کیا واقعی خبر واحد کی عدم حجیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت ہے؟

عبدالمالک رحمانی حدیث و علوم حدیث

عصر حاضر میں حجیت حدیث پر بعض اعتراضات میں سے ایک مشہور اعتراض یہ ہوتا ہے کہ خبر واحد قابل حجت نہیں ہے اور چند دلائل کا سہارا لے کر استدلال کرتے ہیں کہ خبر واحد عقائد کے باب میں حجت نہیں ہے اور بعض تو سرے سے خبر واحد کا ہی انکار کرتے ہیں نہ عقائد میں نہ احکام میں، نہ اصول میں نہ فروع میں۔

ان کی دلیل:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الیدین کی خبر رد کر دی تھی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنِ اثْنَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ : أَقَصُرَتِ الصَّلَاةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ نَسِيتَ ؟ فَقَالَ : ” أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ ؟ “. فَقَالَ النَّاسُ : نَعَمْ. فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ كَبَّرَ، ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ كَبَّرَ، فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ ثُمَّ رَفَعَ (صحیح البخاري كتاب أخبار الآحاد: 7250)
اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذی الیدین نے جب کہا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ باقی صحابہ سے آپ نے پوچھا کہ کیا ذی الیدین سچ کہہ رہے ہیں؟ تو جواب دیا گیا جی ہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ وجہ استدلال یوں کہ اگر خبر واحد حجت ہے تو پھر یہ سوال کیوں؟ گویا یہ سوال بتلاتا ہے کہ آپ نے خبر واحد کو حجت نہیں مانا۔
اس کا جواب علماء سلف کے اقوال کی روشنی میں:
1- رہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذی الیدین کی خبر پر توقف تو نبی علیہ السلام کو غالب گمان تھا کہ آپ نے نماز مکمل پڑھائی ہے اور ذو الیدین کی خبر اس خیال کے خلاف تھی اس لیے اس خبر کے لیے کسی مرجح (یعنی کسی ایسی چیز جو ان کی بات کو راجح قرار دے سکے) کی ضرورت تھی لہذا جب حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے شہادت دی تو اس سبب کا ازالہ ہوا اور نبی علیہ السلام نے ذی الیدین کی خبر قبول کی۔
2- ذی الیدین کی خبر باقی تمام حاضرین کے سکوت کے مقابلے میں تھی اس لیے نبی علیہ السلام نے سمجھا کہ ذی الیدین کو ہی وہم ہوا ہے لیکن جب باقیوں میں سے جس نے بھی ان کی موافقت کی تو آپ علیہ السلام نے اسے قبول کرلیا۔
آمدی کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذی الیدین کی خبر پر توقف اس لیے تھا کیوں کہ ان پر غلطی ہونے کا امکان موجود تھا۔ ایک تو یہ اشکال صرف انہی کا تھا اور باقی سبھی خاموش تھے اور مزید یہ کہ ذی الیدین پر وہم کے آثار موجود تھے لیکن جب باقی حاضرین نے ان سے اتفاق کیا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باقیوں کو دیکھتے ہوئے عمل کیا نیز ایک اور بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر عمل کیا تو وہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر چند افراد کی بات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جو کہ اتنی تعداد حد تواتر کو نہیں پہنچتی ہے۔ (یعنی پھر بھی آحاد کے قبیل سے ہے)۔ ( الإحكام 2/98 )
ایک اور بات:
اگر واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم خبر واحد کو رد کرتے تو سرے سے ان کی بات قابل التفات ہی نہیں سمجھتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذی الیدین کی بات پر توجہ ہی اشارہ ہے کہ آپ نے ان کی بات کو قابل التفات سمجھا جو کہ خبر واحد کے قابل اعتنا ہونے کی خود ایک دلیل ہے۔
مزید ایک بات:
