اللہ غریق رحمت کرے راجوری کے مشہور شاعرو ادیب جناب عبد الرشید فدا صاحب کو۔ ۲۴ جون ۲۰۲۰ء کو وہ بوقت فجر اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔ ان کی اچانک رحلت سے راجوری کی علمی وادبی فضا سوگوار ہوگئی۔ ان کے ساتھی، دوست، احباب، شاگرد، اہل خانہ سبھی اشک بار ہوگئے۔ وہ راجوری کی ادبی محفلوں کے لیے لازم وملزوم تھے۔ وہ ایک اچھے شاعر، اچھے قلمکارو ادیب، مخلص استاد، صوم وصلوۃ کے بے انتہا پابند، نہایت حساس ذہن ودماغ اور فکر واحساس کے مالک تھے۔ ان کی اچانک رحلت سے راجوری کی علمی وادبی فضا میں خلا سا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ جب سے میری ان سے شناسائی ہوئی تب سے لے کر ان کی وفات تک ان سے میرا تعلق اور میری عقیدت کا رشتہ قائم رہا۔ اس لیے ان کی رحلت سے مجھے ذاتی طور سے صدمہ پہنچا۔
یہ غالبا ۲۰۰۷ء کی بات ہے۔ مجھے کسی صاحب نے ایک مختصر سا کتابچہ عنایت کیا۔ نام تھا ’’مسافر حرمین‘‘۔مؤلف کا نام لکھا تھا: فدا راجوروی۔ موضوع دلچسپ تھا۔ چونکہ میں خود حرمین شریفین میں ایک مدت قیام کرچکا ہوں۔ کئی بار حج کی سعادت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس لیے بڑے تجسس کے ساتھ کتابچے کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ جستہ جستہ دیکھنے کے بعد میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا۔ طرز تحریر، انداز کلام، اسلوب بیان پرکشش لگا لہٰذا میں نے اسے ختم کرکے ہی دم لیا۔ میں اس وقت صاحبِ کتاب کو نہیں جانتا تھا۔ البتہ ان کی اس تحریر نے مجھے متاثر کیا۔ دامن دل کو جکڑ لیا۔ میں نے انھیں ایک خط لکھا اور اپنے ہی ایک طالب علم کے بدست ان کوروانہ کردیا۔ دوسرے دن ان کا فون آیا۔ علیک سلیک کے بعد کتاب پر بھی بات ہوئی۔ حرمین کے سفر پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی ایک اور کتاب ’’روداد‘‘ مجھے بھیجی جو پڑوسی ملک کے سفر نامے سے عبارت ہے۔ کتاب پڑھ کر میں نے انھیں فون کیا اور دیر تک بات ہوئی۔ کچھ ہی دنوں بعد کلچرل اکیڈمی سب آفس راجوری کے کلچرل آفیسر مشہور شاعر جناب رشید قمر نے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں جمعہ کے دن شاہدرہ شریف میں ایک نعتیہ مشاعرے کا انعقاد کیا۔ مشاعرے کی صدارت ریاست کی مشہور شخصیت اور مقبول شاعر جناب ایاز رسول نازکی صاحب نے کی اور میں نے مشاعرے کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ وہیں پہلی مرتبہ فدا راجوروی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اس دن کے بعد سے لے کر ان کی وفات تک میرا ان سے تعلق قائم رہا۔ ’’مسافر حرمین‘‘ کے ذریعے جو عقیدت اور تعلق قائم ہوا تھا وہ ہمیشہ اور بدستور جاری رہا۔ بلکہ ان کی وفات سے کچھ روز قبل بھی میری ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔ بالکل نارمل گفتگو۔ کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ بیمار ہیں۔ کسی مرض میں مبتلا ہیں۔ نہ ہی ایسا تھا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اور وہ ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا وہ راجوری کی ادبی نشستوں اور مشاعروں کے لیے لازم وملزوم تھے۔ ہر ادبی نشست میں ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ میں بھی کوئی پروگرام کرتا تھا تو ان کو ضرور بلاتا تھا اور وہ ضرور تشریف لاتے تھے اور اپنی موجودگی سے محفل کو رونق بخشتے تھے۔ ہرچند کہ میں ان سے عمر میں بہت چھوٹا تھا اس کے باوجود ان کے ساتھ ایک بے تکلفانہ تعلق قائم ہوگیا تھا۔ فون پہ بھی اکثر وبیشتر طویل گفتگو ہوتی تھی۔ یہ گفتگو خالص علمی وادبی گفتگو سے عبارت ہوتی تھی۔
