اللہ تعالیٰ نے انسان، جنات اور اسی طرح بہت سی چیزیں پيدا کیں اور اپنی مخلوقات كو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا جن كا احصا و شمار ممكن نہیں۔ جیسا کہ الله رب العالمین كا فرمان ہے:
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورة النَّحل:18)
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کرسکتے۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
دوسری آيت ميں فرمايا:
وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِ*نسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (سورة إبراهيم:34)
اسی نے تمھیں تمھاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انھیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
گویا اللہ تعالیٰ یہ فرمارہے ہیں کہ بندے كو اللہ کی نعمتوں ميں غور و فكر كرتے رہنا چاہیے اور اسے ياد ركھنا چاہيے اور ان نعمتوں پر شكر ادا كرنا چاہيے۔ الحمدللہ ہم مسلمان اس کا شعوری و غیرشعوری طور پر اہتمام بھی کرتے ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہم بچپن ہی سے اپنے بچوں کو کھانا کھانے سے پہلے اور بعد کی دعائیں، سونے جاگنے کی دعائیں، بیت الخلاء میں جانے اور نکلنے کی دعائیں سکھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو اکثر دعائیں نعمتوں کے شکرانے پر ہی پڑھی جاتی ہیں مثلا انسان جب سوکر اٹھتا ہے تو وہ پڑھتا ہے:
الحمد للہ الذی احیانا بعد ما أماتنا والیہ النشور (بخاری)
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔
گویا انسان اللہ کی عظیم نعمت نعمتِ زندگی کے دوبارہ لوٹائے جانے پر اللہ کی تعریف و شکر کررہا ہے۔ اسی طرح اگر ہم مسنون دعاؤں میں غور و فکر کریں تو اکثر دعاؤں میں یہ بندہ اللہ کی تعریف و شکر کررہا ہوتا ہے۔
انسان نعمتوں کی ناشکری اکثر لاعلمی کی بنا پر کرتا ہے اسے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اللہ نے اسے کن نعمتوں سے نوازا ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں نعمت کی تین قسمیں ہیں:
1) نعمۃ حاصلۃ یعلم بھا العبد
(یعنی ایسی نعمتیں جو انسان کو میسر ہوتی ہیں اور اسے اس نعمت کا ادراک ہوتا ہے، جس کے سبب وہ اللہ کا شکر بھی کررہا ہوتا ہے)
2) و نعمۃ منتظرۃ یرجوھا
(ایسی نعمت جس کے حصول کا اسے انتظار ہوتا ہے اور اس کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے)
3) و نعمۃ ھو فیہا لا یشعر بھا
(ایسی نعمت جو انسان کو میسر ہوتی ہے لیکن اسے اس نعمت کا ادراک نہیں ہوتا ہے) (الفوائد 348)
اللہ کے رسولﷺ اس تیسری قسم کی نعمت کے شعور کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف مواقع پر مختلف ارشاد فرمایا کرتے مثلا ایک حدیث میں فرمایا:
نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس الصحة والفراغ
دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے (1) صحت و تندرستی (2) فارغ البالی (یعنی کام کاج سے فراغت اور فرصت کے لمحات) (بخاری:6412)
یعنی ان کی قدر نہیں کرتے اور یوں ہی ضائع کرتے ہیں۔ اور جب دونوں نعمتیں اللہ تعالیٰ دے تو جلدی خوب عبادت کرلے، علم حاصل کرے، ایسا نہ ہو کہ یہ وقت گزر جائے اور فکر اور بیماری میں گرفتار ہو پھر کچھ نہ ہو سکے گا۔
اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
إن اول ما يسال عنه يوم القيامة يعني العبد من النعيم ان يقال له: الم نصح لك جسمك ونرويك من الماء البارد
قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا (وہ یہ ہیں) اس سے کہا جائے گا: کیا میں نے تمھارے لیے تمھارے جسم کو تندرست اور ٹھیک ٹھاک نہ رکھا اور تمھیں ٹھنڈا پانی نہ پلاتا رہا؟
