ہم لوگ جب اپنا مکان، گھر، بلڈنگ اور حویلی تعمیر کرتے ہیں تو آغاز نیچے سے کرتے ہیں۔ بنیاد مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اب تو بنیاد نہیں کھودی جاتی بلکہ پورا مکان ہی بنیاد بناکر موٹی موٹی دبیز سلاخوں سے اس طرح بھر دیا جاتا ہے کہ یہ عمارت آسمان کو بھی آنکھیں دکھلائے اور زلزلہ پروف ہونے کی وجہ سے زلزلہ بھی اس کا بال بیکا نہ کرسکے۔
عمارت کی تعمیر میں یقینا یہ فکر قابل قدر ہے۔ اگر تعمیر اس ایمان کے ساتھ کی جائے کہ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ َِزِلْْزَالَہَا وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا(زلزال 1,2) جب یہ زلزلہ آئے گا تو سب کچھ زمین بوس ہی نہیں بلکہ زمیں دوز بھی ہوجانا ہے۔
مگر ملک کی تعمیر ہم اوپر سے کرنا چاہتے ہیں جبکہ ملک کی تعمیر عمارتوں کی تعمیر سے بہت مشکل ہے۔ ملکوں کی تعمیر میں کبھی کبھی بہت لمبی مدت لگتی ہے، اس لیے ملک کی تعمیر بھی جب بنیادی اعتبار سے جتنی مضبوط ہوگی اور نچلا طبقہ جتنا مستحکم ہوگا اوپر کا حصہ اتنا ہی بہتر ہوگا۔ اس لیے اگر ہم ملک کے عظیم عہدوں پر بیٹھے ہوئے قائدین کو چاہتے ہیں کہ وہ آب زمزم سے غسل کر کے یا گنگا جل نہا کر آئیں تو پہلے خود نہانا پڑے گا، جس کے لیے یہ قوم تیار نہیں ہے بلکہ صرف قائدین کو فرشتہ صفت دیکھنا چاہتی ہے جو ابھی ابھی آسمان سے اترا ہو، نہ اس کو دنیا کی ہوا لگی ہو اور نہ ہی وہ دنیا آشنا ہو۔ تو جو دنیا سے نا آشنا ہوگا اور اس کو دنیا کی ہوا نہ لگی ہوگی تو کیا وہ دنیا کا نظام سنبھال سکتا ہے؟
آسمان سے کوئی فرشتہ نہ پہلے کبھی آیا اور نہ ہی مستقبل میں کبھی آئے گا۔ جو لوگ دنیا کی ہوا کھا کر دنیا آشنا ہیں انہی میں پاکیزہ صفت کو تلاش کرنا پڑے گا مگر اس سے پہلے اس صفت کا حامل خود ہونا پڑے گا۔ بصورت دیگر لوگ جس صفت کے حامل ہوں گے اسی قماش کا قائد تلاش کریں گے شرابی شرابی کو ترجیح دے گا، قزاق قزاق کو اور جو شریف النفس ہوگا وہ اپنے جیسا تلاش کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے افراد کا تزکیہ اور تطہیر کی اور یہی حکم بھی تھا کیونکہ پہلے بنیاد کی اینٹوں کو مضبوط بنانا تھا اور پھر اسی کو جوڑ کر ملک کی تعمیر کرنی تھی۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے فرمایا: يَا اَيُّهَا الْمُدَّثِّرْ. قُمْ فَاَنْذِرْ. وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ. وَثِيَاْبَكَ فَطَهِّرْ (المدثر: 1 تا 4) اے کپڑا اوڑھنے والے! کھڑے ہوجا اور آگاہ کر دے اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کر، اپنے کپڑوں کو پاک رکھ۔
آیت کریمہ میں ملک کی تعمیر کے لیے اپنی، اپنے لوگوں اور اپنے علاقہ کے لوگوں سے ظاہر و باطن کے تزکیہ کے آغاز کی بات کی گئی ہے کیوں کہ یہ افراد ملک کی تعمیر کے بنیادی پتھر اور اینٹ ہیں جن پر پورے ملک کی تعمیر کا دارومدار ہوگا، جس کے لیے تئیس سال کا عرصہ لگا تب جاکر خلافت مستحکم ہوئی جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب تھی اور جس کے لیے آپ کی بعثت ہوئی تھی۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف حکومت مقصود ہوتی تو پورا عرب آپ کو صادق و امین مانتا ہی تھا چند سربراہوں کو ملا لیتے اور خلافت کا اعلان ہوجاتا مگر نیچے کے ان طبقوں کا کیا حال ہوتا یعنی بنیاد کی اینٹوں کا جس پر یہ ملک تعمیر ہونا ہے۔ اس خلافت اور حکومت کا کیا ہوگا جس کی بنیاد کھوکھلی ہے۔ جس طرح بے بنیاد تعمیر کا ایک لمحہ کوئی بھروسہ نہیں ہوتا اسی طرح بنیاد سے خالی سربراہوں کو ملا کر اور کھلا کر اگر ملک بنایا جائے تو اس کا کیا حال ہوگا؟
اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مستحکم پلان کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا جس کا آغاز بنیاد سے ہونا تھا اور جس کی مدت کم سے کم تیئیس سال تھی اس لیے یہ خلافت اور اس خلافت کی اینٹ نیچے سے اوپر تک حد درجہ مضبوط ہونی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی بڑی بڑی سوپر طاقتیں نہ تو ہلا سکیں اور نہ ہی گرا سکیں مگر ان لوگوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کو ان کے مقابلے میں سامان ضرب و حرب سے خالی ہونے کے باوجود پرخچے اڑا کر ان کو تاریخ کا قصہ پارینہ بنا دیا۔
اب ہم لوگ ملک کا آغاز اور تطہیر کی شروعات قائدین سے کرنا چاہتے ہیں جو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے اور منطقی اعتبار سے بھی اور ہم اسے شرعی اعتبار سے بھی غلط مانتے ہیں۔ ملک کے قائدین کو ہم اپنے قیمتی ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں مگر کس طرح عیاں را چہ بیاں۔ پہلے قائدین ڈاکوؤں اور غنڈوں کو استعمال کر کے الیکشن جیتتے تھے کیوں کہ ان کے توسط سے غریب اور کمزور ووٹرس اپنا قیمتی ووٹ خوف یا پیسے کی بنیاد پر ڈاکوؤں اور غنڈوں کو دے دیا کرتے تھے اور قائد جیت جاتا تھا۔ مگر جب انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ جب ہم ان کو جیتا سکتے ہیں تو پھر خود کیوں نہیں جیت سکتے، اس لیے وہ جیل سے باہر آتے ہیں اور کھدر کا کرتا پائجامہ پہن کر ملک کے عظیم قائدین کی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں جس سے یہ بھی سمجھنا مشکل نہیں کہ دونوں کے عمل و کردار میں بہت فرق اور فاصلہ نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ صرف طریقہ کار کا فرق ہے تو نامناسب نہیں۔
ہمارے قائدین کو منتخب کرنے والے آسمان سے نہیں ٹپکتے بلکہ ہم خود منتخب کرتے ہیں جو سماج کے نچلے طبقے کے ہیں۔ نچلا طبقہ بھی بیشتر کرپٹ ہے، اپنی وسعت و اوقات کے مطابق کرپشن میں وہ بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔
کرپشن میں نیچے سے اوپر تک ہر طبقہ کس طرح لت پت ہے اس کا ایک شخص نے تجربہ کیا اور اپنی ٹی وی کا کوئی ایک تار کھول کر میکینک کے پاس لے گیا۔ اس نے بڑی دیر تک دیکھا اور کہا فلاں سامان خراب ہوگیا ہے تیرہ ہزار روپئے لگیں گے۔ زیادہ خرچ کی وجہ سے اس نے معذرت کی اور ٹی وی واپس لے کر چلا آیا۔ دوسرے دن اس نے اپنے فریزر کا تار کھولا میکینک کو بلایا اس نے بڑی توجہ سے دیکھا اور بتایا کہ کمپریسر خراب ہوگیا ہے اٹھارہ ہزار روپیہ خرچ ہے۔ اس نے اس سے بھی مہلت لی۔ تیسرے دن اس شخص نے اپنی بائک کا ایک پہیہ لیا، اس میں نیا ٹیوب لگایا، رسید جیب میں رکھی اور پنکچر بنانے والے کے پاس گیا اس نے دو پنکچر بنا بھی دیا۔ اس شخص نے رسید دکھلاتے ہوئے کہا کہ ٹیوب نیا ہے، اس کی یہ رسید ہے تم نے کیسے دو پنکچر بنا دیے۔ اس نے کہا یہ تو ہمارا احسان ہے کہ ہم نے دو ہی پنکچر بنایا ہم چار پنکچر بھی بنا سکتے تھے۔
یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ کرپشن نیچے سے اوپر تک ہر جگہ ہے۔ جب نیچے کا طبقہ کرپٹ ہوگا تو کرپٹ کو ہی منتخب کرے گا۔ جو قوم ایک پلیٹ بریانی، ایک پاؤچ اور سو پچاس روپیہ پر اپنا نمائندہ منتخب کرے گی وہ کیوں اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ کرپشن ختم ہوجائے گا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے افراد کی تطہیر کی تاکہ ان پاکیزہ اینٹوں سے جو تعمیر ہو وہ پختہ ہو۔ اس لیے جب تک نچلا طبقہ کرپشن کی روش چھوڑ کر، بریانی اور پاؤچ پر نہیں بلکہ ضمیر کی آواز پر ووٹ نہیں دے گا تب تک ہم اصلاح کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں مگر اصلاح ممکن نہیں۔
آپ کے تبصرے