مجھے جب عشق کا دورہ پڑا ہے

فیضان اسعد شعروسخن

مجھے جب عشق کا دورہ پڑا ہے

پراگندہ مرا کمرہ پڑا ہے


دکھائی دے رہی ہے صرف نفرت

یہ کیسا آنکھ پہ پردہ پڑا ہے


نسب سے کچھ نہیں ہوتا ہے پیارے

سبھی کے پاس اک شجرہ پڑا ہے


گیا ہے چھوڑ کر کوئی اداسی

پس آئینہ اک چہرہ پڑا ہے


محبت ہم نے کرلی دیکھا دیکھی

گلے اب جان کا خطرہ پڑا ہے


بنا ہے جس کے ہاتھوں سے سمندر

تن تنہا وہی قطرہ پڑا ہے


مسیحا عشق کو مانا تھا اس نے

وہ دیکھو آج وہ مردہ پڑا ہے


خدایا رحم اسعؔد کی خطا پر

ترے دربار میں سجدہ پڑا ہے

آپ کے تبصرے

3000