خود کو پہچان اے انسان!

راشد خورشید تعلیم و تربیت

تحریر: یاسر حارب
ترجمہ: راشد خورشید


یونیورسٹی کے دنوں میں ایک دفعہ میں شخصی ترقی کے ایک اسپیشلسٹ سے ملنے گیا، مسئلہ یہ تھا کہ شدید خواہش کے باوجود مجھے لوگوں کے سامنے بولنے یا لیکچر دینے میں کافی ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ محسوس ہوتی تھی۔ گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے انھیں اپنی پریشانی سے آگاہ کیا، تو وہ بولے:
“فرض کرو، تم لیکچر دینے کے لیے سیڑھیاں چڑھ کر اسٹیج کی طرف بڑھ رہے ہو… بتاؤ! کیسا لگ رہا ہے؟”
“میرا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے” میں نے انھیں جواب دیا۔
“اب تم اسٹیج پر پہنچ گئے ہو اور لیکچر دینا بھی شروع کردیا ہے… اب بتاؤ… ؟” انھوں نے اگلی سچویشن دی تھی۔
” ڈر لگ رہا ہے کہ خدانخواستہ مجھ سے کوئی غلطی نہ سرزد ہوجائے” میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
” چلو مانا کہ تم نے غلطی بھی کردی… اب کیا محسوس کر رہے ہو؟”
“مجھے گھبراہٹ سی ہورہی ہے”
” اور کچھ…؟”
” میرے لیے لوگوں کے سامنے کھڑا رہ پانا دشوار ہورہا ہے”
“اور اس دشواری کے بعد؟” وہ سوال پہ سوال داغتے جا رہے تھے اور میں جواب دیے جا رہا تھا کہ اچانک اس سوال پر میں رک سا گیا، مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا، کیونکہ اتنا سب کچھ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔
میں نے جواب دیا: ” کچھ نہیں…”
” بالکل… صحیح کہا تم نے” انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا “اگر ہم کسی موڑ پر ناکام ہوجاتے ہیں تو زندگی وہیں تھم نہیں جاتی ہے… تمھاری یہ لغزشیں نہ کسی اخبار کی سرخیوں کی زینت بننے والی ہیں اور نہ ہی کسی نیوز چینل پر نشر ہونے والی ہیں، بلکہ مجھے تو شک ہے کہ حاضرین میں سے شاید ہی کسی نے اس پر توجہ دی ہوگی۔ تمھیں یہ کام پسند ہے مگر تمھارا خوف تمھاری پسند پر حاوی ہے…تو بس… بات ہی ختم… اب تم جاسکتے ہو۔”
میں وہاں سے چلا آیا۔ اور سوچنے لگا کہ انسان بھی کس قدر بھولا اور سیدھا سادہ ہے کہ اس کی نگاہیں اپنی خامیوں سے گزر کر کبھی اپنی غیر معمولی خوبیوں اور بے پناہ صلاحیتوں تک پہنچ ہی نہیں پاتیں۔ اس ملاقات کے بعد سے جب بھی کوئی ایسا موقعہ آتا ہے اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے تو میرے ذہن میں فورا اس اسپیشلسٹ کی وہ بات یاد آجاتی ہے کہ
“اگر ہم کسی موڑ پر ناکام ہو جاتے ہیں تو زندگی وہیں رک نہیں جاتی”
چند سال قبل میں نے شخصیت سازی سے متعلق کسی ٹریننگ کورس میں شرکت کی تھی۔ میری ٹرینر کافی عمردراز اور تجربہ کار تھیں۔ پورا ہفتہ میں نے انہی کے ساتھ گزارا اور اس دوران مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ سب سے بڑھ کر تو یہ کہ انھوں نے مجھے میری شخصیت سے متعارف کرایا۔ انھوں نے میرے اندر پنہاں ان تمام خوبیوں اور خامیوں کو یکے بعد دیگرے نکال باہر کیا جن سے میں اب تک ناآشنا تھا۔ مگر خاص بات یہ تھی کہ وہ میری خامیوں کے بجائے زیادہ تر توجہ میری خوبیوں پر دیتی تھیں اور انھیں صیقل کرنے اور بروۓ کار لانے کی ہر ممکن کوشش کرتی تھیں۔
کورس کے آخری دن انھوں نے مجھ سے کہا: “دیکھو! بیشتر افراد اپنی خامیوں کو تلاش کرنے کے چکر میں اپنی خوبیوں کو پروان چڑھانا سراسر بھول ہی جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کے یہاں اچھائی و برائی کی کوئی تمیز نہیں رہ جاتی۔ لہذا اگر تمھیں اپنے اندر کوئی تبدیلی پیدا کرنی ہے تو اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں پر دھیان دو۔ اپنی کمزوریوں کو بھول جاؤ۔ وہ وقت کے ساتھ خود ہی بہتر ہوجائیں گی۔”
