عزیزی سلمان راغب کی موت کے سانحے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا، آنی کو تو کوئی نہیں ٹال سکتا ہے، قضا ہر ایک کے لیے مقدر ہے، کل نفس ذائقة الموت۔ جن کے جانے کی عمر ہے ان کو جانا ہی ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی جدائی خون کے آنسو رلا دیتی ہے، سلمان راغب کی موت کا سانحہ ہم سب کے لیے غیر متوقع تھا، وہ مجھے بیٹے کی طرح عزیز تھے۔
۲۹/ اکتوبر ۲۰۱۹ کو ان کا انتقال ہوا، کئی بار ان کے بارے میں لکھنے کی کوشش کی، فراوانئ غم سے آنکھیں چھلک پڑیں، الفاظ کے سوتے خشک پڑگئے، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار اس نوجوان کی بکھری یادوں کو کیوں کر سمیٹوں جو میرے سامنے پلا بڑھا، جوان ہوا، تابناک زندگی گزاری اور میری آنکھوں کے سامنے وہ دنیا سے چلا گیا، جو والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور پورے خاندان کا راج دلارا تھا۔ ہم اسے کیسے بھلا سکتے ہیں۔
مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب ایک آٹھ نو مہینے کے بچے کو پہلی بار دیکھا، گوری رنگت والے اس پھول سے بچے کو دیکھتے ہی بے اختیار جی چاہا کہ اسے گود لے لوں، میں دن بھر اسے کھلاتا رہا گودی میں لیے گھماتا رہا۔ یہ واقعہ ۱۹۶۵ کا ہے میں اس وقت مدرسہ سعیدیہ دارا نگر میں پڑھتا تھا، والدین اور بھائی صاحب کے ساتھ حافظ عباس صاحب کے گھر آیا تھا، یہ بچہ ان کا پوتا اور محترم شاد عباسی کا بیٹا سلمان راغب تھا۔
حافظ صاحب اور میرے والد کی دوستی اتنی گہری اور روابط اس قدر مستحکم تھے کہ تیسری نسل گزر رہی ہے الحمد للہ آج بھی ان کا گھر ہمارا اپنا گھر ہے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد حافظ صاحب کی سرپرستی، محبت اور شفقت کے سایے تلے میری اور میرے اہل خانہ کی زندگی گزری۔ حافظ صاحب کے انتقال کے بعد محترم شاد صاحب اور ان کے لائق مند صاحب زادے ڈاکٹر سلمان راغب نے اس رشتے کو اسی طرح استوار رکھا، ہمارے بچے شاد صاحب کے گھر کو اپنا نانھیال سمجھتے ہیں انھیں ماموں اور ان کی بہنوں کو سگی خالہ سمجھتے ہیں۔
مجھے خوشی اور فخر کا احساس ہوتا ہے کہ جن بچوں کی تعلیم و تربیت میں حصہ داری کی سعادت مجھے نصیب ہوئی ان میں ایک بڑا نام سلمان راغب کا ہے۔ پرائمری کرنے کے بعد پہلی جماعت سے عالمیت تک مجھے ان کا استاد اور مربّی ہونے کا شرف حاصل رہا، بچپن ہی سے انتہائی سنجیدہ اور بردبار تھے، میں نے انھیں عام بچوں کی طرح کھیلتے کودتے بہت کم دیکھا، دن بھر میں ایک بار میرے گھر کا حال چال لینا ان کا معمول تھا۔ زیادہ تر مغرب بعد آتے، کچھ پڑھنا یا سمجھنا ہوتا تو ایک آدھ گھنٹہ رہتے اور واپس چلے جاتے، کبھی اس معمول میں فرق آتا تو اہلیہ فورا مجھ سے کہتیں آج سلمان نہیں آئے ذرا پتہ کرلیجئے۔ مجھے یاد ہے کہ مسجد اہل حدیث مالتی باغ کے سامنے والے قبرستان کا درخت جنگلی کبوتروں کا بسیرا تھا، ایک رات زور کی آندھی آئی بہت سے کبوتر اندھیری رات میں نیچے گرگئے، ایک تھیلے میں بارہ چودہ کبوتر بھر کر گیارہ بجے رات میں سلمان میرے گھر پہنچے میری بیوی کو ان کے گھرانے کے تمام لڑکے لڑکیاں زرین بھابھی کہتے تھے، انھوں نے زرین بھابھی پکارا اور کبوتروں کا تھیلا تھما دیا ، کہنے لگے بھابھی کل اس کی بریانی کھائیں گے۔
