آہ! شیخ عبدالباری ندوی رحمہ اللہ

عبداللہ عین الحق تاریخ و سیرت

حلقہ جماعت و جمعیت اہل حدیث ہند میں یہ خبر بہت ہی رنج و غم کے ساتھ سنی گئی کہ ہندوستان کے مشہور و معروف جید سلفی عالمِ دین شیخ عبدالباری ندوی (میہار پور، کٹیہار، بہار) کا 22 جون 2020 بروز سوموار صبح ساڑھے سات بجے انتقال ہوگیا ہے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون

اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت سے مولانا رحمہ اللہ کو بہت ساری نعمتوں، عنایتوں اور بیش بہا خوبیوں سے مالا مال کیا تھا۔ سب سے بڑی دولت ایمان کامل و عقیدہ توحید کی دولت تھی۔ ان کی ایمانی حرارت اور عقیدے کی پختگی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب مولانا سے کینسر جیسی موذی بیماری کی بابت کچھ پوچھا جاتا تو مسکرا کر جواب دیتے۔ پیشانی پر بل نہ پڑتا اور نہ ہی ایسا لگتا کہ کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ چہرے پر دنیا چھوڑ کر جانے کا کچھ ملال نہیں تھا۔ بلا شبہ آج دنیا میں اتنے مضبوط عقائد کے حاملین خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
مولانا بہت نیک طینت اور تقوی صفت انسان تھے۔ اخلاص و للہیت کا پیکر، زہد و ورع، ایمانداری و وفا شعاری، متانت و سنجیدگی، عاجزی و انکساری، دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر مندی جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ اتنے جفاکش کہ تنگ دستی کے ایام میں خود تعلیم حاصل کی اور بچوں کو بھی علم دین سے بہرہ ور کیا۔ مولانا رحمہ اللہ جماعت و جمعیت کے نگہبان، مہنج سلفیت کے پاسبان، کتاب و سنت کے ترجمان اور اردو و عربی زبان کی تہذیب و ثقافت کے قدر دان تھے۔ متعدد زبانوں میں یکساں عبور رکھتے تھے، تدریسی میدان کے ساتھ اردو عربی صحافت و خطابت کے ماہرین میں سے تھے۔ علم صرف و علم نحو کے متخصص استاذ مانے جاتے تھے جس کا اعتراف ملک و بیرون ملک میں موجود ان کے ہزاروں شاگردوں کی تحریروں سے ہوتا ہے۔
مولانا رحمہ اللہ کی پیدائش 1969 /01/ 26 آبائی گاؤں جھبو ٹولہ کٹیہار بہار میں ہوئی تھی اور مولانا نے اپنی ابتدائی تعلیم مولانا تمیز الدین چرخی صاحب سے مکتب میں حاصل کی تھی۔ بعدہ گاؤں کے دینی مدرسہ مصباح العلوم میں داخلہ لیا اور پھر اعلی تعلیم کے حصول میں مغربی بنگال کے قدیم دینی درسگاہ مدرسہ اصلاح المسلمین مالدہ کا سفر کیا جہاں موصوف نے تین سال تک جید علما کرام سے علمی تشنگی بجھائی۔ مزید تعلیم کے مقصد سے مالدہ ہی کے دوسرے مشہور تعلیم گاہ معہد التعلیم شری پور میں داخلہ لیا اور وہاں دو سال مرحلہ ثانویہ کی تعلیم حاصل کی جہاں ان کے خاص رفقاء شیخ امین الدین فیضی اور شیخ شمیم اختر ندوی تھے۔ بعد ازاں شیخ علاؤالدین ندوی کی مصاحبت میں یوپی کا سفر کیا اور مدرسہ فلاح المسلمین رائے بریلی میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد علم و ادب کی پیاس بجھانے شہرِ علم و ہنر لکھنؤ کا رخت سفر باندھا اور دارالعلوم ندوۃ العلماء سے 1990 میں سند عالمیت اور جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور سے 1991 میں سند فضیلت حاصل کی۔ اس طرح مولانا نے بہت ہی پریشانی و مالی تنگی کے ساتھ اپنے تعلیمی مراحل مکمل کیے۔
مولانا رحمہ اللہ نے ملک کے جن مشہور و معروف اساتذہ کرام سے علمی و ادبی تشنگی بجھائی ان میں سے مولانا عبدالستار رحمانی ڈنگرہ گھاٹ، مولانا محمد یونس جونپوری اور مولانا سعید الرحمن اعظمی قابل ذکر ہیں۔