مذکورہ بالا دونوں حدیثوں میں اللہ کے رسولﷺ نے صحت کا ذکر کیا۔ بلاشبہ صحت ایک عظیم نعمت ہے مگر اس کی قدر و قیمت سے اکثر لوگ غافل رہتے ہیں لیکن جب وہ بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو انھیں اللہ کی عطاکردہ اس عظیم نعمت کا شعور ہوتا ہے جیسا کہ کسی نے کہا: الصحة تاج على رؤوس الأصحاء لا يراه إلا المرضى۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شریعت اسلامیہ نے انسانی صحت کا بہت خیال رکھا اور اسے ہر اس چیز کی طرف رہنمائی کردی جو صحت کے لیے مفید یا مضر ہے۔ استنجاء وطہارت کے آداب، جمعہ کے دن غسل کی تاکید، نماز پنجگانہ کے وقت وضو کی فرضیت، مسواک کی سنت، صبح کے وقت سب سے پہلے ہاتھ کا دھونا، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال مونڈنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا اور مونچھ کے بال لینا (یعنی کاٹنا)، كھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، کھانے کے بعد کلی کرنا اور ہاتھ دھونا، سونے سے پہلے بستر جھاڑنا، کھاتے وقت ٹیک لگانے کی ممانعت، کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت اور قضائے حاجت کی شدت کے وقت نماز کو مؤخر کرنے کا حکم۔ اگر ان تمام سنتوں میں غور کیا جائے تو یہ تمام حفظان صحت کے اہم اصول ہیں۔
ايمان و اسلام کے بعد صحت و عافیت انسان پر سب سے بڑی نعمت ہے۔ رفاعہ بن رافع انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ منبر پر چڑھے اور روئے، پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے پہلے سال منبر پر چڑھے، روئے، پھر کہا: اللہ سے (گناہوں سے) عفو و درگزر اور مصیبتوں اور گمراہیوں سے عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان و یقین کے بعد کسی بندے کو عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی۔ (قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة)
اور ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا: من اصبح منكم معافى في جسده، آمنا في سربه، عنده قوت يومه، فكانما حيزت له الدنيا (قال الشيخ الألباني: حسن)
تم میں سے جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کا جسم صحیح سلامت ہو، اس کی جان امن و امان میں ہو اور اس دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو گویا اس کے لیے دنیا اکٹھی ہو گئی۔
صحت کے ساتھ اکثر عافیت کا لفظ آتا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ دین میں فتنوں سے، بدن میں بیماریوں سے نیز مال اور اہل و عیال میں آزمائشوں سے سلامتی کا نام عافیت ہے۔
اللہ کے رسولﷺ حفظان صحت کے ان اصول کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کی دعا کیا کرتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی سکھایا کرتے تھے۔ مسلم ميں ابی مالک اشجعی سے روایت ہے، جو کوئی مسلمان ہوتا رسول اللہﷺ اس کو نماز سکھلاتے پھر ان کلموں کے ساتھ دعا کرنے کا حکم کرتے: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي» (رواہ مسلم)
مسنون دعاؤں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نبیﷺ اکثر اپنی دعاؤں میں اللہ سے عافیت کا سوال کرتے تھے، یہاں چند دعاؤں کا ذکر کیا جارہا ہے۔
1۔ دو سجدوں کے درمیان: نبیﷺ فرض نمازوں میں سترہ اور بارہ مرتبہ نوافل میں دونوں سجدوں کے درمیان اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان «اللهم اغفر لي وارحمني وعافني واهدني وارزقني»
”یعنی اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق دے“ کہتے تھے۔
2۔ صبح و شام كے وقت: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح اور شام کرتے تو ان دعاؤں کا پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے «اللهم إني أسألك العافية في الدنيا والآخرة اللهم إني أسألك العفو والعافية في ديني ودنياى وأهلي ومالي اللهم استر عورتي»
(عثمان کی روایت میں «عوراتي» ہے) «عوراتي وآمن روعاتي اللهم احفظني من بين يدى ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقي وأعوذ بعظمتك أن أغتال من تحتي»
