جب انسان اپنے مقام و مرتبہ کو نہیں پہچانتا اور اپنی خاکی حیثیت کو نہیں جانتا تو رنگ و نسل میں تفوق و برتری تلاش کرتا ہے اور پھر اس طرح انا کا شکار ہو جاتا ہے کہ اس کا انا دارین میں ذلت و رسوائی کا سبب بن جاتا ہے۔ کیوں کہ جب انا نے ابلیس و فرعون کو کہیں کا نہیں چھوڑا تو پھر عام انسانوں کا شمار کس زمرہ میں ہوگا۔ فضا ابن فیضی فرماتے ہیں:
فضا تمھیں تو تمھارا انا ہی لے ڈوبا
انا ایک ایسا بت ہے جس کی پرستش بیشتر اقوام نے کی ہے، عصر حاضر میں تو زمانہ جاہلیت سے زیادہ ہی اس کے پرستار ہیں کیوں کہ اس کی پیدائش عام طور پر علم و فن، رنگ و نسل اور دولت و ثروت کے بطن سے ہوتی ہے اور یہ چیزیں اس وقت نسبتاً زیادہ ہیں۔
رنگ و نسل اور عرب و عجم کی بنیاد پر تفوق و برتری کی مزاج شکنی اور بت شکنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے کر دی ہے۔ فرمایا:
یاایھا الناس، الا ان ربکم واحد، وان اباکم واحد، الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی، ولا احمر علی اسود ولا اسود علی احمر الا بالتقویٰ (مسند احمد: 23489)
اے لوگو! تمھارا رب ایک ہے، تمھارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے، سن لو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، کسی سرخ کو کالے پر اور کالے کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کی بنیاد پر۔
اس دور کو ہم تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ دور مانتے ہیں مگر نسل پرستی کا صنم اب بھی عام لوگوں کے ذہن و دماغ اور رگ و ریشہ میں ایسے ہی ہے جیسے ڈیڑھ ہزار سال پہلے تھا، اور اسی کا یہ کرشمہ ہے کہ ایک سفید فام سیاہ فام کو سر عام موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے نیز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیم کا وہ حصہ جو مذکور ہے پھر امریکہ کے در و دیوار، گاڑیوں اور مختلف مقامات پر چسپاں و آویزاں ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دنیا نسل پرستی کے بتوں کو اپنے بغل میں دبائے وہیں کھڑی ہے جہاں ڈیڑھ ہزار سال پہلے کھڑی تھی۔ جس کا مطلب ہے کہ ہماری تعلیم نے دشمن شکنی کے لیے دور کا میزائل تو بنالیے مگر صنم شکنی کا کوئی میزائل نہیں بنایا جس کی وجہ سے نسل پرستی کا بت اب بھی ہمارے بغل میں دبا ہوا ہے۔
سیاہ فام کے سر عام قتل کے بعد احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہوا اور جس میں ہر طبقہ اور ہر رنگ و نسل خصوصاً سفید فام لوگوں نے شرکت کرکے یہ واضح کردیا کہ یہ نسل پرستی اور اس قسم کے نخوت کا دور ختم ہوچکا ہے کیوں کہ ہم تعلیم کے دور عروج سے گزر رہے ہیں اور تعلیم کے نزدیک معیار علمی صلاحیت اور اخلاق ہے نہ کہ رنگ و نسل۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو بارک اوباما (Barack Hussein Obama) امریکہ کے صدر نہ بنے ہوتے۔ مگر ایک سیاہ فام نے صدارت کا جلیل القدر عہدہ سنبھال کر واضح کردیا کہ تفوق و برتری، رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ علمی صلاحیت معیار ہے۔ اور مذہب اسلام میں تو برتری کا معیار تقویٰ ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو سیاہ فام ہونے کے باوجود جو مقام و مرتبہ حاصل تھا وہ مکہ اور مدینہ کے حسین و خوبصورت اور گورے لوگوں کو حاصل نہیں تھا۔
رنگ و نسل کے بتوں کو پاش پاش کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک در و دیوار، گاڑیوں اور نخوت و تکبر کے سروں پر چڑھ کر بول رہے ہیں کہ ان تمام امراض خبیثہ کا علاج دنیا کے کسی بھی ازم میں نہیں ہے اگر ہوتا تو امریکہ اس طرح سے آتش فشاں نہ بن جاتا کہ صدر امریکہ کو بینکر میں روپوش ہونا پڑا۔ اس لیے اگر دنیا امن چاہتی ہے، سکون چاہتی ہے اور سیاہ و سفید کی تفریق ختم کرنا چاہتی ہے تو پھر اسی ازم کی طرف لوٹنا ہوگا جس نے روز اول سے ہی اس قسم کے باطل نظریوں اور بے جا تفوق و برتری کی بیخ کنی کی ہے۔ بصورت دیگر اس پر قابو پانے کے لیے جتنے بھی آئین و قوانین وضع کرلیں ان سب کا انجام وہی ہوگا جو دنیا اب تک دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے۔ آمین
آپ کے تبصرے