سات سال ہوگیے اور میں آج بھی اسی نصیحت پر عمل پیرا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے ساتھ ایک بہت بڑی دقت یہ ہے کہ ہم اپنی خوبیوں سے زیادہ خامیوں کو جانتے ہیں۔ ہمیں اپنی کامیابیوں کی بنسبت ناکامیاں زیادہ یاد رہتی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں پتہ ہوتا کہ کن امور کو بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں مگر وہ سارے کام ہمیں منہ زبانی یاد رہتے ہیں جنھیں کرنے میں ہمیں گھٹن اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔
میں زندگی کے تمام تر فیصلوں میں عقل کو فوقیت دینے کا قائل ہوں۔ مگر نازک حالات میں یہ فیصلہ دل پر چھوڑ دیتا ہوں، کیونکہ دل کبھی خوشامدانہ اور منافقانہ رویہ اختیار نہیں کرتا۔ بلکہ جب بھی ہماری عقل پر جھوٹ کی عینک چڑھ جاتی ہے اور وہ غلط چیزوں کی طرفداری کرنے لگتی ہے تو اس وقت دل سے ہی یہ آواز آتی ہے کہ ہم غلط کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر ہمیں دل کی آواز کو سمجھنے کا ہنر آجائے تو عین ممکن ہے کہ ہم سے غلطیاں کم ہی سرزد ہوں۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہم وہ نام نہیں جسے ساتھ اٹھاۓ پھرتے ہیں۔ وہ مکان نہیں جس میں بود و باش اختیار کرتے ہیں۔ وہ مال و دولت نہیں جس کے ہم مالک ہیں۔ نہ ہی ہم وہ مناصب و مراتب ہیں جن پر آج فائز ہیں۔ بلکہ یہ سب تو ہماری صفات ہیں، ہماری ذات اور شخصیت نہیں۔ ہماری شخصیت تو ان معمولی صفات سے کہیں زیادہ برتر اور اعلی ہے۔
کہتے ہیں “دنیا میں کوئی بھی شخص کمزور نہیں پایا جاتا، البتہ وہ لوگ ضرور پاۓ جاتے ہیں جو خود میں پنہاں خوبیوں سے نا واقف ہوتے ہیں”۔ اور سب سے بدتر تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔
یاد رکھیں! ہماری شخصیت کی ترقی و تکمیل اسی صورت ممکن ہے جب ہم خود سے اچھی طرح واقف ہوں، ورنہ چیلنجوں کے اس طوفان میں ہماری حیثیت اس تنکے سے زیادہ کچھ نہیں جسے جب چاہے کوئی آندھی اڑا کر دور کسی بیابان میں پھینک دے۔ خود سے ناواقف شخص اپنی قدر کبھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان خطرات سے خود کو باہر نکال سکتا ہے۔
یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ کامیابی صرف انہی کے قدم چوما کرتی ہے جو دن رات اس کے خواب دیکھا کرتے اور خود کو اس کا اہل سمجھنے میں یقین کامل رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہی یقین ان کی داخلی قوتوں کو جہد مسلسل پر برانگیختہ ہے۔
میں کہتا ہوں ایک دفعہ جو شخص خود کو جان لے گا وہ کبھی لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر بولنے یا لیکچر دینے میں گھبراہٹ یا گھٹن کا شکار نہیں ہوگا، اسے ہچکچاہٹ نہیں محسوس ہوگی، اور نہ ہی اسے اپنے خامیوں کی پردہ پوشی کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ کیونکہ تب تک وہ یہ بھی سمجھ چکا ہوگا کہ لوگ صرف اسی شخص کو پسند کرتے ہیں جو ہر اچھی بری حالت میں اپنی فطرت اصلی پر ہی قائم رہتا ہے۔ فرشتہ صفت ابلیسوں سے ہر کوئی نفرت کرتا اور ان سے دور بھاگتا ہے۔ آخر یہ منافق بھی کوئی انسان ہوتے ہیں بھلا..!!!

آپ کے تبصرے

3000