معلوم ہوتا ہے کہ بچپن ہی سے انھوں نے اپنی منزل متعین کرلی تھی، انگلش پڑھنے کا بڑا شوق تھا، انگلش میں محنت بھی بہت کرتے تھے، عالمیت کے آخری سال میں ہم نے پوچھا سلمان آگے کیا کرنا ہے، کہنے لگے مولوی صاحب میں یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتا ہوں، بورڈ سے مولوی اور عالم کا امتحان دیا، بی اے میں ایک مضمون انگلش لٹریچر تھا، سلفیہ کی پڑھائی ناکافی تھی تین چار مہینے ان کے ساتھ محنت کرنا پڑی، الحمدللّٰہ اس کے بعد انھوں نے راہ پکڑلی، ایم اے اردو سے کیا میں نے اپنے سارے نوٹس ان کے حوالے کردیے، فرہنگ کلیات مومن کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی، پورے خاندان کے لوگوں کو بے حد خوشی ہوئی، شاد صاحب اپنے چاروں بچوں کو اعلی تعلیم دلانے میں کامیاب رہے، یہ اللہ کا فضل و کرم تھا۔
سلمان راغب صرف تعلیم ہی کے نہیں ہو رہے، فاضل اوقات میں اپنے والد کی مدد کرتے، بچوں میں اپنے باپ سے سب سے زیادہ قریب تھے ان میں سب سے بڑے بھی تھے، اپنی ذمہ داریوں کو خوب سمجھتے تھے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد اگر وہ چاہتے تو موروثی پیشہ میں مشغول ہوجاتے، لیکن جو علم حاصل کیا تھا اسے گنوانا نہیں چاہتے تھے، انھوں نےکٹھن اور پرخار راستے کا انتخاب کیا، جس میں صرف قوت لایموت ہی مل سکتا تھا۔ وہ صحافی بننا چاہتے تھے، اردو زبان و ادب کی نشر واشاعت کرنا چاہتے تھے، عزم و حوصلہ ہمت اور لگن ہو تو راستے خود بخود نکل آتے ہیں، زرنگار کے نام سے ایک کمپیوٹر سینٹر کھولا جس کا خاص مقصد طلبا اور لڑکیوں کو کمپیوٹر کی تربیت دینا تھا، اس کے ذریعے کتابوں کی کمپوزنگ اور طباعت کا کام شروع کیا، انقلاب سے وابستہ ہوئے، پہلے نامہ نگار بنے پھر وارانسی ڈویزن کے ایڈیٹر بنے، غیر ملکیوں کو اردو سکھلانے کا کام کرنے لگے۔ آج کے دور میں اردو افسانہ لکھنا، شاعری کرنا، تصنیف تالیف سے بڑا اور مشکل کام اردو کی نشر واشاعت ہے، ایک محدود حلقے میں یہ کام ڈاکٹر سلمان راغب نے بڑی ذمہ داری سے کیا، ان کی ان خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اردو حلقوں اور اردو اداروں میں ان کی ادبی سرگرمیوں کے چرچے ہونے لگے، انھوں نے اردو کونسل کے تعاون سے بنارس میں متعدد سیمیناروں کا کامیاب انعقاد کرایا، ان میں سے دو میں مجھے بھی بحیثیت مقالہ نگار شرکت کرنے کا موقع ملا، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کا سینٹر امہات المومنین گرلس کالج میں قائم کرایا، صحافتی زندگی رواں دواں تھی، آپ کے لکھے ہوئے کالمز لوگ ذوق و شوق سے پڑھتے تھے، کچھ لوگوں کی کرم فرمائی ہوئی، آپ کا ٹرانسفر علی گڑھ کردیا گیا، گھر میں والد سے دوری گوارہ نہیں ہوئی، ملازمت سے استعفی دے دیا اور ای ٹی وی جوائن کرلی۔