خبر واحد کو حجت نہ ماننے والوں کے مختلف اقسام ہیں ان میں سے بعض وہ ہیں جو صرف عقدی مسائل میں حجت نہیں مانتے ہیں ایسے لوگ اس حدیث سے استدلال کے ہی مجاز نہیں ہیں کیوں کہ یہ مسئلہ ہی عقیدہ کا نہیں ہے اور جو لوگ سرے سے خبر واحد کو حجت نہیں مانتے ہیں نہ عقائد میں نہ ہی فروع میں تو جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ ان کا بھی رد اسی میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے ان کی بات قابل التفات سمجھی اور باقی سے تائید لی اس لیے اسے خبر واحد کی عدم حجیت پر دلیل بنانا درست ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ شہادت یا قضا کے مسائل اور روایت کے مسائل مختلف ہیں جس پر تفصیلی گفتگو حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے تدریب میں کی جس پر – ان شاء اللہ – پھر کسی اور موقع پر بات رکھی جائے گی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں:
یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیث یہاں کتاب أخبار الآحاد میں لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مقصود اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک شخص کی خبر (خبر واحد) کی وجہ سے سہو کی خبروں میں قناعت نہیں کی کیوں کہ یہ خبر خود آپ علیہ السلام کے فعل سے معارض تھی اس لیے ذی الیدین کے معاملے میں سوال کیا اور جب ایک بڑی تعداد نے ان کی درستگی کی خبر دی تو آپ نے ان تمام کی بات کی طرف رجوع کیا اور اس سے پہلے کے واقعہ میں ہے کہ سب حاضرین نے بتایا کہ نماز زیادہ پڑھی گئی جو کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہے تو یہ طریقہ ان لوگوں کا ہے جن کا خیال یہ ہے کہ جب امام سے نماز میں سہو ہوجائے تو ایسے افراد کی طرف رجوع کرے جن کی خبریں امام کے نزدیک علم کا فائدہ دیتی ہیں اور یہی امام بخاری کی رائے ہے اور اسی لیے ان دونوں حدیثوں کو یہاں کتاب اخبار الآحاد میں ذکر کیا ہے۔ برخلاف ان لوگوں کے جو معاملے کو اس بات پر محمول کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث کو یہاں غلطی سے ذکر کردیا ہے ورنہ اگر انھیں یاد ہوتا تو اس مقام پر ان احادیث کو لانے کا قصد ہی نہیں کرتے۔ اللہ اعلم
کرمانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
خبر واحد ہونے سے خارج نہیں ہے گرچہ وہ قرائن کی وجہ سے علم کا فائدہ دے۔
بعض نے کہا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الیدین کی خبر پر جو تحقیق اور تصدیق طلب کی وہ اس لیے کیوں کہ انھوں نے تنہا یہ سوال کیا تھا اور باقی سب خاموش تھے جب کہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے ہو سکتا ہے ان کا حافظہ ان کے مقابلے میں کمزور پڑگیا ہو اور ان پر غلطی کا امکان بڑھ گیا ہو لیکن اس سے مطلقاً خبر واحد کی تردید لازم نہیں آتی ہے۔ (صحیح البخاری: 5052- فتح الباری شرح صحيح البخاری لابن حجر رحمہ اللہ)
خلاصہ کلام یہ کہ خبر واحد مطلق ایک کی خبر ہونے کی وجہ سے رد نہیں کی جاسکتی ہے کیوں کہ سلف صالحین کے آثار اور طریقہ عمل سے بالکل واضح ہے کہ اگر روایت صحیح سند سے ثابت ہوجائے تو وہ قابل حجت اور قابل عمل ہے اسے خبر واحد کہہ کر اس سے اپنا دامن نہیں چھڑایا جاسکتا ہے اور اس مسئلے میں جب بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آجاتی ہے کہ آپ نے بھی خبر واحد کو حجت نہیں مانتے تھے تو یہ بالکل بے بنیاد ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو آپ صحابہ کرام کو تبلیغ دین اور تعلیم کے لیے تنہا کبھی نہ بھیجتے۔

مراجع

1- السنة ومكانتها في التشريع الإسلامي مصطفى السباعي ص: 193
2- مكانة السنة في التشريع الإسلامي للدكتور محمد لقمان السلفي ص: 160
3- خبر الواحد و حجيته للدكتور أحمد محمود عبد الوهاب الشنقيطي ص: 257
4- فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني المجلد 14 ص: 203

آپ کے تبصرے

3000