مولانا نے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے درس و تدریس کا فریضہ سات سال (1991- 1997) ملک کے معروف دینی سلفی درسگاہ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں انجام دیا۔
شیخ کی جامعہ میں تقرری و تدریسی حالات کا منظر نامہ شیخ محترم شیر خان جمیل احمد عمری حفظہ اللہ نے اپنے گراں قدر تعزیت نامہ میں اس طرح لکھا ہے:
“عزیزم مولوی عبید زاہد بخاری ابن عبدالباری ندوی نے اطلاع دی کہ ان کے والد کا آج صبح کٹیہار بہار میں انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی وفات سے مجھے بہت دکھ ہوا۔ یہ میرے محسن تھے۔ انھوں نے جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں بحیثیت آفس سکریٹری میرا بہت کام کیا تھا۔ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کی اسٹرائک کے بعد ۱۹۹۱م کی ابتدا میں جب میں نے جامعہ محمدیہ جوائن کیا جامعہ اساتذہ اور طلبہ سے تقریبا خالی ہوچکا تھا۔ سو سے کم طلبہ رہ گئے تھے۔ طلبہ کے ساتھ کئی اساتذہ کا بھی اخراج ہوچکا تھا۔ مجھے اجڑے ہوئے جامعہ کو دوبارہ بنانا، سنوارنا اور بسانا تھا۔ چنانچہ طلبہ اور اساتذہ کی تعداد بڑھانے کی خاطر مختلف محاذ پر کام کررہا تھا۔ میری پلاننگ یہ تھی کہ ملک کی ممتاز جامعات سے الگ الگ تخصصات کے حامل اساتذہ کو جامعہ میں لایا جائے۔ اس وقت ابتداءًا تین جامعات کے فارغین ميرے ایجنڈے میں شامل تھے۔ مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس، مادر علمی جامعہ دارالسلام عمرآباد اور ندوة العلماء لکھنؤ۔ (آج فیصلہ کرنا ہوتا تو دو اور جامعات کو شامل کرتا؛ جامعہ سنابل دہلی؛ جامعہ ابن تیمیہ چندن بارہ بہار) المختصر یہ کہ کلیہ فاطمہ مئوناتھ بھنجن کے ایک پروگرام میں شیخ سعید الرحمن الاعظمی حفظه الله سے درخواست کی کہ ہمیں دو تین ندوی اساتذہ دیجیے۔ شیخ کی زبان سے دفعتاً یہ جملہ نکلا کہ آپ لوگوں کو اہل حدیث اساتذہ چاہیے ہوں گے! ہم نے بھی مسکرا کر ہاں میں جواب دے دیا۔ شیخ کو اللہ تعالی جزاء دے، صحت وعافیت عطا کرے شیخ نے پروگرام سے لوٹ کر ابتداءا دو اہل حدیث ندوی اساتذه کو منتخب کرکے بھیج دیا۔ مولانا شاہ جمال ندوی صاحب دوسرے ہمارے مرحوم مولانا عبدالباری ندوی رحمه الله تھے۔ پھر تھوڑی ہی مدت کے اندر اندر تیسرے ممتاز استاد شیخ علاءالدين ندوى رحمه الله جو مولانا عبد البارى ندوى کے استاد تھے کا جامعہ میں اضافہ ہوا۔ اس طرح سے مولانا عبدالباری ندوی شیخ سعیدالرحمن اعظمی کا انتخاب تھے۔ چنانچہ وہ خاندان جامعہ کے رکن بن گئے۔ میں جامعہ کی ازسرنو تنظیم کررہا تھا۔ تقسیم کار میں مولانا عبدالباری ندوی کے ذمہ کچھ گھنٹیاں تدریس کے ساتھ میری آفس میں بحیثیت مدیر مکتب ذمہ داریاں سنبھالنا طے پایا۔ آپ کے اندر اردو عربی لکھنے پڑھنے کی بھرپور صلاحیت تھی۔ نرم مزاج تھے، اطاعت و فرمانبرداری کا جذبہ تھا، وقت پر کام نمٹانا آتا تھا، نیز دیگر کئی خصوصیات کے ساتھ امانت داری و دیانتداری کی صفت آپ میں نمایاں تھی۔ چونکہ آپ میرے سکریٹری تھے۔ میری فائلوں کے محافظ تھے۔ اکثر رازوں سے واقف رہتے تھے۔ لیکن کبھی کسی راز کو آپ نے فاش نہیں کیا۔ میں منصورہ کے کیمپس ہی میں فیملی کے ساتھ رہتا تھا۔ میرا معمول ہوتا تھا کہ روز کا کام اسی روز ہی مکمل کرکے سویا جائے تاکہ صبح اٹھیں تو نئے کام کو وقت پر نمٹانے میں پہلا کام حائل نہ رہے۔ اس وجہ سے اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں آفس Hours کے بعد بھی آفس میں گھنٹوں مصروف رہتا۔ جامعہ میں تین اساتذہ ایسے تھے جو بلا طلب کیے خود سے آفس آجاتے اور کام میں ہاتھ بٹانے کا آفر کرتے؛ ایک دکتور اقبال احمد سلفی مدنی بسکوہری، دوسرے مولانا منصور الدین احمد عمری مدنی اور تیسرے یہی مرحوم مولانا عباالباری ندوی تھے۔ عموما آفس میں مشغول ہونے کی وجہ سے رات کے کھانے میں تاخیر ہوجاتی۔ اہلیہ نے اس کے حل کی ترکیب نکال لی تھی؛ محترم حبیب بھائی (مخلص خادم جامعہ تا ابتدا تا تا دم تحریر) کے ذریعہ گھر سے آفس میں رات کا کھانا بھجوانا شروع کردیا۔ ٹفن جب کھولتا تو بہت زیادہ کھانا ہوتا۔ Intercom سے گھر پر فون کرتا اور شکایت کرتا کہ اتنا سارا کھانا تو میں نہیں کھاتا؟ جواب دیتیں مولانا عبدالباری بھی تو ساتھ ہوں گے! آج اہلیہ بھی ان کی وفات سے دُکھی ہوگئیں۔ کچھ عرصہ قبل مجھے اطلاع ملی کہ ندوی صاحب بیمار ہیں۔ میں نے انھیں فون ملایا لیکن بات ہو نہیں پارہی تھی۔ واٹساپ پر مختصر پیغام لکھ چھوڑا۔ دوسرے تیسرے روز جواب آیا کہ اب فون کیجیے۔ میں نے فون ملایا م، ندوی صاحب سے بات تو ہوگئی لیکن اس خبر سے دل رنجیدہ ہوگیا کہ آپ کو کینسر کا موذی مرض لاحق ہوگیا ہے۔ پہلے Gallbladder کا آپریشن ہوا، پھر کچھ عرصہ بعد یہ مرض لاحق ہوگیا۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی ابوبکر سلمہ سے مشورہ کے بعد یہ طے کیا کہ انھیں مدراس(چنئی) بھیج کر صحیح علاج کرایا جائے۔ بھائی نے ایک مسلمان ممتاز و مشہور ڈاکٹر Mohammed Rela کا کھوج لگالیا۔ جو Liver Transplantation میں مہارت رکھنے کی وجہ سے Guinness Book میں اپنا نام درج کرا چکے ہیں۔ لیکن افسوس پہلے Lockdown پھر کمزوری کی وجہ سے مدراس کا سفر ان کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔ بھائی ابوبکر نے بھی ندوی مرحوم کے فرزند مولوی عبید زاہد سے بات کی بالآخر جواب یہی ملا کہ ابو اب سفر کے لائق نہیں رہے۔ افسوس ہم چاہ کر بھی ان کا علاج کرنے سے قاصر رہے۔ پچھلی مرتبہ جب میں نے ندوی صاحب سے بات کی تھی تو محسوس ہوا کہ آپ ایمان کی مضبوط چٹان بنے ہوئے ہیں۔ مکمل اطمینان کے ساتھ بات کرتے رہے۔ اپنے مرض کے متعلق کہا کہ اللہ کی مرضی ہے شیخ! پھر اپنے بڑے بیٹے عبید زاہد کو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ ملنے کی خوشخبری سنائی۔ اپنی اولاد کی تفصیل بتائی کہ چھ بچے ہیں، تین بیٹے اور تین بیٹیاں۔ آج تعزیت کے لیے ندوی مرحوم کے بیٹے مولوی عبید زاہد کو فون کیا تو دل بھر آیا ان کے ساتھ بیتے لمحات دل ودماغ پر چھاگئے۔ اسی بے چینی کی کیفیت میں یہ چند جملے نوک قلم پر آکر وجود پاگئے۔ آج بھی کوشش کی کہ اپنے معاون مخلص مرحوم کے کوئی کام آجایا جائے، بچہ عبید نے بتایا کہ ابو پر کوئی قرض نہیں ہے۔ پھر بچہ کو میں نے تاکید کی کہ مجھ سے رابطہ میں رہیں اور مدینہ جاکر مزید تعلیم ضرور حاصل کریں۔ جامعہ سے سے میرے سبکدوش ہونے کے کچھ عرصہ بعد وہ بھی جامعہ چھوڑ گئے۔ اپنے علاقے کے مدارس میں تدریسی فریضہ انجام دیتے رہے۔ کچھ عرصہ قبل گورنمنٹ کی تنخواہ کے مستحق ٹہرے”-