ہم نے پچھلے پچیس برسوں میں سلمان کو اسکوٹر سے دوڑتے ہوئے پایا، کبھی ان کو اپنے آفس میں آرام کرتے نہیں دیکھا، شوگر کے مریض ہوگئے تھے، میں انھیں محبت سے سمجھاتا بیٹے اپنی صحت کا بھی خیال رکھا کرو، جواب دیتے: “بھاگ دوڑ ہی زندگی ہے”۔ انھوں نے سب کی صحت کا دھیان رکھا، لیکن اپنی صحت سے ہمیشہ غافل اور لاپرواہ بنے رہے۔
ان مشغولیات کے ساتھ سماجی سرگرمیوں کے لیے وہ وقت نکال لیتے تھے۔ خاندان میں جو بھی بیمار ہوا اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ان کی ذمہ داری تھی۔ میں ۱۹۸۷ میں سخت بیمار ہوگیا، شدید ڈپریشن ہوگیا تھا، اس وقت میرے بچے چھوٹے تھے، مجھے روزانہ ڈاکٹر کے پاس لے جانا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے، دوسری بار مجھے خفقان قلب کی شدید شکایت ہوئی مجھے گیارہ بجے رات میں ڈاکٹر راکیش کے پاس لے گئے، دوسرے دن ڈاکٹر پی آر سنہا کے پاس لے گئے، ان کے ہوتے ہوئے پورے خاندان میں کوئی بھی بیمار ہو کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی سلمان تو موجود ہیں۔ پھوپھی زاد بھائی راشد کو سر کے پاس چھوٹی سی گانٹھ ہوگئی تھی، فورا یونیورسٹی لے گئے آپریٹ کروایا، جانچ نارمل آئی تو مطمئن ہوئے۔
میرے گھر میں کوئی بھی تقریب ہوئی اس کی ذمہ داری سلمان اٹھالیتے تھے، میرے بیٹے سعد احمد کا عقیقہ تھا، سارا انتظام سلمان نے کیا تھا، تقریب ختم ہوئی تو پتہ چلا کہ سلمان نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا دوبارہ پکا تو میں اور سلمان کھانا کھائے۔
۲۰۱۲ میں اہلیہ اور نواسی کی موت کے درد سے ابھرنے میں کئی سال لگ گئے، اس موقع پر شاد صاحب اور سلمان راغب اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر مجھے اور میرے بچوں کو سنبھالنے میں لگے رہے۔
بچوں اور بچیوں کی شادیوں کے انتظام میں شاد صاحب، سلمان راغب، ان کے گھر کی عورتوں اور لڑکے ساری ذمہ داری اپنے سر لے لیتے، بنارس میں اس گھرانے کے علاوہ ہمارا کون تھا۔
سلمان کی والدہ کا انتقال ہوا تو بہت ممکن تھا کہ شاد صاحب ٹوٹ جاتے، بکھر جاتے، ایسے موقع پر سلمان نے اپنے والد کی اس طرح دلجوئی کی کہ دل سے یہی دعا نکلتی تھی کہ اللہ سب کو ایسی لائق مند اولاد دے، انھیں کمپوز کرنا سکھایا، کتابیں کمپوزنگ کے لیے دے دیں کہ اسی میں لگے رہیں، شاد صاحب کے پاس کوئی بڑی سند نہیں تھی، مولانا آزاد یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کرایا، اس وقت شاد صاحب ستر کے پار ہوچکے تھے، شاعری کے ساتھ ان کو نثر نگاری کا چسکہ لگادیا، معلومات پہلے سے تھیں، تین جلدوں میں “مدن پورہ کی انصاری برادری” کے نام سے شاد صاحب نے مدن پورہ کی تہذیبی تاریخ لکھ ڈالی۔ یہ ایک بڑا کارنامہ تھا جو آپ نے ضعیف العمری میں انجام دیا، ان کے لیے سلمان نے سہ ماہی ادبی رسالہ “ارتقا” نکالا جس کے ایڈیٹر شاد صاحب ہیں اور وہی اس کی ترتیب و تدوین سب کچھ کرتے ہیں، الحمدللّٰہ یہ رسالہ آج بھی پابندی سے نکل رہا ہے اور ادبی حلقوں میں مقبول ہے۔
جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں ڈاکٹر سلمان راغب اپنی صحت کا کوئی خاص دھیان نہیں دیتے تھے، یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کے رابطے میں رہتے لیکن مستقل مزاجی کے ساتھ علاج کرانا اور چیز ہے، کبھی پیروں کا درد بڑھ جاتا، دوا لی ٹھیک ہوگئے، دو سال پہلے کان میں پھنسی نکل آئی کسی طرح ٹھیک ہونے میں نہیں آتی تھی، اکیلے ہی جاکر میڈیکل میں ایڈمٹ ہوگئے۔ دوسرے دن مجھے فون کیا کہ مولوی صاحب میں ہاسپٹل میں ہوں، اس وقت میں دلی میں تھا، دل دھک سے کر کے رہ گیا، بہر حال اللہ نے شفا دے دی۔
انتقال سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے پاؤں میں زخم ہوگیا، جو شوگر کی وجہ سے کسی طرح ٹھیک نہیں ہورہا تھا، پھر پتہ چلا کہ کڈنی میں سوجن آگئی ہے حالت اچھی نہیں تھی، گھر گیا، کہنے لگے بیدانتا ہاسپٹل گڑگاؤں کے ڈاکٹر کا علاج چل رہا ہے، بتایا کہ کرٹانین بڑھ کر ساڑھے آٹھ ہوچکا ہے ،میں نے مقامی ڈاکٹر کے بارے میں پوچھا کہنے لگے وہ ڈائلیسس کے لیے کہہ رہا ہے، اس کے لیے ان کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی میں اپنے بیٹے ڈاکٹر احمد سعید کو فون کیا کہ وہ سلمان کو سمجھائیں، جوں جوں دن گزرتے گئے حالت خراب ہوتی گئی، تین چار روز کے بعد گیا تو اوپر چارپائی پر لیٹے تھے، میں کمرے کے اندر داخل ہوا تو انھیں رونا آگیا، کہنے لگے مولوی صاحب مجھے یاد ہے گرمی کی چھٹیوں میں آپ اور زرین بھابھی کے ساتھ پریوا جاتا تھا خوب آم کھاتا تھا اور ڈھیر سارا بنارس لاتا تھا کیا میں پھر پریوا جا سکوں گا۔ میں نے منہ دوسری طرف کرکے اپنے آنسو پوچھے اور انھیں حوصلہ دلایا۔
جب ان کے بیٹے شاہنواز اور بھائی وغیرہ ہاسپٹل لے کر گئے ڈائیلیسس کا وقت نکل چکا تھا، للہ پورہ ڈاکٹر اقبال کے ہاسپٹل میں داخل کردیا گیا، آخری سانس تک آس تو رہتی ہے لیکن مایوسی کے بادل چھانے لگے تھے، میں ان کے گھر پر زیادہ وقت شاد صاحب کو دینے کی کوشش کرتا، ان کا اضطراب، بے چینی اور بے قراری فطری تھی، فیس بک پر ایسی مایوسی کے قطعات لکھنے لگے تھے کہ پڑھ کر دل بھر آتا، بہت درد بھرے انداز میں انھوں نے مجھ سے پوچھا: ”ابوالقاسم! ہمارا سلمان بچ جائے گا نا” دل پر جیسے کسی نے گھونسہ مار دیا ہو، انھیں تسلی دلاسہ ضرور دیا، لیکن خود میرا جی امڈا آرہا تھا، گھر آکر کمرہ بند کرکے خوب رویا۔
دوسرے دن یعنی ۲۹/ اکتوبر دوپہر کو اطلاع آئی کہ ڈاکٹر سلمان راغب نے جان جان آفریں کے سپر کردی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
نو بجے شب میں جنازے کی نماز ادا کی گئی، اپنے آبائی قبرستان جو ان کے دروازے ہی پر ہے، اس میں سپرد خاک کیے گئے۔ ان کی وفات کا صدمہ پورے بنارس کو ہوا، کئی جگہ تعزیتی مٹنگیں ہوئیں، ڈاکٹر سلمان کے بڑے صاحب زادے شہنواز بنگلور سے اپنی ملازمت چھوڑ کر چلے آئے، وہ زرنگار کی ذمہ داری سنبھال چکے ہیں۔ اللہ تعالی کامیاب و کامراں بنائے۔ آمین
ڈاکٹر سلمان راغب اس دنیا سے چلے گئے، لیکن اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ابھی زندہ ہیں۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام دے۔ آمین
ڈاکٹر سلمان راغب صاحب بہت اچھے ،سچےاور پیارے انسان تھے ،اللہ تعالی ان کی بال بال مغفرت فرمائے آمین ۔