ اب اس تضاد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح حاملہ اور مرضعہ کو مریض پر قیاس کرکے معمولی مرض کی بنیاد پر روزہ ترک کرنے اور فدیہ دینے کی اجازت حاصل ہونی چاہیے اسی طرح کسی بوڑھے کو بھی معمولی پریشانی سے ہی روزہ ترک کرنے اور فدیہ دینے کی اجازت ہونی چاہیے؟
اس تضاد کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب اصل مسئلہ کو بھی دیکھیں کہ کیا واقعی کسی معمولی مرض کی بنیاد پر مریض کو روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے؟
اس سلسلے میں ابن حجر کا ایک قول پیش کیا گیا:
“وَقَدِ اخْتَلَفَ السَّلَفُ فِي الْحَدِّ الَّذِي إِذَا وَجَدَهُ الْمُكَلَّفُ جَازَ لَهُ الْفِطْرُ وَالَّذِي عَلَيْهِ الْجُمْهُورُ أَنَّهُ الْمَرَضُ الَّذِي يُبِيحُ لَهُ التَّيَمُّمَ مَعَ وُجُودِ الْمَاءِ وَهُوَ مَا إِذَا خَافَ عَلَى نَفْسِهِ لَوْ تَمَادَى عَلَى الصَّوْمِ أَوْ عَلَى عُضْوٍ مِنْ أَعْضَائِهِ أَوْ زِيَادَةً فِي الْمَرَضِ الَّذِي بَدَأَ بِهِ أو تماديه, وَعَن ابن سِيرِينَ مَتَى حَصَلَ لِلْإِنْسَانِ حَالٌ يَسْتَحِقُّ بِهَا اسْمَ الْمَرَضِ فَلَهُ الْفِطْرُ, وَهُوَ نَحْوُ قَوْلِ عَطاء, وَعَن الْحسن وَالنَّخَعِيّ: إِذْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الصَّلَاةِ قَائِمًا يُفْطِرُ”۔ (فتح الباري:8/179)
ابن حجر کے اس قول سے استنباط:
((حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں سلف کے موقف کو بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ گرچہ بیماری سخت مشقت والی یا موت وحیات کا مسئلہ والی نہ ہو پھر بھی روزہ توڑنے کی سلف نے اجازت دی ہے، بلکہ ابن سیرین اور عطاء رحمہما اللہ نے تو ہر اس بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی رخصت دی ہے جس پر مرض کا اطلاق کرنا درست ہو۔ اور یہ موقف صحیح بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت میں ایسی کوئی حد بندی وارد نہیں ہے، بلکہ اس میں مطلقا مریض کی بات آئی ہے))
شاید یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سخت مشقت اور موت وحیات کا مسئلہ ایک ہی چیز ہے، جبکہ مشقت سخت ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسئلہ موت وحیات کا ہے۔ یہ تو بہت آخری مرحلہ ہے، سخت مشقت کے باوجود بیشتر انسان کو کوئی ضرر بھی لاحق نہیں ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ نوبت موت وحیات تک پہنچ جائے۔
اس طرز استدلال سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ گویا جمہور نے بھی معمولی مرض میں روزہ ترک کرنے کی رخصت دی ہے اور گویا معمولی بیماری میں تیمم کرنا جائز ہے۔ اور نفس پر خطرہ یا کسی عضو کے شل ہوجانے یا معطل ہوجانے یا بیماری میں اضافہ ہونے یا بڑھ جانے کا خدشہ ہو یا کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ پانا معمولی امراض کے اقسام میں سے ہیں۔
