بے شعور بچوں کا احتجاج

محمد مظہر الاعظمی تعلیم و تربیت

ہم دیکھتے ہیں کہ بچے جب بالکل کم سن، سال دو سال یا چند سال کے بے شعور رہتے ہیں تو وہ صرف اپنا وقتی نفع اور فائدہ سمجھتے ہیں عواقب و نتائج سے بالکل بے خبر رہتے ہیں۔ اس لیے ماں باپ یا دیگر اہل خانہ دادا دادی وغیرہ سے کوئی مطالبہ کرتے ہیں اور وہ مطالبہ پورا نہیں ہوتا تو اپنا سر ٹکراتے ہیں، سامان توڑتے ہیں اور توڑ پھوڑ مچاتے ہیں۔ بسا اوقات وہ اپنا یا گھر کا کافی نقصان کر دیتے ہیں مگر اہل خانہ ان کی کم سنی اور بے شعوری کو جانتے اور سمجھتے ہیں اس لیے بچے کو نہ کوئی سزا دیتے ہیں اور نہ مارتے پیٹتے ہیں۔ کبھی کبھی ماں اس بے شعوری شرارت سے تنگ آکر طمانچہ رسید کر دیتی ہے تو دوسرے تمام اہل خانہ رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچہ بالکل بے شعور ہے یہ نہیں سمجھ رہا کہ اسے کیوں مارا جارہا ہے تو پھر اس کو مارنے کا کیا فائدہ، اس کو مارنا نہیں چاہیے۔
بے شعور بچے اپنے مطالبہ کے لیے احتجاجاً اپنا یا کسی اہل خانہ کا نقصان کرتے ہیں تو یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ان کا مقصد صرف اپنا مفاد ہے ان کو دوسروں کے نفع و ضرر سے نہ کوئی مطلب ہے اور نہ ہی اس کو وہ سمجھتے ہیں۔ مگر عصر حاضر میں جب ہمارے قائدین، رہنما اور لیڈران احتجاج کرتے ہیں اور اپنی مانگ اور مطالبہ پورا کرنے کے لیے نعرے لگاتے ہیں تو وہ بھی بے شعور بچوں کی طرح عوام اور حکومت کی املاک کو نذر آتش کرتے ہیں اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ اور عوامی بے شعوری کا یہ عالم ہے کہ جس احتجاج اور مظاہرے میں جتنا زیادہ ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے وہ احتجاج اور مظاہرہ اتنا ہی موثر اور کامیاب مانا جاتا ہے۔
اب ذرا سنجیدگی سے غور کیجیے کہ بچے تو احتجاج کرتے ہوئے جو اپنا یا گھر کا نقصان کرتے ہیں تو وہ کم سنی کم عمری اور بے شعوری کی وجہ سے کرتے ہیں وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ نقصان بھی کر رہے ہیں اپنا یا گھر کا، مگر کیا ہمارے قائدین بھی احتجاج اور مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نہیں جانتے کہ وہ کس کا نقصان کر رہے ہیں۔ اگر وہ اتنے بے شعور ہیں کہ اپنا یا ملک کا نفع و ضرر نہیں سمجھتے تو ایسے لوگوں کو قیادت و سیادت کا کوئی حق حاصل نہیں اور اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سے اپنا اور اپنے ملک کا ہی نقصان ہوگا اور اس کے باوجود نقصان کر ہی رہے ہیں تو کیا اس طرح بالقصد و بحالت ہوش و حواس نقصان کرنے والے مجرم نہیں ہیں؟
جمہوری ملک میں احتجاج و مظاہرے کے اسی طرز عمل، نذر آتش اور توڑ پھوڑ کو جائز طریقہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ عمل نہ تو عقلا جائز ہے اور نہ ہی قانوناً جائز ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے قائدین اپنے اس طرز عمل سے عقل و خرد اور آئین و قوانین دونوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خود کو عقل مند بھی سمجھتے ہیں اور آئین کا محافظ بھی۔
بچے احتجاجاً جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب بے شعوری میں کرتے ہیں مگر وہی بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں اور لوگ انھیں باشعور سمجھتے ہیں تو ان کے اس قسم کے افعال و کردار پر نکیر کرتے ہیں، کیوں کہ انھیں معلوم ہے کہ اب یہ جو کچھ بھی کر رہا ہے سمجھ کر اور شرارت کی وجہ سے کر رہا ہے۔
اس وقت جو لوگ احتجاج و مظاہرہ کرتے ہیں اگر وہ کم سن بچے کی طرح بے عقل و شعور ہیں تو پھر قابل نظر انداز ہیں، لیکن ایسا نہیں، کیوں کہ وہ تو اپنی قوم و ذات کے عقلمند قائدین اور لیڈران ہوتے ہیں، وہ اپنا اور اپنی قوم کا نفع و ضرر جانتے ہیں پھر بھی وہ توڑ پھوڑ اور نذر آتش ہی میں کامیابی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہمارے عقلمند اور باشعور قائدین کو سمجھنا چاہیے کہ احتجاج و مظاہرہ ایک جمہوری ملک میں عوام کا ایک جمہوری حق ہے جسے بوقت ضرورت ضرور استعمال کرنا چاہیے اس کے بغیر حق ملنے والا نہیں ہے۔ مگر توڑ پھوڑ کرنا یہ تو بے شعور بچوں کا عمل ہے جو اپنے اور غیر کے نفع و ضرر سے واقف نہیں ہیں اور آپ بے شعور بچے نہیں بلکہ ملک کے عقلمند قائدین ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000