ہر وقت نئے نئے امراض اور بیماریاں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور جب بھی نئی بیماری کا پتہ لگتا ہے اس پر تحقیق شروع ہو جاتی ہے۔ محققین دوا کی تلاش میں شب و روز مسلسل جد و جہد میں لگ جاتے ہیں۔ جب تک دوا تک رسائی نہیں ہوتی تب تک عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی کوئی دوا نہیں ہے، جیسا کہ اس سے پہلے کینسر وغیرہ کے بارے میں کہا جاتا رہا اور اب کورونا وائرس کے متعلق بھی یہی کہا جارہا ہے کہ اس کی کوئی دوا نہیں ہے۔
اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ اس مرض کی کوئی دوا نہیں ہے اور اس کا یہی عقیدہ ہے تو ایسا کہنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ اور اگر کہنے والا اس عقیدہ کے ساتھ اس بات کو کہتا ہے کہ اب تک اس کی دوا تک رسائی نہیں ہوئی ہے تو یقیناً یہ درست ہے اور ایسا کہنا بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بإذن الله عز وجل” (صحيح مسلم 2204) ہر بیماری کی دوا ہے جب کوئی دوا بیماری پر ٹھیک لگ جاتی ہے تو مریض اللہ تعالٰی کے حکم سے تندرست ہوجاتا ہے۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “إن الحبة السوداء شفاء من كل داء إلا من السام” (صحيح بخاری 5687) یعنی منگریلا میں ہر چیز کا شفا ہے موت کے علاوہ۔
یہ دونوں احادیث واضح ثبوت ہیں کہ جس طرح اللہ تعالٰی نے بیماریاں پیدا کی ہیں اسی طرح ہر بیماری کی دوا بھی پیدا کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دوا کا علم نہ ہونے اور رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اسے لاعلاج سمجھتا ہے۔
ہم سب کو تجربہ ہے کہ آج سے پہلے بہت سی بیماریوں کے متعلق کہا جاتا رہا ہے کہ یہ بیماری لاعلاج ہے یا اس بیماری کی دوا نہیں مگر بعد میں انسان تلاش وجستجو کے بعد دوا تک پہنچا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں ٹی بی کا تصور موت کے مترادف تھا مگر آج اس کی حیثیت نزلہ زکام کی طرح ہے۔ اگر کسی کو ٹی بی ہوتی ہے تو سمجھتا ہے کہ اس کا ایک متعین کورس ہے، اسے پورا کرنے کے بعد وہ صحت یاب ہوجائے گا۔ اس لیے ہم سب کو مطمئن رہنا چاہیے کہ کورونا پیدا کرنے والا ہی اس کے علاج تک انسان کی رسائی کرے گا۔ ان شاء اللہ
آپ کے تبصرے