لاک ڈاؤن کا مفید پہلو

محمد مظہر الاعظمی متفرقات

عام طور پر کسی چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں، مفید اور مضر، مثبت اور منفی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو لاک ڈاؤن کے بھی دونوں پہلو ہیں، جس کا اعتراف ہر کس وناکس کرنے پر مجبور ہے۔ اور اگر کوئی اعتراف بھی نہ کرے تو عیاں را چہ بیاں۔ معاشی اور اقتصادی نقصان تو بالکل واضح ہے، مزدور طبقہ کی معاشی بدحالی کے ساتھ تلف جان بھی لاک ڈاؤن کا ایک بہت بڑا منفی پہلو ہے۔ لیکن کیا آبی و فضائی آلودگی سے جس طرح پوری دنیا پریشان تھی اور اس سے نجات پانے کے مختلف ذرائع تلاش کررہی تھی، کوئی جفت و طاق کی ترکیب اپنا رہا تھا اور کوئی کچھ اور مگر کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ نسخہ نہیں آیا کہ ان تمام امراض کا علاج لاک ڈاؤن ہے۔
بہت سارے لوگ جو عید تو مناتے تھے مگر بینائی ہوتے ہوئے بھی چاند کو دیکھنے سے محروم رہتے تھے، ان لوگوں نے بھی چاند بڑے آرام سے دیکھا اور چاند دیکھ کر عید منایا۔ کیوں کہ لاک ڈاؤن نے فضا کی آلودگی ختم کرکے صرف سانس لینے میں ہی آسانی نہیں پیدا کی ہے بلکہ چاند دیکھنا بھی آسان کردیا۔ اس لیے اب ایسا بھی ممکن ہے کہ چاند دیکھنے اور نظر آنے کی آسانی کی وجہ سے آئندہ مطالبہ شروع ہوجائے کہ پرسال رمضان المبارک میں لاک ڈاؤن ہونا چاہیے تاکہ اس مقدس مہینہ میں لوگوں کے تزکیہ نفس کے ساتھ تزکیہ فضا ہوکر آلودگی اور پولوشن ختم ہوجائے اور انتیس کا چاند بآسانی نظر آئے۔
لاک ڈاؤن کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے گھروں میں باجماعت نماز پڑھی گئی اور اب بھی پڑھی جارہی ہے۔ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے وہ امامت کر نے لگے، جو خطبہ دینے کی ہمت نہیں کرپاتے تھے انھوں نے خطبہ دینا شروع کردیا۔ عیدالفطر کے موقع پر تو پہلی جماعت میں پڑھنے والے بچوں نے بھی نماز پڑھا کر خطبہ دیا، چھوٹے چھوٹے بچوں نے اقامت کہنا اور نماز پڑھانا سیکھ لیا۔
خواتین عام طور پر گھر میں ہی نماز پڑھتی ہیں اور تنہا تنہا پڑھتی ہیں الا ما شاءاللہ اس لیے نماز اور نماز میں مسبوق وغیرہ کے مسائل سے بالکل واقف نہیں ہوتیں۔ مگر گھر میں مشترکہ مرد و عورت کی جماعت قائم ہونے سے خواتین کو بہت سے مسائل معلوم ہوگئے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اضافی ثواب بھی ان کے لیے قیامت کے دن خو شی کا باعث ہوگا۔ ان شاءاللہ
لاک ڈاؤن نے جہاں ایک طرف سیکھنے اور سکھانے کا بہترین موقع عنایت کیا ہے جس کا لوگوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا تو دوسری طرف بہت سے فارغ التحصیل جو اپنے نام کے ساتھ مادر علمی کی طرف نسبت کہہ کر لگواتے ہیں انھوں نے دستار فضیلت کی دھجیاں اڑائیں اور پورے لاک ڈاؤن میں نہ تو خطبہ دیا اور نہ ہی کسی ایک وقت کی نماز پڑھانے کی توفیق ہوئی بلکہ کرایہ کا ٹٹو استعمال کرتے رہے۔ البتہ یہ مسلم ہے کہ ایسے بے توفیق اور صلاحیت سے محروم فارغین دوسروں پر تنقید و تبصرہ خصوصا اماموں اور خطیبوں کو نشانہ بنانے اور زبان درازی کرنے کی خوبیوں سے خوب مرصع ہوتے ہیں۔ لیکن لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ لاک ڈاؤن نے ان تمام کے دعووں کو باطل کردیا اور ہر باشعور کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ:
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے
بہت سے لوگوں میں خفیہ صلاحیتیں ہوتی ہیں مگر ان صلاحیتوں کو مناسب اور بہتر موقع نہ ملنے کی وجہ سے صلاحیتیں ظاہر نہیں ہوپاتیں مگر موقع ملتے ہی وہ صلاحیتیں سر چڑھ کر بولتی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو لاک ڈاؤن نے باصلاحیت لوگوں کو اپنی صلاحیت کے استعمال کرنے اور اس کے ذریعہ لوگوں کو مستفید ہونے کا بہترین موقع دیا اور بے صلاحیت لوگوں کے منہ پر مہر لگا دیا کہ اس موقع پر بھی اپنی صلاحیت استعمال نہ کرکے بزبان حال اعلان کر دیا کہ صلاحیت کے یہ دعوے کھوکھلے ہیں۔ ہمارے پاس صرف تنقید و تبصرہ کی ہی صلاحیت ہے، اللہ زبان کو قابو میں رکھنے کی توفیق بخشے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000