پہلے ہوجائے ذرا لعل و گہر کی باتیں
پھر سناؤں گا تمھیں شمس و قمر کی باتیں
درد محسوس درختوں کا اگر کرلیتے
پھر خزاؤں میں نہیں کرتے ثمر کی باتیں
لوگ بزدل تجھے سمجھیں گے کبھی سوچا ہے
کرتا رہتا ہے ہمیشہ ہی تُو ڈر کی باتیں
طشت ازبام ہوئیں کیسے یہ معلوم نہیں
رات کے قصے مری جان سحر کی باتیں
پاؤں کے چھالے ہی اس کی بھی گواہی دیں گے
کتنی سچی ہیں مسافر کے سفر کی باتیں
اس زمانے میں بتا کون ہے جو کرتا ہے
“پیار ایثار و وفا شعر و ہنر کی باتیں”
راس آتی نہیں محمود فضا گلشن کی
یا سمجھ میں نہیں آتی ہیں شجر کی باتیں
آپ کے تبصرے