کیا خبر واحد ظن کا فائدہ دیتی ہے؟

عبدالمالک رحمانی حدیث و علوم حدیث

منکرین حدیث کا ایک اشکال اور اعتراض یہ ہوتا ہے کہ دین میں عقائد کے باب میں خبر واحد حجت نہیں بلکہ احکام میں وہ حجت ہے اور اگر ان سے کہا جاتا ہے کہ حدیث ہر باب میں حجت ہے خواہ وہ عقائد کا ہو یا پھر احکام کا اور حجیت حدیث کے حوالے سے جب ان کی بات نہیں بنتی ہے اور دلائل کے اعتبار سے وہ لاجواب ہوجاتے ہیں تو ایک حیلہ اختیار کرتے ہیں کہ خبر واحد عقائد کے باب میں قابل حجت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ظن کا فائدہ دیتا ہے اور ظن سے عقیدہ ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔

ایک سوال جو ذہن میں بار بار دستک دیتا ہے کہ “آخر کس نے کہا کہ خبر واحد احکام میں حجت ہے اور عقائد میں نہیں؟ کیا قرآن کی کسی آیت میں ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں ہے یا عمل صحابہ سے ثابت ہے؟ وغیرہ تو اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہوگا جو اس طرح کی تفریق کرتے ہیں۔

