فرق طریقہ کار کا

محمد مظہر الاعظمی تعلیم و تربیت

اگر کہا جائے کہ ہم تعلیم و تعلم کے دور عروج سے گزر رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا، کیوں کہ موجودہ نسل امم سابقہ کو اپنے مقابلہ میں حد درجہ جاہل الھڑ اور ناخواندہ سمجھتی ہے اور موازنہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ تہذیب و تمدن، کلچر اور تعلیم و تعلم میں پچھلی صدیوں اور عصر حاضر میں ہر اعتبار سے کافی فاصلہ ہے، کہیں سے کچھ بھی میل نہیں کھاتا مگر قتل و خوں ریزی، شروفساد، نفرت و عداوت کے اعتبار سے اگر موازنہ کیا جائے تو طریقہ کار کے علاوہ اور کوئی بھی فرق نہیں دکھلائی دیتا۔ قتل پہلے بھی ہوتا تھا مگر تیر و تفنگ اور نیزہ و شمشیر سے اور قتل اب بھی ہوتا ہے مگر آتشی ہتھیار، طمنچہ اور بندوق سے۔ عزت و آبرو تب بھی لٹتی تھی مگر قدیم طریقہ سے اور عزت آج بھی لٹتی ہے مگر جدید طریقے سے، کام تو ایک ہی ہے مگر انداز الگ الگ۔ اس فرق کی بڑی خوبصورت تعبیر شاعر نے اس طرح کی ہے:
وہ تھا دور جہالت بیٹیاں جب دفن ہوتی تھیں
یہ دور ارتقاء ہے ہم انھیں زندہ جلاتے ہیں
آج کے اس تعلیم یافتہ دور کی اب صورت حال یہ ہے کہ ایک شخص یا ایک گروہ بڑی گہری سازش کرتا ہے اور وائرس کے ذریعہ قتل عام کرتے ہوئے حقوق انسانی کا سب سے بڑا خیر خواہ بھی بنا رہتا ہے اور دنیا کو بزعم خویش باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اسی کے دم سے انسانیت کو بقا حاصل ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے غیر انسانی افعال و کردار سے سارا عالم واقف ہے مگر جس طرح دور جاہلیت (Dark age) میں قبیلہ کے سردار کے سامنے کسی کو حق کہنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی بلکہ اس کے ہر غلط افعال و کردار کی چہار جہت سے تائید ہوتی تھی، ان خون آشاموں اور انسانیت کے قاتلوں کی میڈیا چہار جہت نہیں بلکہ شش جہت سے تائید کرتی ہے۔ اس وقت قبیلہ کا سردار پورے قبیلہ کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اور اب تو پوری دنیا ایک قبیلہ ہوگئی ہے، جس کا سردار اسی طرح ہر ایک شخص کی زندگی اور موت کا مالک ہے۔ ایک شخص بڑا سے بڑا جرم کرنے کے بعد بھی بلا کسی تردد و تکلف کے اسی طرح دندناتا پھرتا ہے جیسے وہ ایک ایسے کرہ سے آیا ہے جہاں جرم کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، برخلاف اس کے اگر کسی نے نام نہاد محافظ انسانیت کی طرف انگشت نمائی کرنے کی زحمت بھی کی تو پھر اسے ماب لنچنگ کی ایسی سزا دی جاتی ہے کہ کم سے کم سات نسل تو اس طرح چپ ہوجائے کہ آٹھویں نسل کو بھنک تک نہ لگ سکے۔
چند منٹ ٹھہرئیے اور سوچئے کہ ایک وقت تھا جب ایک قبیلہ کا ایک سردار ہوتا تھا مگر وہ اپنے قبیلہ کا محافظ ہوتا تھا، قبیلہ کے ہر شخص کی عزت و آبرو اور نفس کا تحفظ اس کی اولیت ہوتی تھی اور آج بھی ایک سردار ہے مگر اس کی اولیت خون آشامی اور لاشوں کے انبار پر اپنا تخت سجانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ موجودہ تعلیم نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گاؤں کی شکل دے دی ہے جس کے سردار کا طرز عمل وہی ہے جو ایک قبیلہ یا علاقہ کے سردار کا ہوتا تھا، نیز قتل و غارت گری اور خوں ریزی کا موازنہ اور تجزیہ بتاتا ہے کہ تمام جرائم کا ریشیو پہلے سے بڑھا ہی ہے۔
اس لیے اس حقیقت کو کہنے میں مجھے کوئی تردد نہیں ہے کہ موجودہ طرز تعلیم اور مقصد تعلیم نے آدمی کو انسان بنانے کے علاوہ سب کچھ دیا ہے۔ ہمیں اس بات پر ضرور ناز ہے کہ ہم نے بر و بحر کو تو پہلے ہی مسخر کرلیا تھا، فضا اور خلا بھی اب ہمارے دائرہ تسخیر میں ہیں اور مختلف سیاروں و سیارچوں پر کمندیں ڈالنے کے لیے ہم پر تول رہے ہیں۔
یہ سب ترقی مسلم اور مبارک بھی، مگر ہم نے اگر آدمی کو انسان نہیں بنایا تو پھر ترقی کا کیا معنیٰ، کل ایک قاتل بے لباس، عریاں اور ننگا ہوتا تھا، کسی کہنہ و کند تلوار سے کسی کی گردن مارتا تھا اور اسے قاتل کہا جاتا تھا۔ آج کے دور میں ایک شخص نہایت قیمتی بلٹ پروف گاڑی پر سوار ہوکر آتا ہے لباس فاخرہ میں ملبوس گاڑی سے باہر آتا ہے اور گراں قدر آتشی ہتھیار سے ایک شخص کو گولیوں سے بھونتا ہے اور پھر گاڑی پر سوار ہوکر فراٹے بھرتا ہوا گم ہوجاتا ہے۔ قاتل تو یہ بھی ہے انسانیت کا خون کرنے میں دونوں کا عمل ایک ہی ہے فرق صرف طریقہ کار کا ہے، اس لیے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ قاتل تو دونوں ہی ہیں، طریقہ کار کے مختلف ہونے کی وجہ سے جرم میں فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی جرم کی سزا میں۔ کل کا قاتل جاہل، ان پڑھ اور غیر مہذب ہوتا تھا اور آج کا قاتل تعلیم یافتہ، سند یافتہ اور مہذب و متمدن ہوتا ہے تو پھر آپ ان دونوں میں کس کو بڑا مجرم قرار دیں گے؟
یقینا آپ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ قاتل کو ہی بڑا مجرم قرار دیں گے اور یہ بالکل صحیح ہے، جب سند یافتہ قاتل بڑا مجرم ہے تو پھر غیر سند یافتہ اور سند یافتہ دور یعنی زمانہ جاہلیت اور عصر حاضر کا نہایت ایمان داری سے موازنہ کیجیے اور بتائیے کہ زمانہ جاہلیت اور عصر حاضر کی جہالت میں کیا فرق ہے اور کیا ہم ان کو جاہل، غیر مہذب اور غیر متمدن کہنے کا حق رکھتے ہیں؟

آپ کے تبصرے

3000