سوشانت کی خودکشی: اعصاب شکن زلزلہ

عبدالرزاق محمدی متفرقات

ہنستے مسکراتے نوجوان عمر فنکار سوشانت سنگھ کی خودکشی کی ایک کہانی وہ ہے جو میڈیا سنا رہا ہے۔ دوسرا بیان وہ ہوگا جو ہر زاویے سے مکمل تفتیش کے بعد نکھر کر سامنے آئے گا۔ لہذا خودکشی کی تصدیق کرنا یا اس پر آنکھ بند کرکے یقین کرنا ابھی جلد بازی بلکہ قبل از وقت ہوگا۔ ضروری نہیں کہ یہ پورا سچ ہو بلکہ ممکن ہے کہ ادھورا سچ ہو۔ جب تک اس واقعہ کی تفتیشی ایجینسیاں ہر زاویے سے تحقیق نہیں کرلیتیں اس غیر طبعی موت پر بے یقینی کے بادل چھائے رہیں گے اور شک کا پردہ بدستور باقی رہے گا۔ نہ ہم اسے پورے طور پر جھوٹ کہہ سکتے ہیں نہ ہی اسے ممکنہ سچ کہہ سکتے ہیں۔
گردش زمانہ، ذہنی تناو، خود کشی کے دیگر اسباب کی طرح ایک اہم سبب ہے جو بندہ کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردیتی ہے۔ بہت ممکن ہے یہ خودکشی ہی ہو۔ کم عمری میں ہی قدرت پرتعیش زندگی کے سارے وسائل قدموں میں بکھیر دے اور شراب و کباب اور عیش وعشرت کی موجودگی بھی ہو تو بھی ضروری نہیں کہ سکون دل پہلو میں ہو اور جینے کی وجہ بھی پاس ہو۔ یہ جو پردہ اسکرین کے فنکار ہمیں سہانے خواب و خیال عطا کرتے ہیں اور زندگی کے معرکہ زار میں بہادری سے برسر پیکار رہنے کی دعوت اور حوصلہ دے کر متاثر کرتے ہیں یہ صرف طوطے ہوتے ہیں جو یاد کرکے مکالمے ادا کرتے اور جسمانی حرکات وسکنات سے ہِل جُل کرکے اپنی نوکری کرتے ہیں۔ جسم بیچتے ہیں شخصی خیالات کو دباکر سماج کے ہر طبقہ کی روایات و تقالید کو فلمی پردے پر لانے والے ہمارے یہ فنکار جنھیں زمانہ اور نوجوان نسل پلکوں پر بِچھاتی ہے جن کی تقلید کرتے اپنے پہناوے اور عادات و اطوار بدلتی ہے فلمی پردے کے باہر یہ فنکار خود چراغ تلے اندھیرا، محفلوں میں تنہا اور تنہائی میں نیم مردہ ہوتے ہیں۔ فلمی پردے سے باہر حکایت دل کہنے کو کوئی معتبر و معتمد ہم نشین مونس وغم گسار نہیں پاتے اور مافی الضمیر سنانے کو ان کے پاس اپنا “سوشل میڈیا “نہیں ہوتا۔ فراز انانیت سے معمور اور فریب ذات کے شکار نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کے مارے یہ شوبز اداکار اور اداکارہ عوامی ہجوم میں اپنے مصنوعی چہرے پر سکون و اطمینان کا خواہ کتنا ہی پرتکلف غازہ سجالیں، خوشحالی کے نمائشی پاوڈر اور خوشبو سے خود کو کتنا ہی کیوں نہ سجالیں، گلیمر حسن و مستی کی سیمابی اور رنگ بکھیرتی محفلوں کی یکسانیت سے اکتا جاتے ہیں۔ بالآخر کسی کو سکون دل پانے کے لیے مذہب کا پنجرہ راس آتا ہے تو کسی کو اداس موسیقی کا سہارا لینا پڑتا ہے کسی کو آرام دہ خواب گاہ میں پرسکون نیند کے لیے خواب آور گولیاں لینی پڑتی ہیں کسی کو تنہائی ڈستی ہے تو بار بار شراب اور منشیات اور الکوحل اور سگریٹ کی ہلاکت آفریں پناہ میں بسیرا کرنا پڑتا ہے۔ شوبز ستاروں کی دنیا ایک ناقابل فہم مایا نگری ہے اس میں ہر ستارہ اسی وقت تک روشن ستارہ ہوتا ہے جب تک اس کی مقبولیت کے دن ہیں جیسے ہی اس ستارے کے غروب کے دن آتے ہیں پھر پرستار ان سے خیر و عافیت نہیں پوچھتے۔ کوئی آٹوگراف کو نہیں آتا کوئی میڈیا اینکر ان سے ملنے نہیں جاتا کوئی اشتہار ایجینسی کسی اشتہار کے لیے ان سے رجوع نہیں کرتی۔ کوئی ڈائریکٹر انھیں فلم یا سیریل کے لیے رابطہ نہیں کرتا۔ وقت کا پہیہ گھومتے ہی مقبولیت گھٹ جاتی ہے اور بندہ گھوم پھر کر اسی اسٹرگلنگ دور کے نقطہ آغاز یعنی صفر تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے اس نے اپنے کیرئر کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس دنیا میں پرستاروں کے درمیان اپنی خوب روئی اور مقبولیت کو قائم و دائم رکھنا اور اس مقبولیت کو ہضم کرنا اور اس فلمی لابی کے پر فریب سازشی بندوں کے اور خواہ مخواہ کے تنازعات سے خود کو بچائے رکھنا کمال ہے بصورت دیگر دبئی کے بند کمروں سے ضرورت سے زیادہ شراب نوشی کی وجہ سے سری دیوی کی موت کی خبر آتی ہے تو کبھی سوشانت سنگھ راجپوت جیسے نوجوان اداکار کی خودکشی کی خبر کان کے پردے سے ٹکراتی ہے۔
میں نے بارہا غور کیا کہ جس ملک کے اندر مذاہب کا جنگل ہو، مذہبی تعلیمات کا چلن ہو، پرچار و پرسار کی یک گونہ آزادی ہو وہاں پچھلے سو سالوں میں خودکشی کی وارادت کیوں بڑھتی جارہی ہیں۔ حد سے بڑھی ہوئی غربت، سنگین جرم کرکے عدلیہ سے فرار، عشق میں ناکامی یا کسی عزیز کی جدائی کا صدمہ یا دشمن کو بھیانک نقصان پہنچانے کے لیے خودکشی کرنا یہ ساری معروف وجوہات عام وخاص کو پتہ ہیں لیکن مادی اسباب کی فراوانی اور نارمل زندگی جینے کی ساری سہولیات کے باوجود کوئی اس زندگی کو چھوڑ کر موت کو گلے لگالے تو یہ قدم ایک پراسرار پہیلی بن جاتا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ ہمارے یہاں مذہبی تعلیمات کی گرفت کمزور ہوتے ہی انسان خدافرموشی سے خودی فراموشی کی طرف آچکے ہیں۔ اب ایک ایسی ذہنیت پروان چڑھائی جارہی ہے جہاں خودکشی کو قانونی طور پر بیک وقت برا بھی سمجھا جاتا ہے اور اسے فرد کا انفرادی حق بھی سمجھا جاتا ہے۔
پس اے میرے عزیز!
جس ملک کی پچاس فی صد فلمیں ستر فی صد میگزین یہ پیغام دیتی ہوں کہ
1-گھٹ گھٹ کے مرنے سے بہتر ہے کہ آدمی ایک ہی بار خودکشی کرکے مرجائے۔
2-ہارر فلموں کا ایک تھیم یہ ہوتا ہے کہ شریر آتماووں سے لڑنے کے لیے یا ان کو ہرانے کے لیے اپنی جان دے کر ان کی دنیا میں جانا ہوگا اس لیے خودکشی کرنی ہوگی۔
3- مائے لائف مائے چوائس میرا جسم میری مرضی، میں اسے چاہوں تو زندہ رکھوں چاہوں تو اسے ختم کردوں کسی کو دخل اندازی کا حق نہیں ایسے خوش نما مگر مہلک نعرے انسان کو آخری قدم اٹھانے یعنی خودکشی کو خوش نما بناکر پیش کرتے ہیں اور وہ اپنی جان لٹادینے پر اپنے ضمیر کو مطئن کرکے بہ آسانی تیار ہوجاتا ہے۔
4- قطع حیات بہ جذبہ رحم اور مرسی کلنگ کے اوپر جہاں دو دو گھنٹے کی فلمیں بنائی جائیں۔