۲۰۱۴ء میں ہمالین ایجوکیشن مشن کے سرپرست اعلی جناب فاروق مضطر صاحب (مد اللہ فی حیاتہ) کے زیر اہتمام منعقدہ ایک پروگرام میں حاضری ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میری کتاب پتھر پتھر آئینہ شائع ہوکر آئی ہے۔ آپ اس کی دس بیس کاپیاں اپنی لائبریری کے لیے ریکمنڈ کردیجیے۔ میں نے عرض کیا۔ میں دو سے زیادہ نسخے ریکمنڈ نہیں کرسکتا۔ اس سے بہتر ہے کہ آپ لائبریری کو ایک دو کتاب ہدیہ کردیں۔ یہ آپ کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگا۔ فدا صاحب نے اپنی زنبیل سے اس کتاب کا ایک نسخہ نکالا اور مجھے دیا کہ میں لائبریری کو پہنچادوں۔ گھر پہنچنے پر میں نے کتاب کا مطالعہ کیا تو اس نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا۔ فدا صاحب کی نثر سے میں ان کی شاعری سے زیادہ متاثر ہوا۔ وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن میں پوری ذمے داری سے یہ بات کہتا ہوں کہ وہ اس سے زیادہ اچھے نثر نگار تھے۔ کتاب مجھے پسند آئی۔ تو قلم بھی خود بخود اٹھ گیا اور میں نے کتاب پر ایک مضمون سپرد قلم کردیا۔ یہ مضمون روزنامہ اڑان کے علاوہ ایک دو رسالوں میں بھی شائع ہوا تھا۔ مضمون لکھنے کے بعد میں فدا صاحب سے اکثر کہتا تھا کہ آپ نثر پر زیادہ دھیان دیں۔ آپ کی نثر بہت خوب ہے۔ اور سچائی بھی یہی ہے کہ وہ نظم سے اچھی نثر لکھنے پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کی نثر میں ان کے احساس اور ان کے اظہار، ان کی فکر اور ان کے اسلوب دونوں میں نیاپن نظر آتا تھا۔ ایک مفکر ادیب کا قلم قاری کو درس دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کی نثر میں بہت خطرناک طنز بھی پوشیدہ ہوتا ہے جو در اصل نبض حالات پر ان کی گرفت کی وجہ سے ان کی فکر کا حصہ بن گیا تھا۔ وہ ہمیشہ شکوہ کناں رہتے تھے۔ کبھی خود سے۔ کبھی حالات سے۔ معاشرے اور سماج پر انھوں نے جو تیر ونشتر چبھوئے ہیں وہ ان کی شاعری سے زیادہ ان کی نثر میں نظر آتا ہے۔ میں ان کی نثر پڑھتا ہوں تو وہ مجھے ایک بڑے ادیب کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو آپ بھی دیکھ لیں۔ وہ اپنے آبائی وطن پوشانہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’سر بفلک پہاڑ، بے شمار خود رو سجے سجائے جنگل، بے فکر بہنے والی ندیاں، سرپر دور تک پھیلا نیلا آسمان، سائیں سائیں کرتی ہوائیں، برف پوش چوٹیاں، چار دانگ پھیلا لازوال حسن، خزاں زدہ سرخ پتے، بیلیں، خاموش کھڑے محو شکرانہ درخت، خدا کی خدائی میں عجیب فرحت وانبساط موجزن ہے۔ پوشانہ چاروں جانب عجیب بے نیازی میں ڈوبا ہوا۔ (۱۳ اکتوبر ۱۹۸۳ء پوشانہ)
