اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر بھیونڈی میں ٹورینٹ پاور کمپنی کی آمد سے بظاہر حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں۔
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے چمک دمک کی آڑ میں یہاں کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی مناسب حد تک کوشش کی ہے۔
شہر کو بہتر روشنی فراہم کرکے اقتصادی تاریکی پھیلانے کی اس کی مجرمانہ کوشش ہنوز جاری ہے۔ کچھ پاور لوم کارخانے بند ہوئے کچھ بک گئے۔ کچھ خالی کرا دیے گئے اور کچھ میں دوسرے کاروبار شروع کر دیے گئے ہیں۔
وجوہ کئی ایک ہوسکتی ہیں مگر بلامبالغہ ایک بڑی وجہ پاور میٹر کا قدرے تیز رفتار ہونا اور لائٹ بل میں مختلف طرح کی دھاندلی ہے، بجلی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ اس پر مستزاد ہے۔
کئی معتبر کپڑا صنعتکاروں سے پتہ چلا ہے کہ بھاری بجلی قیمتوں کی ادائیگی سے بہت کم نفع حاصل ہوپاتا ہے بلکہ بعض دفعہ نقصان کا شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
یہ سچائی ہے کہ جو حضرات کرائے پر پاورلوم کارخانے چلا رہے تھے ان میں سے بیشتر لوگ اپنی جمع پونجی گنوا کر سکرات کے عالم میں پہنچ چکے ہیں اور جن کے خود اپنے کارخانے ہیں وہ بھی تشویشناک صورت حال سے دوچار ہیں۔
شہر بھیونڈی کی معیشت کئی سالوں سے نارنگی حکومت کی نحوست کے سائے میں ویسے بھی سسکیاں لے رہی تھی، ٹورینٹ پاور کمپنی نے اس کی بچی کھچی کسر بھی پوری کر دی ہے۔
چونکہ شہر کا معاشی انحصار زیادہ تر کپڑوں کی بنائی پر ہے اس لیے اس گرانی کے عالم میں پورا شہر متأثر ہوچکا ہے اور دوسرے کاروبار بھی غایت درجہ کمزوری کا شکوہ کر رہے ہیں۔
ٹورینٹ پاور کمپنی کو چونکہ سیاسی رسوخ حاصل ہے اس لیے اس کی مجرمانہ کاوشوں کو مسلسل فروغ مل رہا ہے اور قیادتیں خاموش تماشائی بنی ہیں۔ اس کے بعد بھی اس نے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر با اثر آواز کو پیسوں سے دبانے کا شریفانہ ہنر آزما لیا ہے۔ متعدد بار اس کمپنی کے خلاف عوام کا سنجیدہ ماحول بنا مگر انتظامیہ کی بے توجہی اور چالباز، ایمان فروش قائدین کی بے غیرتی سے کوئی صحتمند نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
اس کمپنی کی دھاندلی اور لوٹ کھسوٹ سے تقریبا ہر ذمہ دار شہری واقف ہے اور اس کا تفصیلی ذکر بھی بر وقت میرے مقاصد میں سے نہیں ہے۔
مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ یہ کمپنی رحم ومروت کے جذبات سے عاری ہے۔ ظلم و جور اس کی فطرت ہے۔ مکر و فریب اس کا خاصہ۔ حرص وہوس اس کی علامت ہے۔ کبرو نخوت اس کا لازمہ۔ اس کے احکام آمرانہ ہیں، فیصلے اٹل، خیالات سنگھی ہیں، جذبات نارنگی۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پورا ملک کسمپرسی کے حالات سے دوچار ہے۔ غربت و افلاس کی شرح میں حیرت انگیز قسم کا اضافہ ہوا ہے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔ پیٹ پالنا ایک بڑے طبقہ کے لیے مشکل تر ہوگیا ہے۔
ایسے نازک دور میں جہاں لوگ رحم و مروت کے خواہاں نظر آرہے ہوں، رعایت کی امید سینوں میں سجائے بیٹھے ہوں ٹورینٹ پاور کمپنی کی طرف سے اوسط بل سابقہ مہینوں سے کئی گنا زیادہ آرہا ہو!!!!!!