وہاں زندگی سے پیار نہیں گھٹن کی فضا ہموار ہوتی ہے اور ایسے ملکوں میں خودکشی کبھی کبھی ہیرو ازم اور بہادری کا کلچر بھی بن جاتی ہے۔ جبکہ یہ سراسر بزدلی اور زندگی سے فرار ہے۔
کل سے سوشل میڈیا پر کئی صاحبان حسرت و یاس کی تصویر بن کر لکھ رہے ہیں کہ گھٹن کا وہ کون سا لیول ہوگا جس سے انسان پنکھے کی رسی تک سے جھول جاتا ہے۔
بظاہر ایسے جملے ایک طرح سے اظہار ہمدردی کے جملے ہیں لیکن یہی جملے اپنے بین السطور میں خودکشی کو سند جواز بھی عطا کرتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم خودکشی جیسی ذمہ داریوں سے فرار کی بزدلانہ مہم جوئی کو بدنما کرکے پیش کریں اور یہی لکھیں کہ
“شکست خواہ کتنی ہی بڑی ہو وہ ہمیشہ وقتی ہوتی ہے اور دوبارہ زیادہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ اس کو فتح میں تبدیل کیا جاسکتا ہے”۔
بہر حال اداکار کی موت سوشانت کے اہل خانہ کے لیے تباہ کن صدمہ ہے۔ اس کے پرستاروں کے اعصاب پر غفلت کے عالم میں آسمان سے گری ہوئی بجلی ہے جس نے انھیں زبردست صدمہ پہنچایا ہے بلکہ پوری طرح جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اہل ایمان اور ارباب مذاہب کے لیے یہ پیغام عبرت ہے کہ مادی اسباب اور پرتعیش وسائل زندگی قلبی سکون واطمینان نہیں فراہم کرسکتے، جینے کے لیے ان مادی اسباب کے علاوہ روحانی خوراک اور نفسیاتی اطمینان بھی ضروری ہے۔ سوشانت کی موت نے واعظوں اور خطیبوں اور خودکشی کے خلاف سرگرم عمل این جی اوز کی ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ بڑھادی ہیں کہ وہ خودکشی کے خلاف مفید و موثر آرٹیکل لکھیں، بہترین فلمیں بنائیں اور انسپائرنگ ڈرامے اسٹیج کریں۔ بین المذاہب اسٹیج پر مذہبی روحانی شخصیات اس موضوع پر انسانی برادری سے محو خطاب ہوں۔ خودکشی کا جڑ سے خاتمہ ممکن نہیں لیکن اس کی شرح کو کم سے کم سطح تک لانا بھی بہت بڑی کامیابی ہے۔ کیا ہم موت پر مائل نسل انسانی کو کچھ زندہ رہنے کے کچھ پل دینے کے لیے یہ قربانی دینے کو تیار ہیں؟

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالمتين

ما شاء الله. بہت خوب. آپ نے اتنا جامع ومانع مضمون لکھا کِہ کچھ اضافہ وتعليق کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی. آپ ہی کی باتوں کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے عرض ہے کہ جسمانی اور روحانی عناصر سے مرکّب یہ جسد خاکی جب تك روحانی اور جسمانی دونوں عناصر کو متوازن غذا مہیا نہیں کرے گا تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے. یہ اسلام ہی کا حسن ہے کہ الله رب العزت نے مؤمن کو پہنچنے والی ہر تکلیف خواه وہ پیر میں چبھا ہوا کانٹا ہی کیوں نہ ہو اگر مؤمن الله کے یہاں أجر کے حصول… Read more »

عبدالرزاق محمدی

جزاک اللہ خیر برادر عزیز- و شکرا لمرورک النیرة