’’پوشانہ میں چاروں طرف برف ہے۔ مطلع صاف، کھلی دھوپ، نظر ٹھہر نہیں پارہی ہے۔ خنک لیکن عجیب فرحت افزا منظر ہے۔ درختوں نے احرام باندھ لیے ہیں۔ یا یوں کہیے سب نے کفن اوڑھ لیے ہیں۔ برفانی ہوائیں تیز ہیں۔ چڑیاں، پرندے جھنڈ کے جھنڈ وسیع کھلی فضاؤں میں کسی نامعلوم منزل کی طرف اڑانیں بھرتے رواں دواں۔ پیرپنجال سے گزر کر اس سمت آنے والا قافلہ عجیب سماں پیدا کررہا ہے۔ برف سے اٹی پیر گلی کی شاہراہ پر اوپر سے نیچے تک تھرکتی سرکتی ریوڑوں، انسانوں اور مویشیوں کی لمبی قطاروں سے ڈوبتی ابھرتی آگے بڑھتی زندگی کی مسلسل حرکت، ہر لمحہ ایک کہانی ہے اور ہر کہانی کرداروں سے پلی اور ترتیب پائے۔ (۱۵ / اکتوبر ۱۹۸۳ء)
’’دور تاحد نظر سبزہ ہی سبزہ پھیلا ہوا ہے۔ نظر خیرہ ہورہی ہے۔ کائنات جیسے اپنے سارے حسن وتنوع کے ساتھ دعوت نظارہ دے رہی ہے۔ میرے سامنے دور تک کھیت ہیں۔ سر سبز لہلہاتے کھیت، ہریالی، پہاڑ، میدان، جہاں تک نظر جاتی ہے قدرت کی بوقلمونی، درخت سبزوردی میں ملبوس، جیسے پہرہ دے رہے ہوں۔ اونچے درمیانہ، چھوٹے مگر وردی سب کی ایک۔ خدا کا کارخانہ بھی کیسا عجیب اور دعوت نظارہ دینے والا ہے۔ (۱/ اگست ۲۰۰۳ء)
’’ہر ذرہ ایک جہاں معنی لیے ہوئے ہے۔ ہر پتہ ایک گلستان رنگ وبو کا امین ہے۔ ہر لمحہ صدہا واقعات کا گواہ۔ ہر دل میں صدہا تار بجتے ہیں جن سے نغمے اور ساز ترتیب پاسکتے ہیں لیکن مغنی ومطرب کی تلاش وجستجو میں سرگرداں ساز اور نغمے وقت کے عمیق سمندر میں غرق ہوجاتے ہیں۔ ذرے بکھر جاتے ہیں لمحے گزر جاتے ہیں اور برگ وبار نذر خزاں ہوکر چمنستان رنگ وبو کی غمازی کے لیے باقی رہ جاتے ہیں۔ (۳ جولائی ۱۹۸۵ء)
کچھ اور مختلف موضوعات ومضامین پر فدا صاحب اس طرح کی نثر لکھتے تھے:
’’زندگی بے پناہ صلاحیتوں کی حامل سہی لیکن بے اندازہ محنت، صبر، ایثار، عزم راسخ کی متقاضی بھی ہے۔ (۱۷ مارچ ۱۹۸۵ء) جسے ماضی سے عبرت اور کائنات میں رونما ہونے والے حالات سے سبق حاصل نہیں وہ نہ نظر رکھتا ہے نہ بصیرت وبصارت (۳۰ مارچ ۱۹۸۵ء) خدا کی بخششوں اور عنایات کا کیا بیان، جہاں چاہے باران رحمت دے دے، سوکھی کھیتیاں ہری ہوائیں عزت ومرتبت، منزلت ومنصب آنکھیں بچھائیں، دنیا دست بستہ حاضر ہو۔ (۲۸ جولائی ۱۹۸۵ء) وقت کا تیز دھارا سب خش وخاشاک کو بہا لے جاتا ہے لیکن اعلی اخلاق اور صداقت ودینات وہ ابدی قدریں ہیں جو وقت گزرنے کے باوجود زندہ وتابندہ رہتی ہیں۔ (۲۹ دسمبر ۱۹۸۵ء) استاد معیار کھوگئے ہیں۔ بچوں میں محنت کی عادت نہیں رہی۔ اس لیے تعلیم ایک نامراد دوڑ دھوپ کا نام رہ گیا ہے۔ (۱۷ / اپریل ۱۹۸۷ء) رات کا برپا ہونا ایک فطری عمل ہے اور نوید صبح کی علامت بھی۔ اس میں کائنات کا تواتر بھی پوشیدہ ہے اور حیات انسانی کا تسلسل بھی۔ (۱۳ جنوری ۱۹۹۲ء)
ایک جگہ خود پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میں ایک بحر ناپیدا کنار کی نذر ہورہا ہوں۔ طوفان حوادث کی تندی میری کم کوشی، کوتاہی فکر ونظر اور ہمسفران راہ کی ناپختہ کاری اور چشم نیم وا۔ یہ سب اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں جس کا مجھے سامنا ہے۔(۹ جولائی ۱۹۹۸ء)‘‘ ( بحوالۂ ورق ورق آئینہ)
ان کی تحریروں میں گہرا طنز چھپا ہوتا تھا۔ میرے پاس ان کی کتاب ’’روداد‘‘ فی الحال تو میرے پاس نہیں ہے لیکن انھوں نے ایک خوب صورت جملہ اس میں لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم وہاں گئے تو کتوں کے ذریعے ہماری چیکنگ شروع کی گئی۔ میں نے چیکنگ کرانے والے سے کہا بھائی! یہاں بھی کتے ہیں؟ کیا معنی خیز جملہ ہے۔ کیا گہرا طنز چھپا ہے اس کی پہنائیوں میں۔ سبحان اللہ!