جو لوگ خبر واحد کی عدم حجیت کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ اولاً خبر واحد ظن کا فائدہ دیتا ہے اور ظن کی اتباع سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اور اس کی مذمت وارد ہے اور بعض آیات سے استدلال کرتے ہیں جیسے: “وَلَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَكَ بِهِۦ عِلۡمٌ” (سورة الإسراء:36) “وَإِنَّ ٱلظَّنَّ لَا یُغۡنِی مِنَ ٱلۡحَقِّ شَیۡـࣰٔا” (سورة النجم:28) اور “وَأَن تَقُولُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ” (سورة الأعراف:33)
اس لیے ان کا کہنا ہے کہ خبر واحد ظنی ہے اور کیونکہ اس میں راوی (حدیث بیان کرنے والے) پر خطا اور نسیان کا احتمال باقی رہتا ہے اور جس کی ایسی حالت ہو وہ قطعی اور یقینی نہیں ہوسکتا ہے اس لیے یہ استدلال میں قطعیت کا فائدہ نہیں دے سکتا ہے۔
ان کا جواب دو طریقے پر دیا جا سکتا ہے:
1- شرعاً یعنی شرعی نقطہ نظر سے تو معلوم ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر حجت قائم کرنے کے لیے تنہا تنہا صحابہ کو تبلیغ کے لیے بھیجا اور ایسا بارہا ہوا جیسا کہ یمن حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اور ان کے علاوہ دوسرے اور نصوص۔
2- مخالفت الحال سے جواب: جو لوگ خبر واحد کی حجیت کو ظنی الفائدہ کہہ کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے قائلین بہت سے ایسے واقعات میں اخبار آحاد سے یقین حاصل کرتے ہیں جو کہ تواتر کی حد تک نہیں پہنچتےم جیسے شادی، وفات، ولادت، کامیابی و ناکامی، فائدہ و خسارہ وغیرہ امور جو یہ دلالت کے لیے کافی ہیں کہ اخبار آحاد سے یقین کا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اخبار آحاد بعض یقین کا فائدہ دیتے ہیں اور بعض ظن غالب کا۔
ایک طرح سے ان کا یہ اشکال اس طور پر بھی غلط ہے کیوں کہ قرآن مجید میں جو ظن استعمال ہوا ہے وہ کسی ایک معنی میں نہیں ہے بلکہ قرآن میں ہی بعض جگہ ظن مدح کے ساتھ آیا ہے اور بعض جگہ ذم کے لیے
ذم کے معنی میں جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول: وَ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا (سورہ نجم:28) حاﻻنکہ انھیں اس کا کوئی علم نہیں وه صرف اپنے گمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور بے شک وہم (و گمان) حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں دیتا۔ یہاں یا اس طرح کی آیات میں جس ظن کی مذمت وارد ہے اس سے مراد بلا سر و پیر کے جھوٹ باندھنا، خواہشات پر مبنی اقوال یا پھر شریعت کے مخالف خیال یا بس وہم و گمان سے پُر باتیں جن پر کوئی دلیل نہ ہو۔ جب کہ اس کے برعکس راجح ظن ہے کیونکہ وہ تو عمل کے وجوب میں قطعی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ پر بلا علم بات کرنے والی بات صادق نہیں آتی ہے۔
اسی طرح بعض مقامات پر قرآن مجید میں ظن مدح کے طور پر آیا ہے اور یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول: وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ ،الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ [سورة البقرة: 45،46] اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر، جو جانتے ہیں کہ بے شک وه اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور یقیناً وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قول: اِنِّیۡ ظَنَنۡتُ اَنِّیۡ مُلٰقٍ حِسَابِیَہۡ [سورة الحاقة : 20] مجھے تو کامل یقین تھا کہ مجھے اپنا حساب ملنا ہے۔
یہ اور اس طرح کی آیات جن میں ظن کا استعمال یقین کے لیے ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظن کا صرف ایک معنی نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے کئی معانی ہیں اور سیاق و سباق سے واضح ہوگا کہ کون سا معنی مراد ہے لہذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ ظن کا فائدہ دیتا ہے تو اس سے مراد ان کی یہی ہوتی ہے کہ ظن مرجوح ہے کیوں کہ اخبار آحاد کے ساتھ ان کا جو رویہ ہے وہ یہی بتلاتا ہے کہ خبر واحد کو ظنی کہہ کر اسے رد کرنا چاہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح خبر واحد کی عدم حجیت کی بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہ غلط ہے کیوں کہ سابقہ سطور سے واضح ہوتا ہے کہ کون سا ظن مذموم اور کون سا ظن ممدوح۔
اسی طرح شیخ محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کے کئی جوابات ہیں مختصر یوں کہ جو شخص خبر واحد کی وجہ سے عبادت کرنے سے رک جاتا ہے تو اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شخص اس کی نفی کرتا ہے تو اس کا سارا دار و مدار ہی ظن پر ہے اور وہ جن آیات سے استدلال کرتا ہے وہ خود ہی مذکورہ ذم میں داخل ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس مسئلے میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ: حدیث پر حکم لگاتے وقت دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں:
1- سند یعنی روایت کتنے طرق سے مروی ہے یعنی حدیث کی سند۔
2- رواۃ یعنی حدیث کی روایت کرنے والے۔ بالخصوص ان کی صفات، علمی مقام و مرتبہ اور زہد و ورع میں ان کی شخصیت اور جرح و تعدیل میں ان کا مرتبہ۔ اگر ان کو خصوصی درجہ حاصل ہو تو روایت علم اور یقین کا فائدہ دے گی۔
اور صحیح بات بھی یہی ہے: خبر واحد جب اس میں قرائن موجود ہوں تو یقین اور قطعیت کا فائدہ دیتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الخبر المحتف بالقرائن، کاخراج الشيخين، له طرق متباينة، مسلسل بالائمة الحفاظ المتقنين۔ (نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر لابن حجر:18-20) کہ اگر حدیث قرائن سے مزین ہو تو اس سے یقین کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ ان قرائن میں سے یہ ہے کہ حدیث کی تخریج شیخین نے کی ہو (اس کی بھی تفصیل ہے مطلق نہیں جیسے اصول میں کیا ہو یا اعتبار کے لیے کیا ہو تو اس کا حکم مختلف ہوتا ہے بہر حال شیخین کی تخریج بھی قرائن ترجیح میں سے ایک ہے ) حدیث کئی سند سے مروی ہو اور سند میں جو رواۃ ہوں وہ سب ائمہ یا حفاظ اور قوی ہوں اگر اس طرح کے قرائن سے مزین ہو تو اس سے یقین کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
اور اس میں ان ہی دونوں چیزوں کا اعتبار ہوتا ہے ایک سند اور اس کے طرق اور دوسرا راویوں کے صفات بالخصوص ان کی صفات علمی مقام و مرتبہ اور زہد و ورع اور جرح و تعدیل میں ان کا مقام۔
مثلاً کوئی حدیث مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سند سے وارد ہے جسے امام بخاری کے نزدیک اصح الاسنانید کا درجہ حاصل ہے اور وہی روایت یا اس معنی میں امام شافعی عن سفیان ابن عیینۃ عن سالم (مولی ابن عمر) عن ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سند سے وارد ہو تو اس طرح امام اور ثقہ راویوں کی کثرت سے روایت کو تقویت ملتی ہے۔ اور جس قدر روایت کی سند اور اس کی تقویت میں اضافہ ہوگا اور بالخصوص ثقہ راویوں اور اماموں کی کثرت ہوگی حدیث کے افادہ علم و یقین میں زیادتی ہوتی جائے گی لیکن یاد رہے کہ حجیت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا (پہلے بھی حجت تھی اور بعد میں بھی رہے گی) اس لیے کہ جب سند ثابت ہوجائے اور اس کے راوی ثقہ ہوں تو علم کا فائدہ دینے کے لیے کافی ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ افادہ کے تعلق سے اگر صحیح سند سے کوئی روایت ثابت ہوجائے تو اس سے قطعیت اور علم کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اب یہ سند خواہ اخبار آحاد کے قبیل سے ہو یا متواتر کے قبیل سے اس کی قطعیت اور علم کے افادے میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

◀️مصادر و مراجع

“الحديث حجة بنفسه في العقائد والأحكام”، و”وجوب الأخذ بأحاديث الآحاد في العقيدة والرد على شبه المخالفين”، كلاهما للشيخ الألباني رحمه الله
“الفتاوى” لابن تيمية: جـ 18/16، ج 20/ 257
“الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة” لابن القيم، ج 2/ 357 – 379، ج 2/ 420 – 434
“إحكام الأحكام” لابن حزم: ج 1 / 119 – 133
“الرسالة” للشافعي: 401 – 403
خبر الواحد و حجيته للدكتور أحمد محمود عبد الوهاب الشنقيطي: 146 – 151
مكانة السنة في التشريع الإسلامي للدكتور محمد لقمان السلفي: 153-155

آپ کے تبصرے

3000