مولانا رحمہ اللہ نے جامعہ محمدیہ منصورہ سے واپسی کے بعد بالترتیب جامعہ الامام البخاری کشن گنج بہار میں ایک سال (1998)، مادر علمی معہد التعلیم شری پور مالدہ میں دس سال (1998-2008)، جامعہ عمر فاروق الاسلامیہ کوا ماری مالدہ میں بحیثیت شیخ الجامعہ آٹھ سال (2009-2017)، جامعہ فاطمہ الزہراء سالکی کشن گنج بہار میں بحیثیت پرنسپل مئی مہینہ کے چند ایام (2018) اور کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے سے قبل تقریبا ڈیرھ سال تک سرکاری ہائی اسکول اسلام پور میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ شیخ کی سرکاری ملازمت زیادہ دنوں تک نہ رہی اور تقریباً ڈیڑھ سال تک ہی سرکاری ٹیچر کی حیثیت سے رہے اور لگ بھگ سات ماہ قبل لیور کینسر جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے مولانا مزید مالی تنگی اور عائلی پریشانی کا شکار ہوگئے تھے اور حالیہ رپورٹ کے مطابق کینسر آخری اسٹیج کو پہنچ چکا تھا جس کے بعد مریض کی زندگی کا بھروسہ ختم ہوجاتا ہے۔ پھر کیا تھا رب کی طرف سے پکار تھی اور مولانا رحمہ اللہ رحمة واسعة عمر عزیر کی پچاسویں بہاریں دیکھ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
والله العين تدمع و القلب يحزن و إنا فراقك لمحزونون و إن شاء الله بك للاحقون و إن لله ما أخذ ، و له ما أعطى و كل عنده بأجل مسمي
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه و اكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وادخله جنة الفردوس الأعلى وألهم اهله وذويه الصبر والسلوان

خاکسار راقم الحروف مولانا رحمہ اللہ کو تقریباً دو سال سے جانتا ہے جب شیخ نے جامعہ فاطمہ الزہراء کشن گنج بہار میں چند دن قیام کیا تھا جہاں میں نے ان سے علمی استفادہ کیا۔ ان ایام میں مَیں اپنے اردو و عربی زبان کے مضامین اور جامعہ کے اعلانات لکھتا اور شیخ نہایت فراخ دلی سے میری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ میں ان کے خوش مزاج و خوش کن اخلاق سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ شیخ کے بڑے صاحبزادے عیبد زاہد بخاری حفظہ اللہ کی شادی میرے محترم بڑے بھائی ماسٹر ذاکر حسین صاحب کی بڑی بیٹی سعدیہ ذکی فردوسی سے 16 جون 2019 کو ہوئی ہے۔

جنازہ کی نماز 22 جون 2020 کو شام ساڑھے چار بجے مولانا کے صاحبزادے شیخ عبید زاہد بخاری نے پڑھائی اور میہار پور کی وسیع و عریض قبرستان میں مدفون کیے گئے۔ میں نے اپنے بھائیوں اور محترم چچا جان شیخ محمد رضوان سلفی حفظہ اللہ (امیر ضلعی جمعیت اہل حدیث پورنیہ و نائب امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث بہار) کے ساتھ جنازے میں شرکت کی۔ لاک ڈاؤن کے ان پریشان کن ایام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے جنازے میں شرکت کی۔ علاقائی و غیر علاقائی علماء کرام اور مولانا کے شاگردان کی تعداد معتد بہ تھی جن میں شیخ محترم انعام الحق مدنی حفظہ اللہ (ناظم صوبائی جمعیت اہل حدیث بہار) و شیخ رحمت اللہ سلفی (ناظم ضلعی جمعیت اہل حدیث کٹیہار) بھی تھے۔
مولانا کے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ تنزیلہ خاتون کے علاوہ تین صاحبزادے شیخ عبید زاہد بخاری، عزیزم سلمان زاہد، عزیزم فوزان زاہد اور صاحبزادیاں عتیقہ تبسم، انجم آرا اور نکہت پروین ہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبید زاہد بن عبد الباری ندوی

شکریہ شیخ جزاکم اللہ خیرا۔ اللہ تعالیٰ والد محترم کی بشری لغزشوں کو درگزر فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے آمین