فدا راجوروی کی نثر میں یہی خوبی تھی۔ آپ ان کی کتاب رہنے دیں صرف اوپر ذکر کیے گئے اقتباسات کے ظاہر وباطن میں جھانکیں آپ کو فدا راجوروی کی بصیرت صاف نظر آئے گی۔ فدا راجوروی کا ادیب آپ سے ہمکلام ہوجائے گا۔ آپ یقین کرنے لگیں گے کہ فدا راجوروی بے انتہا خوب صورت نثر لکھنے پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کی نثر میں سلاست بھی ہے۔ روانی بھی۔ نغمگی بھی اور چاشنی بھی۔ بھاری بھرکم الفاظ کبھی ان کے جملوں کے دروبست، ان کی ترکیبوں کی ساختیات، ان کے معانی وخیالات کے درمیان حائل نہیں ہوتے تھے۔ وہ جو کہنا چاہتے تھے بڑی بلاغت کے ساتھ کہتے تھے۔ ان کی شاعری میں کہیں فکر وفن یا قواعد وضوابط یا اوزان وبحور میں کہیں کچھ ایک آنچ کی کسر کا احساس ملتا ہے لیکن ان کی نثر پوری شان وشوکت کے ساتھ اپنا سر اٹھاکر بڑے ادیبوں میں خود کوشامل کرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ میں نے پتھر پتھر آئینہ پر لکھے گئے مضمون میں ان کی اس خوبی پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔
فدا راجوروی اردو، فارسی، انگریزی، کشمیری، پہاڑی اور گوجری زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اردو میں وہ نظم اور نثر دونوں لکھتے تھے۔ فارسی میں بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے۔ یہی دونوں زبانیں ان کا ذریعۂ اظہار تھیں۔ البتہ کشمیری اور پہاڑی مادری زبان ہونے کے ناطے کبھی کبھی ان میں بھی ذائقہ بدل لیا کرتے تھے۔ وہ جب کسی مشاعرے میں آتے تھے تو میں ان کی ایک فارسی نظم ضرور سننے کی فرمائش کرتا تھا۔ وہ اپنے اس مخصوص روایتی لب ولہجے میں پڑھتے تھے جو بڑا پر کشش تھا اور ان کا اپنا لہجہ تھا۔ ان کا ایک ہی شعری مجموعہ ’’شہر دل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ فدا صاحب نے مجھے بھیجا تھا اور تبصرے کا حکم دیا تھا لیکن میں اس پر لکھ نہیں سکا تھا۔ ایک روز انھوں نے مجھے اپنی کچھ غزلیں بھیجیں۔ میں نے ان پر نظر ثانی بھی کی۔ اور ایک شاگرد سے ٹائپ کرواکر انھیں واپس کردیا۔ یہ بات ان کے پہلے شعری مجموعے ’’شہر دل‘‘ کی اشاعت کے بعد کی ہے۔
شہر دل کل دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔ نظمیں آزاد بھی ہیں اور پابند بھی۔ وہی نثر والی بات ہے۔ ان کی نظمیں مجھے ان کی غزلوں سے زیادہ اچھی لگیں۔ ان کی نظموں میں عصری حسیت کے ساتھ فطرت کی بازگشت بدرجۂ اتم سنائی دیتی ہے۔
کچھ مختصر نظمیں یوں ہیں:
صدیوں جسے/ دریچوں میں/ دل کے/ جواں رکھا/ وہ زندگی/ کا رنگ بھی / پھیکا ہوا ہے/ آج
بہت دنوں سے یہ سوچتا ہوں/ کہ خط لکھوں اور اس میں لکھ کر/ میں دل کے / سارے غبار رکھ دوں/ بنام انسانیت وہ خط ہو/اگرچہ منسوب ہو کسی سے/ نئی صدی کا کوئی بھی زیرک/ اگر ہوا تو جوان ہوکر/ پڑھے گا مجھ کو مرے خطوں میں
دکھ گنگا ہے/ دکھ جمنا ہے/ آؤ بانٹیں قطرہ قطرہ/ اور کھلے کھیتوں میں جاکر/ ہر قطرہ برسائیں/اُگ آئے گی/ ہر قطرے سے پیار بھری ہریالی
کچھ آزاد نظمیں بہت خوب ہیں۔ جن میں ’’ماں، موسم، بے آزار صنم، نوحہ گر، وقت‘‘ بہت متاثر کرتی ہیں۔ جنھیں طوالت کے خوف سے یہاں نقل نہیں کررہا ہوں۔
