مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم: حیات و خدمات پر ایک نظر

عالم فیضی تاریخ و سیرت

متلاشیان علم و فن آپ کے شجر سایہ دار میں بیٹھ کر علم و ادب کی تشنگی بجھاتے اور ان سے ادبی گر سیکھتے، منتظمین اجلاس پروگرام کی شہرت اور کامیابی کے لیے کرسی صدارت کے جلیل القدر عہدے سے نوازتے۔ جب کہیں ردو قدح یا مناظرے کی بات ہوتی تو انھیں اپنا نقیب بناکر پیش کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے تئیں ان کی بے لوث قربانیوں اور جانفشانیوں کی وجہ سے ان کے علاقے کو کافی شہرت ملی۔ ان کا عہد علاقے کے لیے کسی عہد آفریں سے کم نہ تھا، یہ قوم کے متاع بے بہا اور قیمتی اثاثہ تھے، قوم بھی ان پر الفت و محبت کی گل باریاں نچھاور کرتی اور اپنے گم گشتہ راستے کو پانے کی پیہم سعی کرتی۔

ہمارا یہ علاقہ اس قدر زرخیز ہے کہ یہاں کی خاک سے بہت سارے نامور علماء اور ادباء پیدا ہوئے جو ملک اور بیرون ممالک میں علم کی شمع فروزاں کرکے گھر، خاندان اور علاقے کا نام روشن کر رہے ہیں۔ حسن ظن یہی ہے کہ ان سب کا منبع ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؒ ہی تھے، کیونکہ یہ انہی کی تگ و تاز اور دوادوش کی مرہون منت ہے، الا ماشاء اللہ۔

 ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒکے شاگرد رشید نامور عالم دین، متعدد کتابوں کے مولف، مصنف، مترجم مولانا ابوالمکرم عبدالجلیل ؒ(بانی مدرسہ زید بن ثابت ”شاخ جامعہ سلفیہ بنارس“ سانتھا بازار، سنت کبیر نگر یوپی) اسی علاقے کے چشم و چراغ تھے۔ ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ المدنی کے قائم کردہ ادارہ، جامعہ اسلامیہ دریاباد کے شیخ الحدیث اور مفتی حضرت مولانا محمد جعفر مدنی الہندی اسی گاؤں اور علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف مولانا محمد اسماعیل سلفی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فرزندان مولانا انجمؒ میں علاقے کے مشہور وکیل، ماہر قانون، معتبر استاد شاعر جناب حمادانجم ایڈوکیٹ ؒ، نامور صحافی اور پندرہ سے زائد کتابوں کے مصنف سہیل انجم (وائس آف امریکہ) دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف، مولف، مترجم اور شاعر ڈاکٹر شمس کمال انجم مدنی وغیرہ کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔
یہ سب کے سب کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ ہی کی بے لوث قربانیوں اور محنتوں کا ثمرہ ہے۔ ان کے علاوہ بھی یہاں پر علمائے کرام کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جو وطن عزیز کے مختلف گوشوں میں موجود مساجد و مدارس سے رشتہ استوار کرکے دعوت و تبلیغ کے میدان میں خدمات انجام دے رہیں۔

مشہور عالم دین اور جامعہ اسلامیہ دریاباد کے مؤسس و بانی ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ المدنی بھی قرب و جوار کے ہیں، نیز انہی کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم کرنجوت بازار میں علم کی تشنگی بجھانے کا شرف حاصل کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حضرت مولانا انجم صاحب کے مشورے پر ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ المدنی کے نانا حاجی عبد الغفور ؒ نے ان کا داخلہ مرکزی ادارہ جامعہ سلفیہ بنارس میں کرایا، شاعر جماعت جامعہ اسلامیہ دریاباد کے ناظم اور ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ المدنی کے برادر خالہ زاد عتیق الرحمن عتیق اثر ندوی نے بھی اپنے خالہ زاد بھائی کے ساتھ یہیں پر تعلیم حاصل کی اور مولانا انجم ؒ کے مشورے پر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کا رخ کیا اور وہاں سے سند فراغت حاصل کی۔