اور اگر یہ سب معمولی مشقت یا امراض میں سے ہیں تو پھر سخت مشقت اور ضرر اور نفس پر خطرہ کس کو کہیں گے؟
اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لیے اسلام سوال وجواب میں موجود اس فتوی کو دیکھیں:
ذهب أكثر العلماء ومنهم الأئمة الأربعة إلى أن المريض لا يجوز له أن يفطر في رمضان إلا إذا كان مرضه شديداً، والمراد بالمرض الشديد، 1- أن يزداد المرض بسبب الصوم . 2- أن يتأخر الشفاء بسبب الصوم . 3- أن تصيبه مشقة شديدة ، وإن لم تحصل له زيادة في المرض ولا تأخر للشفاء . 4- وألحق به العلماء من يخشى حصول المرض بسبب الصيام
قال ابن قدامة رحمه الله في “المغني” (4/403):
وَالْمَرَضُ الْمُبِيحُ لِلْفِطْرِ هُوَ الشَّدِيدُ الَّذِي يَزِيدُ بِالصَّوْمِ أَوْ يُخْشَى تَبَاطُؤُ بُرْئِهِ
وذهب بعض العلماء إلى أنه يجوز الفطر لكل مريض وإن لم تحصل له مشقة بسب الصوم
وهو قول شاذ ردَّه جمهور العلماء
“اکثر علماء (جن میں ائمہ اربعہ بھی شامل ہیں) کا قول ہے کہ مرض شدید کی صورت میں ہی روزہ ترک کرنا جائز ہے اور سخت مرض کی یہ صورتیں ہیں:
روزہ کی وجہ سے مرض میں اضافہ ہو، روزہ کی وجہ سے شفا میں تاخیر ہو (یہ دونوں ضرر کی صورت ہے) اور سخت مشقت لاحق ہو، علماء نے اس میں اس حالت کو بھی شامل کیا کہ روزہ کی وجہ سے (یقینی ) مرض کا خطرہ ہو۔
ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ جس مرض سے روزہ ترک کرنا جائز ہے وہ سخت مرض ہے جو روزہ سے بڑھنے یا شفا میں تاخیر ہونے کا خدشہ ہو۔
بعض علماء کی رائے ہے کہ ہر مریض کے لیے روزہ ترک کرنا جائز ہے گرچہ اس سے مشقت نہ ہوتی ہو، یہ شاذ قول ہے، جمہور علماء نے اس قول کو رد کر دیا ہے”۔
• امام رازی فرماتے ہیں:
أَنَّ الْمَرَضَ الْمَذْكُورَ فِي الْآيَةِ إِمَّا أَنْ يَكُونَ هُوَ الْمَرَضُ الذي يكون في الغاية، وَهُوَ الَّذِي لَا يُمْكِنُ تَحَمُّلُهُ، أَوِ الْمُرَادُ كُلُّ مَا يُسَمَّى مَرَضًا، أَوِ الْمُرَادُ مِنْهُ مَا يَكُونُ مُتَوَسِّطًا بَيْنَ هَاتَيْنِ الدَّرَجَتَيْنِ، وَالْقِسْمُ الثَّانِي بَاطِلٌ بِالِاتِّفَاقِ (تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير:5/ 248)
امام رازی نے بھی اس قول کو بالاتفاق باطل کہا ہے اور بعض اہل علم کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں کیا ہے۔
امام شافعی کے قول پر شذوذ کا فتوی:
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَالْحَالُ الَّتِي يَتْرُكُ بِهَا الْكَبِيرُ الصَّوْمَ أَنْ يَكُونَ يُجْهِدُهُ الْجَهْدَ غَيْرَ الْمُحْتَمَلِ وَكَذَلِكَ الْمَرِيضُ وَالْحَامِلُ، وَإِنْ زَادَ مَرَضُ الْمَرِيضِ زِيَادَةً بَيِّنَةً أَفْطَرَ، وَإِنْ كَانَتْ زِيَادَةً مُحْتَمَلَةً لَمْ يُفْطِرْ وَالْحَامِلُ إذَا خَافَتْ عَلَى وَلَدِهَا: أَفْطَرَتْ وَكَذَلِكَ الْمُرْضِعُ إذَا أَضَرَّ بِلَبَنِهَا الْإِضْرَارَ الْبَيِّنَ، فَأَمَّا مَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ مُحْتَمَلًا فَلَا يُفْطِرُ صَاحِبُهُ، وَالصَّوْمُ قَدْ يُزِيدُ عَامَّةَ الْعِلَلِ وَلَكِنْ زِيَادَةً مُحْتَمَلَةً وَيُنْتَقَصُ بَعْضُ اللَّبَنِ وَلَكِنَّهُ نُقْصَانٌ مُحْتَمَلٌ، فَإِذَا تَفَاحَشَ أَفْطَرَتَا۔ (الأم للشافعي:2/ 114)
