تلخ و شیریں اور صبر و شکیب

محمد مظہر الاعظمی تعلیم و تربیت

کوئی شخص کسی معاشرے میں رہے اور اسے تلخ و شیریں اور نرم و گرم نہ برداشت کرنا پڑے یہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ عوام کی زبان اور ہاتھ سے جب انبیاء اور رسول نہیں بچ سکے تو عام لوگوں کا بچنا بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے…؟
تلخ و شیریں سننا اور برداشت کرتے ہوئے صبر و شکیب اور تحمل سے کام لینا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ اسی لیے ایسے لوگوں کو ان بزدلوں سے افضل اور بہتر قرار دیا گیا ہے جو سماج سے کٹ کر الگ ایک راستہ بنالیتے ہیں اور سماج سے الگ ہوکر گوشہ نشیں ہوکر رہبانیت اختیار کرلیتے ہیں حالانکہ اس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص سماج میں رہے گا اور حق بات کہے گا تو پھر اسے تیر و طنز کا نشانہ بننا ہی پڑے گا۔
پوری تاریخ شاہد ہے اور قرآن کریم نے تو اس قسم کے دل خراش واقعات کی طرف خاص توجہ دلائی ہے اور حق بات کی وصیت کے بعد آپس میں صبر و تحمل کی کس طرح تلقین کی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
وَتَواصَو بِالحَقِّ وَتَواصَو بِالصَّبر (العصر 3)
“جنھوں نے آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی”
حق بات کی وصیت کے ساتھ صبر کی نصیحت کو ذکر کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ حق کے بعد صبر کرنا ہی پڑے گا اس لیے اس میدان میں وہی قدم رکھنے کی ہمت کرے جو اتنا وسیع الظرف اور وسیع القلب ہو کہ مصائب و آلام طنز و تعریض اور تلخ و شیریں کو بخوشی برداشت کرسکے۔
انہی اسباب کی وجہ سے اس شخص کو جو سماج میں رہ کر صبر و شکیب سے کام لیتا ہے اسے افضل اور بہتر کہا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا:
المسلم اذا كان يخالط الناس ويصبر علي اذاهم خیر من المسلم الذين لا يخالط الناس و لا يصبر علي اذاهم (الترمذي 2507)
“جو مسلمان لوگوں کے درمیان رہتا ہے اور ان کی تکالیف پر صبر کرتا ہے اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں کے درمیان رہتا ہے اور نہ ہی لوگوں کی تکلیف برداشت کرتا ہے”
سماج میں علماء کا وہ طبقہ جو حالات کے تقاضے کے مطابق کچھ بولتا اور کہتا ہے تو اسے کس طرح تحمل سے کام لینا پڑتا ہے اس کا صحیح اندازہ اسی کو ہوگا جس کو ایسے حالات سے گزرنا پڑا ہو مگر علماء کا وہ طبقہ جس کا وجود اور عدم وجود برابر ہے، نہ کچھ کہتا ہے اور نہ ہی کچھ بولتا ہے چونکہ وہ “و تواصو بالحق” نہیں کرتا اس لیے “و تواصو بالصبر” سے بھی نا آشنا ہوتا ہے اس لیے ہر ایک شخص کو جو “و توصوا بالحق” کا فریضہ انجام دیتا ہے بالکل ضروری ہے کہ تلخ و شیریں سنے، طنز و تعریض کا نشانہ بنے اور صبر و شکیب اور تحمل سے کام لے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Farooque Abdullah

ماشاءاللہ ماشاءاللہ
بہت خوب شیخ محترم
اللہ آپکو سلامتی کے ساتھ رکھے آمین