ان نظموں کے علاوہ فدا صاحب کی پابند نظموں میں چھتہ پانی، میرے عہد کے لوگو، میرا وطن، سرزمین پوشانہ، خالد کے نام، وغیرہ بہت خوب ہیں۔
چھتہ پانی پوشانہ کے پاس ایک سرسبز علاقہ ہے جہاں پہاڑوں کا آبشار مسلسل نغمہ ریز رہتا ہے۔ اس نظم کے ایک دو بند ملاحظہ کریں:
برف کی چادر بچھی ہے دور تا حد نظر
کوہساروں پر سنہری دھوپ پھیلی سر بہ سر
سبزہ زاروں میں ہر اک جانب رواں ہے زندگی
گنگناہٹ میں ندی کی نغمہ خواں ہے زندگی
سینۂ کہسار میں پانی رواں یا جوئے شیر
بہتے پانی میں ترنم کوہساروں کا اسیر
وادیوں کے سرپہ قائم پاسبانوں کی طرح
خمیہ زن ہے ابر گویا سائبانوں کی طرح
پانیوں کی نغمگی ہے نغمۂ آب حیت
اس طرح یہ نظم پورے تسلسل اور آبشاروں کے ترنم کی طرح نغمگی بکھیرتی ہوئی ختم ہوتی ہے۔ پوشانہ فدا صاحب کا آبائی وطن تھا۔ یہ علاقہ بھی مغل روڈ پر اونچے اونچے پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ اس نظم کے دو بند ملاحظہ کریں:
میری رگ رگ میں ہے خون تیرا رواں
تجھ سے شاداب ہے میری نوک زباں
میں ہوں ہمدم ترا تو میری انجمن
سرزمین وطن سرزمین وطن
تیرے کہسار برفاب نالے ترے
ہیں ازل سے رواں اور پالے ترے
تو نے ندیوں کو نالوں کو دی ہے پھبن
سرزمین وطن سرزمین وطن
فدا صاحب نے اپنے والد صاحب کا بھی مرثیہ اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ یہ مرثیہ انھوں نے آج سے پچاس برس قبل ۱۹۷۰ء کے آس پاس لکھا تھا۔ ظاہر ہے ایک باپ کو اپنے بیٹے کے وفات پر کن جاں گسل حالات سے گزرنا پڑتا ہے یہ مرثیہ ہر بیٹے کے دل اور جذبات کی بڑی واضح ترجمانی کرتا ہے۔
فدا صاحب اچھے نثر نگار، اچھے شاعر، غزل گو، نظم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص استاد بھی تھے۔ انھوں نے مجھے ایک نشست میں بتایا کہ انھوں نے پورے ضلع کے تقریبا ہر اسکول میں پڑھایا ہے۔ حالات خواہ کیسے ناگفتہ بہ رہے ہوں۔ موسم چاہے جتنا سرد، خنک اور ناقابل برداشت رہا ہو وہ کبھی اسکول سے ناغہ نہیں ہوتے تھے۔ پابندی سے اسکول جاتے۔ ایسی جگہوں پر بھی پہاڑوں کو دریائے شور کی مانند عبور کرکے جاتے اور اپنا فرض منصبی ادا کرتے۔ اسی لیے ان کے انتقال کے بعد ان کے جنازے میں ایک خلق کثیر نے شرکت کی۔
یہ بات سچ ہے کہ فدا صاحب راجوری کی علمی وادبی فضا کے لیے، شعری نشستوں اور مشاعروں کے لیے، سماجی پروگراموں کے لیے لازم وملزوم تھے۔ ہر جگہ وہ حاضر بھی ہوتے تھے اور اپنے افکاروخیالات سے سب کو فیضیاب بھی کرتے تھے۔ اسی لیے ان کے جانے سے ان علمی وادبی حلقوں میں سوگ کا سا سماں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’شہر دل‘‘ کا مسافر ’’پتھر پتھر کو آئینہ‘‘ بناکر سفر آخرت پر ورانہ ہوگیا۔ دوست احباب، ساتھی اور اعزاء واقرباء سبھی ان کی اچانک رحلت سے اشکبار اور سوگوار ہیں۔
دعا ہے اللہ تعالی ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔ ان کی نیکیوں کو قبول کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔ آمین
آپ کے تبصرے