اس قول پر کچھ اس طرح کا تبصرہ کیا گیا:
“امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ فتوی بہت ہی سخت ہے۔ اور اس طرح کی سختی کرنے میں وہ متفرد ہیں، مجھے سلف میں کوئی دوسرا نہ ملا جنھوں نے یہ سختی دکھائی ہو۔ اور نہ کتاب وسنت اور مزاج شریعت سے ہی اس سختی کی کوئی تائید ہوتی ہے…. لہذا اس شاذ فتوے کو اصل بنانا اور حاملہ ومرضعہ کو حرج میں ڈالنا قطعا مناسب نہیں”۔
امام شافعی کے اس قول سے جو میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ضرر یا مشقت آسانی سے برداشت کیا جاسکے تو روزہ ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ اس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ برداشت ناممکن حد تک پہنچ جائے تب ہی رخصت ہے، کیونکہ انھوں نے اپنے اس موقف کی تعلیل یہ بیان کی کہ عموما روزہ سے ہر بیماری میں تھوڑا بہت اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح مرضعہ کے دودھ پر کچھ نہ کچھ اثر پڑتا ہے، گویا اگر مریض پر یا حاملہ اور مرضعہ پر روزہ کا واضح اثر پڑے تب ہی رخصت ہے۔
• امام شافعی خود ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
وَكُلُّ حَالٍ أَمَرْتُهُ فِيهَا أَنْ يُصَلِّيَ كَمَا يُطِيقُ فَإِذَا أَصَابَهَا بِبَعْضِ الْمَشَقَّةِ الْمُحْتَمَلَةِ لَمْ يَكُنْ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ إلَّا كَمَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْهِ إذَا أَطَاقَ الْقِيَامَ بِبَعْضِ الْمَشَقَّةِ قَامَ فَأَتَى بِبَعْضِ مَا عَلَيْهِ فِي الْقِيَامِ مِنْ قِرَاءَةِ أُمِّ الْقُرْآنِ وَأُحِبُّ أَنْ يَزِيدَ مَعَهَا شَيْئًا وَإِنَّمَا آمُرُهُ بِالْقُعُودِ إذَا كَانَتْ الْمَشَقَّةُ عَلَيْهِ غَيْرَ مُحْتَمَلَةٍ , أَوْ كَانَ لاَ يَقْدِرُ عَلَى الْقِيَامِ بِحَالٍ۔ (الأم للشافعي: 2/ 178)
اس عبارت میں انھوں نے ناقابل برداشت مشقت اور عدم قدرت کے درمیان فرق کیا ہے، یعنی ناقابل برداشت مشقت کا مطلب یہ نہیں کہ معاملہ عجز تک پہنچ جائے بلکہ معاملہ اس حد تک ہو کہ اس کو برداشت کرنا مشکل ہو۔
• امام نووی کی اس عبارت سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے:
قال أصحابنا: شرط إباحة الفطر أن يلحقه بالصوم مشقة يشق احتمالها قالوا وهو على التفصيل السابق في باب التيمم قال أصحابنا: وأما المرض اليسير الذي لا يلحق به مشقة ظاهرة لم يجز له الفطر بلا خلاف عندنا خلافا لأهل الظاهر۔ (المجموع شرح المهذب:4/ 486)
امام نووی فرماتے ہیں کہ شافعیہ کے نزدیک روزہ ترک کرنا اس وقت جائز ہے جب مشقت کو برداشت کرنا مشکل ہو۔۔۔۔پھر اس کے بعد فرماتے ہیں کہ جہاں تک معمولی مرض کی بات ہے جس میں مشقت ہو واضح طور پر محسوس نہ ہو اس میں روزہ ترک کرنا جائز نہیں ہے۔