یہ رحم ہے؟ انسانیت ہے؟ رعایت ہے؟ انصاف ہے؟ نہیں نہیں، اسے بے مروتی، حیوانیت، ظلم و جور نیز ڈکیتی کہتے ہیں۔
بلاشبہ میں نے مئی مہینہ کے پاور بل کے تعلق سے کئی لوگوں سے گفتگو کیا تو سبھوں نے اس تلخ حقیقت کا اظہار کیا۔ مثال کے طور پر مارچ مہینہ کا بل ریڈنگ کے بعد اگر 600 روپئے آیا تھا اور اپریل میں اوسط بل موبائل میسیج کے ذریعہ 800، تو اس کے بعد صرف مئی مہینہ کا اوسط بل 3700 روپئے آیا ہے۔ تینوں مہینوں کا ٹوٹل بل 5100 روپئے ہے۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جو ایک صاحب کے حقیقی واقعہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کئی حقیقی مثالیں موجود ہیں جو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز اور تعجب خیز ہیں۔
بعض احباب نے یہ بھی کہا کہ ابھی تو ایک اندازے کے مطابق بل دے دیا ہے بعد میں ریڈنگ کرکے اس میں حذف و اضافہ کر دے گا۔
مگر انسان نما بھیڑیوں سے اس کی توقع کیوں کر کی جاسکتی ہے؟ چوری اور فریب ودجل جن کا مذہب بن جائے ان سے خیر کی امید کیوں کر ہوسکتی ہے؟
اوسط بل کا یہ مطلب تھوڑی نہ ہوتا ہے کہ سابقہ ماہ سے چھ، سات، آٹھ، دس گنا زیادہ بڑھا کر دے دیا جائے؟
بڑی نا انصافی ہوگی اگر اپنے مومن بھائیوں کی بجلی چوری کا ذکر نہ کیا جائے۔ کتنے کارخانے، دوکان، مکان ایسے ہیں جن میں چوری کی بجلی استعمال کی جاتی ہے۔
عبادت گاہوں کا تقدس بھی چوری کی بجلی سے پامال کیا جا رہا ہے۔ میٹر لگے ہیں مگر سائڈ سے بڑی خوبصورتی سے بجلی کے دوسرے کنکشن بھی موجود ہیں۔ چند گھنٹے میٹر کا استعمال کرکے دوسرے کنکشن سے ڈائریکٹ بجلی کا استعمال ہوتا ہے۔
بدن پر خوبصورت لباس ہے مگر اس کی صفائی ستھرائی اور آراستگی چوری کی بجلی سے۔ پیٹ میں دانہ اور پانی ہے مگر اس کا حصول چوری کی بجلی سے۔ تلاوت قرآن کا بصد شوق اہتمام مگر روشنی چوری کی بجلی سے۔ غسل و طہارت کا التزام مگر پانی چوری کی بجلی سے۔
کامیابی کہاں سے ملے؟ دعائیں پر اثر کیوں کر ہوں؟ عبادتوں کے صلے میں فواحش و منکرات سے دوری کیسے ممکن ہو؟ نصرت وتائید کی بشارتیں کیسے سماعتوں سے ٹکرائیں؟ مظلوموں کی آہ و بکا کا اثر ظالموں پر کیوں کر نتیجہ خیز ثابت ہو؟
اتنا تو ہے کہ ماضی کے مقابلے موجودہ حالت میں عوام کی چوری کسی نہ کسی حد تک کم ہوگئی ہے مگر بزعم خویش کمپنی کی بد عنوانیاں جاری وساری ہیں۔
نہ جانے کب تک عوام کو ماضی کی سیاہ کاریوں کی سزا بھگتنی پڑے گی؟ چند منحوسوں کے گناہوں کی آگ میں پورے شہر کو جلنا پڑے گا؟ چوروں کی چوری کا وبال ایمانداروں کو چکھنا پڑے گا؟
ابھی وقت ہے، طاقت وقوت ہے، احساس و شعور ہے، خیرو شر کی تمیز ہے۔ ندامت کا اظہار کرتے ہوئے آگے بڑھیں، توبۂ نصوح سے کام لیں، متفقہ طور سے پر عزم ہو جائیں کہ:
قومی مفادات کو مد نظر رکھیں گے۔ نہ چوری کریں گے نہ چوری کی اجازت دیں گے۔ نہ بکیں گے نہ بکنے دیں گے۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہیں گے۔
آپ کے تبصرے