”اے للہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طالب ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے عفو و درگزر کی، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال، مال میں بہتری و درستگی کی درخواست کرتا ہوں، اے اللہ! ہماری ستر پوشی فرما۔ اے اللہ! ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما، اور ہمیں خوف و خطرات سے مامون و محفوظ رکھ، اے اللہ! تو ہماری حفاظت فرما آگے سے، اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے، اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وکیع کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں۔(ابوداؤد: 5074)
3۔ سوتے وقت: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو سوتے وقت یہ کہا پڑنے کو «اللَّهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِى وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا وَإِنْ أَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ»
یعنی یا اللہ! تو نے میری جان کو پیدا کیا اور تو ہی مارے گا اور تیرے لیے ہے جینا اور مرنا اگر تو جلا دے اس کو تو اپنی حفاظت میں رکھ اور جو مارے تو بخش دے اس کو۔ یا اللہ! میں تندرستی چاہتا ہوں تجھ سے۔
ایک شخص ان سے بولا: آپ نے یہ دعا عمر رضی اللہ عنہ سے سنی؟ انھوں نے کہا: ان سے سنی جو عمر رضی اللہ عنہ سے بہتر تھے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔(مسلم: 6888)
4۔ آزمائش میں مبتلا شخص کو دیکھ کر: عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مصیبت میں گرفتار کسی شخص کو دیکھے اور کہے: « مَنْ رَأَى صَاحِبَ بَلَاءٍ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا »
”سب تعریف اللہ کے لیے ہے کہ جس نے مجھے اس بلا و مصیبت سے بچایا جس سے تجھے دوچار کیا، اور مجھے فضیلت دی، اپنی بہت سی مخلوقات پر“، تو وہ زندگی بھر ہر بلا و مصیبت سے محفوظ رہے گا خواہ وہ کیسی ہو“۔ (ترمذي:3431)
5۔ قبرستان کی زیارت کے وقت: بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یہ کہیں: «السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون نسأل الله لنا ولكم العافية»
”اے مومن اور مسلمان گھر والو! تم پر سلام ہو، ہم تم سے ان شاءاللہ ملنے والے ہیں، اور ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمھارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں“۔(ابن ماجہ قال البانی صحیح: 1547)
بعض وقت انسان مرض میں مبتلا ہوتا ہے اور زندگی سے ناامید ہوجاتا ہے اپنے لیے بددعا کر بیٹھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ کے رسولﷺ کی یہ حدیث یاد رکھنا چاہیے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی جو بیماری سے سخت لاغر اور سوکھ کر چڑیا کے بچے کی طرح ہو گئے تھے عیادت کی، آپ نے ان سے فرمایا: ”کیا تم اپنے رب سے اپنی صحت و عافیت کی دعا نہیں کرتے تھے؟“ انھوں نے کہا: میں دعا کرتا تھا کہ اے اللہ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا تھا وہ سزا مجھے تو دنیا ہی میں پہلے ہی دے دے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ”سبحان اللہ! پاک ہے اللہ کی ذات، تو اس سزا کو کاٹنے اور جھیلنے کی طاقت و استطاعت نہیں رکھتا، تم یہ کیوں نہیں کہا کرتے تھے: «اللهم آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار»
”اے اللہ! تو ہمیں دنیا میں بھی نیکی، اچھائی و بھلائی دے اور آخرت میں بھی حسنہ، نیکی بھلائی و اچھائی دے اور بچا لے تو ہمیں جہنم کے عذاب سے“۔ (البقرہ: ۲۰۱)۔
(ترمذی: قال الشيخ الألباني صحيح 3487)
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحت جیسی عظیم نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مضر صحت اشیاء سے دور رکھے۔
آپ کے تبصرے