امام شافعی کے قول کا مطلب اگر اس سے مختلف ہوتا ہے تو تمام شافعیہ اپنے امام کی رائے کے خلاف کیسے متفق ہوجاتے؟
• شیخ ابو عمر الدبیان موسوعة أحكام الطهارة (12/ 130) میں فرماتے ہیں:
“العبادات مشتملة على مصالح المعاد، فلا يليق تفويتها بمسمى المشقة، ولذلك قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم -: أجرك على قدر نصبك، فيحرص العبد على العبادة مع المشقة المحتملة، وإذا كانت المشقة كبيرة غير محتملة إلا بجهد ونصب؛ فإنه حينئذ له أن يترخص برخص الله سبحانه وتعالى”۔
اس قول میں بھی ناقابل برداشت مشقت ہی کی صورت میں رخصت پر عمل کرنے کو کہا ہے اور مشقت کے نام پر عبادت سے فرار اور حیلہ سازی سے منع کیا ہے۔
یقینا امام شافعی کے قول کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے۔
الفقه الميسر (3/ 52) کے مولفین لکھتے ہیں:
“ولا يتحول من الصيام إلى الإطعام عند الجمهور إلا إذا لم يقدر على الصيام لمانع صحيح، كأن يكون به مرض أو يخشى حدوث المرض بالصوم. أما من تلحقه المشقة المحتملة بالصوم فليس ذلك مسوغًا له للانتقال إلى الإطعام”۔
اس میں قابل برداشت مشقت کی صورت میں کفارہ جماع میں مسلسل دو مہینے روزے سے اطعام کی طرف منتقل ہونے کو ناجائز کہا گیا ہے۔
ان تمام تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ امام شافعی کا اس مسئلہ میں وہی قول ہے جو دیگر اہل علم کا ہے، ان کے قول پر شذوذ کا فتوی حقیقت کے برخلاف ہے۔
• عز الدین بن عبد السلام فرماتے ہیں:
وَتَخْتَلِفُ الْمَشَاقُّ بِاخْتِلَافِ الْعِبَادَاتِ فِي اهْتِمَامِ الشَّرْعِ فَمَا اشْتَدَّ اهْتِمَامُهُ بِهِ شَرَطَ فِي تَخْفِيفِهِ الْمَشَاقَّ الشَّدِيدَةَ أَوْ الْعَامَّةَ، وَمَا لَمْ يَهْتَمَّ بِهِ خَفَّفَهُ بِالْمَشَاقِّ الْخَفِيفَةِ۔ (قواعد الأحكام في مصالح الأنام:2/ 11)
“عبادات کی اہمیت اور عظمت کے اعتبار سے مشقت میں کمی وبیشی کا اعتبار کیا جائے گا، شریعت نے جن عبادات کو خصوصی اہمیت دی ہے ان عبادات میں تخفیف کے لیے سخت اور عمومی مشقت معتبر ہوگی اور شریعت نے جن عبادات کو خصوصی مقام نہیں دیا ہے ان میں معمولی مشقت سے بھی رخصت حاصل ہوگی”۔
اور ظاہر ہے کہ روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن اور عظیم الشان عبادت ہے جس کو اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ لہذا اس عظیم الشان عبادت میں معمولی مشقت کی بنیاد پر رخصت دینا غلط ہے۔
علامہ ابن القیم کےقول پر وارد اشکالات کا جائزہ:
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “أسباب الفطر أربعة: السفر والمرض والحيض والخوف على هلاك من يخشى عليه بصوم كالمرضع والحامل إذا خافتا على ولديهما”۔ (بدائع الفوائد: 4/ 45)
