دلیل مدعی دے گا

محمد مظہر الاعظمی فقہیات

جب کسی علاقہ میں مختلف لوگ ایک ساتھ رہتے سہتے اور بستے ہیں تو کبھی کبھی زمین، جائداد، دکان وغیرہ کو لے کر آپس میں جھگڑا اور تنازع ہوجاتا ہے۔ مگر شریعت نے جس طرح ہر مسئلہ کا حل پیش کیا ہے اسی طرح لڑائی اور جھگڑے کا بھی ایک مستحکم اصول پیش کیا ہے مگر افسوس کہ اس تعلیم یافتہ دور میں بہت سے لوگ ان اصولوں سے ناواقفیت کی وجہ سے مسئلہ کو حل نہیں کرپاتے بلکہ کبھی کبھی اور پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
جب دو شخص میں تنازع ہوتا ہے تو ایک شخص مدعی (دعویٰ کرنے والا) ہوتا ہے اور دوسرا مدعی علیہ (جس پر دعویٰ کیا گیا)۔ جس نے دعویٰ پیش کیا ہے یعنی مدعی اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں دلائل و براہین پیش کرے اور دوسرا شخص مدعی کے دعویٰ نہ پیش کرنے کی صورت میں قسم کھائے گا۔ جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْبَیِّنَةُ عَلي الْمُدَّعِيْ وَالْيَمِيْنُ عَلي الْمُدَّعٰي عَلَيْهِ (ترمذی:1341)

یعنی دعویٰ کرنے والا دلیل دے گا اور دلیل نہ دینے کی صورت میں جس پر دعویٰ کیا گیا ہے وہ قسم کھائے گا۔
شریعت کا یہ بنیادی اصول جو پوری دنیا میں مروج بھی ہے اور عدالتوں میں عملاً رائج بھی ہے کہ پہلے مدعی سے دعوی کے مطابق دلیل طلب کی جائے بصورت دیگر مدعی علیہ قسم کھائے گا۔ اس واضح اصول اور ہدایت کے باوجود بہت سے لوگ جھگڑا ہونے کی صورت میں مدعی ہیں مگر قسم کے لیے آمادہ ہیں اور دلائل کی عدم موجودگی میں مدعی علیہ الگ قسم کھانے کے لیے آمادہ رہتا ہے۔
جب مدعی کے پاس دلیل نہیں ہوتی تو اسے گھبراہٹ ہوتی ہے کہ ابھی مدعی علیہ قسم کھا کر ہڑپ لے گا۔ ایسا ہی ایک صحابی کے ساتھ پیش آیا، ان کا ایک یہودی کے ساتھ زمین کا معاملہ تھا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آپ کے پاس دلیل ہے؟ کہا نہیں تب آپ نے یہودی سے قسم کھانے کے لیے کہا، صحابی نے کہا وہ تو قسم کھا کر میرا مال لے ہی لے گا۔ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ
اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَاْنِهِمْ ثَمَناََ قَلِيْلاََ اُوْلٰئِكَ لَا خَلَاْقَ لَهُمْ فِيْ الْاخِرَةِ وَلَاْ يُكَلَّهُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَاْبُُ اَلِيْمُُ (آل عمران:77)

اللہ تعالی نے آیت کریمہ کے ذریعہ واضح کردیا کہ مدعی کے پاس دلیل نہ ہونے کی صورت میں مدعی علیہ قسم کھائے گا، یہ الگ بات ہے کہ وہ قسم کھا کر تھوڑے سے مال کے لیے اپنی آخرت برباد کرے اور اس طرح برباد کرلے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو اس کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی بات و تزکیہ کرے گا۔ اس لیے اگر مدعی کے پاس دلیل نہیں ہے اور مدعی علیہ جھوٹی قسم کھا کر ہڑپ لے تو مدعی کو مطمئن رہنا چاہیے کہ اس نے اپنی آخرت خراب کی ہے میری نہیں۔

محمد مظہر الاعظمی کی دیگر تحریریں

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالمتين

ما شاء الله. بارك الله فيكم. در حقيقت ايك مؤمن کو کبھی اس بات کی فکر ہی نہیں کرنی چاہئے کہ اس کا حق مارا گیا. دنيا میں نہ ملا تو آخرت میں اس کا حق کہاں جائے گا؟ بلکہ اگر کوئی ميسور الحال ہو تو عدالت سے رجوع کئے بغير گفت وشنيد کے ذریعہ مسئلہ كا حل تلاش کرنے پر اكتفا کرے اور معامله الله کے سپرد کر دے کیونکہ یہ عين ممكن ہے کہ اس کے لئے آخرت میں اپنا حق وصول کرنا زیادہ سود مند ہو.