اس قول کے تعلق سے یہ اشکالات پیش کیے گئے ہیں کہ اس میں سخت مشقت یا خوف علی النفس یا نفاس کا تذکرہ نہیں ہے، تو کیا ان صورتوں میں بھی روزہ ترک نہیں کرسکتی ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خوف علی النفس مریض کے حکم میں داخل ہے، جیسا کہ ابن قدامہ، زرقانی وغیرہ نے اہل علم کا اتفاق نقل کیا ہے۔ لہذا اس میں مرض کی تمام شکلیں شامل ہیں۔
اور نفاس حیض میں داخل ہے: ابن حزم فرماتے ہیں:
أن النفاس حيض صحيح، وحكمه حكم الحيض في كل شيء «لقول رسول الله – صلى الله عليه وسلم – لعائشة أنفست؟ قالت نعم» فسمى الحيض نفاسا۔ (المحلى بالآثار:1/ 400)
• ابن قدامہ فرماتے ہیں:
والنفساء كالحائض في هذا؛ لأنها تساويها في سائر أحكامها۔ (المغني لابن قدامة:1/ 245)
لہذا ابن القیم کے اس نفیس قول میں اس طرح کے اشکالات پیدا کرنا مناسب نہیں ہے۔
خوف کی معنی کی تعیین کے لیے شنقیطی کے قول سے استدلال کا جائزہ:
علامہ شنقیطی نے حاملہ اور مرضعہ کے سلسلے میں انتہائی نفیس بحث کی ہے اور فدیہ کے قول کے ضعف کو بڑے مدلل اور اچھوتے اسلوب میں واضح کیا ہے، ان شاء اللہ اس قول کے بعض اقتباسات کو مناسب مقام پر پیش کروں گا۔
لیکن زیر بحث مسئلہ میں ان کے قول سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ خوف کا مطلب عمومی خوف کی بات ہے، کسی بھی قسم کا خوف ہو مثلا بیمار پڑجانے کا یا جسمانی طور پر کمزور ہوجانے کا وغیرہ۔
شنقیطی کے قول کو پیش کرنے سے پہلے خود ان جملوں پرغور کریں کہ کیا اگر کسی حاملہ یا مرضعہ کو یہ خوف ہو کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے میں کہیں جسمانی اعتبار سے کمزور نہ ہوجاؤں یا بیمار نہ پڑجاؤں لہذا میں روزہ نہیں رکھوں گی اور فدیہ ادا کر دوں گی؟ کیا کتاب وسنت اور سلف کے اقوال سے یہی پتہ چلتا ہے؟ اور کیا روزہ جیسی عظیم عبادت کو محض اس لیے چھوڑنا جائز ہے کہ کہیں میں جسمانی اعتبار سے کمزور نہ ہوجاؤں؟ یعنی بغیر کسی پریشانی کے نیکی حاصل ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں؟ اور اگر یہاں خوف کا یہی مطلب ہے تو پھر یہ لفظ ہی بے اثر اور بے معنی ہے، کیونکہ مسلسل ایک مہینہ روزہ سے حاملہ اور مرضعہ ہی کیوں ایک صحت نوجوان بھی کمزوری محسوس کرنے لگتا ہے۔
• شیخ ابو عمر الدبیان موسوعة أحكام الطهارة (12/ 130) میں فرماتے ہیں:
“العبادات مشتملة على مصالح المعاد، فلا يليق تفويتها بمسمى المشقة، ولذلك قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم -: أجرك على قدر نصبك، فيحرص العبد على العبادة مع المشقة المحتملة، وإذا كانت المشقة كبيرة غير محتملة إلا بجهد ونصب؛ فإنه حينئذ له أن يترخص برخص الله سبحانه وتعالى”۔
• عز الدین بن عبد السلام فرماتے ہیں:
وَتَخْتَلِفُ الْمَشَاقُّ بِاخْتِلَافِ الْعِبَادَاتِ فِي اهْتِمَامِ الشَّرْعِ فَمَا اشْتَدَّ اهْتِمَامُهُ بِهِ شَرَطَ فِي تَخْفِيفِهِ الْمَشَاقَّ الشَّدِيدَةَ أَوْ الْعَامَّةَ، وَمَا لَمْ يَهْتَمَّ بِهِ خَفَّفَهُ بِالْمَشَاقِّ الْخَفِيفَةِ۔ (قواعد الأحكام في مصالح الأنام:2/ 11)
• شیخ شنقیطی کے قول میں محل شاہد یہ جملے ہیں:
يجوز لها أن تفطر إذا خافت على نفسها كأن تكون حاملا ضعيفة البنية والحمل ينهكها فإذا صامت تعبت أو لربما استضرت۔
حاملہ کو اگر اپنے نفس پر خوف ہو تو اس کے لیے روزہ ترک کرنا جائز ہے، جیسے جسمانی اعتبار سے کمزور اور لاغر ہو اور حمل سے وہ شدید تھکاوٹ سے دو چار ہو۔ اور اگر روزہ رکھے تو مزید تھکاوٹ کا شکار ہوجائے یا ہو سکتا ہے کہ اس کو ضرر لاحق ہو۔
اس میں شیخ نے لفظ “انھاک” کا استعمال کیا ہے پھر اس کے بعد “تعب” کا، اور انھاک شدت تعب کے لیے آتا ہے۔ معاجم اللغة العربية میں ہے: مَرَضٌ مُنْهِكٌ : مُحَطِّمٌ، مُتْعِبٌ أَشَدُّ التَّعَبِ۔ چور چور کر دینے والا مرض یا سخت تھکا دینے والا۔ ظاہر ہے کہ حمل اگر سخت تھکا دے یا چور چور کر دے اور حاملہ کمزور جسم والی بھی ہو تو پھر وہ روزہ کیسے رکھ سکتی ہے؟
“وكذلك أيضا إذا خافت على جنينها. فقال لها الطبيب: إن الجنين في حالة لو صمت استضرّ بصومك ولربما مات۔ أو يكون الرضيع ضعيف البنية لا يمكن تأخير رضاعه، وإذا أرضعته وهي صائم استضرتَ، أو خافت على الولد الذي ترضعه؛ لأنها تحتاج إلى الحليب، ولكي تدر الحليب لابد أن تكون مفطرة أو تفطر على وجه تقْوى به على الإرضاع)
اس میں خوف علی الولد کی صورتیں بتائی گئی ہیں کہ اگر کوئی ڈاکٹر یہ مشورہ دے کہ روزہ رکھنے کی صورت میں بچہ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یا وہ مر سکتا ہے تو حاملہ کے لیے روزہ ترک کرنا جائز ہے۔ اسی طرح بچہ لاغر وکمزور ہو اور دودھ میں تاخیر کی صورت میں اس کو ضرر لاحق ہوسکتا ہے اور روزہ کی حالت میں ماں کا دودھ نہیں اترتا ہو تو ایسی حالت میں بچہ کی جان بچانے کے لیے ماں کے لیے روزہ توڑنا ضروری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ساری صورتیں ضرر کی ہیں جن میں کسی کو اختلاف ہی نہیں ہے۔
لیکن شنقیطی کے اس پورے کلام میں خوف کا معنی کسی بھی جگہ یہ نہیں ہے کہ اگر کسی کو بیمار پڑجانے یا جسمانی طور پر کمزور ہوجانے کا ڈر ہو تو وہ روزہ ترک کر دے۔
اعتراضات کا خلاصہ:
1- ابن عبد البر کے قول سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
2- شرعی اصول کی مخالفت
3- اصول میں تضاد
4- قیاس کی بنیاد ایک شاذ قول پر
5- مشقت اگر قابل برداشت اور خفیف ہو تو محاملہ اور مرضعہ کو روزہ ترک کرنے کی رخصت نہیں ہے۔ سلف اور خلف تمام اقوال سے یہی پتہ چلتا ہے۔
6- بعض اہل علم نے خفیف مرض پر روزہ ترک کرنے کی رخصت دی ہے لیکن یہ شاذ قول ہے جسے جمہور اہل علم نے رد کر دیا ہے۔
7- مجاہد اور علقمہ کے قول سے غلط استدلال
8- امام شافعی کے قول کو شذوذ سے تعبیر کرنا صحیح نہیں ہے۔
9- ابن القیم کے قول پر وارد اشکالات نامناسب ہیں۔
10- حاملہ اور مرضعہ کے مسئلہ میں جو بھی دلائل دیے گئے ہیں نہ ہی وہ صریح ہیں نہ ہی محتمل ہیں بلکہ وہ سب اوہام کے قبیل سے ہیں۔
11- علماء کی تفسیر کو نص قرآنی کی طرف منسوب کرنا بہت بڑی علمی غلطی ہے چہ جائیکہ ایک غلط مفہوم کو منسوب کیا جائے۔
آپ کے تبصرے