اس تعلق سے عتیق الرحمن عتیق اثر ندوی رقمطراز ہیں:
چند روزہ مکتبی زندگی اپنے قریہ دریاباد اور پڑوس میں گزار کر اپنے فرشتہ رو و خجستہ خو، مربئ خاص نانا عبد الغفور میاں کی دیرینہ خواہش اور تمناؤں کی صورت پذیری کے خاکہ میں رنگ بھر رہے تھے، وہ جدھر گھماتے گھوم جایا کرتے تھے، چنانچہ انھوں نے اپنے تربیتی مرکز جہاں محویت دین کے سبب اہلحدیثیت کی ذہن سازی کی تھی وہیں ہم دونوں نواسوں (میں اور فضیلۃ الدکتور الشیخ عبدالباری فتح اللہ المدنی) کو ایک چھوٹے سے مدرسہ مدینۃ العلوم لہرسن بازار میں ڈال دیا۔ (حالات اور حاشیے:ص ۶۷۱)
ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ سے شاگردی کے بارے میں عتیق الرحمن عتیق اثر ندوی صاحب لکھتے ہیں:
شخصیات میں بزرگوں کے علاوہ ایک دیدہ زیب سرو قامت، بڑے طمطراق کی گندمی مائل وجیہ شخصیت تھی جنھیں انجم جمال اثری کے نام سے جانا جاتا تھا، انہی کی جانب آج رجوع ہوکر قلم آمادہ تحریر ہے۔ جو میرے ابتدائی درجہ کے چند روزہ استاد رہے ہیں، قدیم نظام درس کی ابتدائی فارسی کتابوں سے ہٹ کر اس وقت کی نئی ترتیب سے نکلا ہوا سیٹ دروسِ فارسی، اصول فارسی، معین فارسی، انھوں نے ایک بار واپسئ مدینۃ العلوم کے موقع پر رائج کیا تھا، چنانچہ چند دنوں تک دروس کی تمرین میں نے ان سے پڑھی۔ (حالات اور حاشیے: ص ۷۷۱)
ایک اور مقام پر اپنی اور ڈاکٹر عبد الباری فتح اللہ المدنی کی تعلیم کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
ایک بار کا ذکر ہے کہ مدرسہ پر (یعنی مدرسہ مدینۃ العلوم لوہرسن) میرے نانا اور مولانا موصوف دونوں موجود تھے اور ہم دونوں بھی، مولانا نے فرمایا: حاجی صاحب! عتیق الرحمن کو دارالعلوم ندوۃ العلماء بھیج دیجیے اور عبد الباری کو مرکزی دارالعلوم بنارس، کیوں کہ دونوں کی صفات میں بالترتیب صدیق و فاروق کی نشانیاں دریافت ہوتی ہیں، چنانچہ یہ مشورہ راست واقعتا عمل پذیر ہوا۔ (حالات اور حاشیے:ص ۸۷۱)

مولانا ڈاکٹرحامد الانصاری انجم ؒ، تقسیم ہند سے قبل متحدہ بستی اور حالیہ سنت کبیر نگر یوپی کے ایک مشہور و معروف صنعتی گاؤں لوہرسن کرنجوت بازار میں پیدا ہوئے۔ آپ کی سن پیدائش ١٩٣٥ عیسوی ہے لیکن باعتبار سرٹیفکٹ ١٩٣٢ عیسوی مرقوم ہے، گھرانہ پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ تھا اسی لیے ابتدائی تعلیم کا آغاز گھر سے ہی شروع ہوا۔ اور پھر اس کے بعد دیگر مقامات پر تعلیم حاصل کرتے ہوئے ملک نیپال کے باڈر پر واقع مشہورو معروف ادارہ مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر پہنچے اور وہاں خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤوف جھنڈا نگریؒ کی شاگردی اختیار کی، اس کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم بھٹ پرا میں تشریف لائے اور بابائے قوم حضرت مولانا خلیل الرحمن صدیقی ؒ کی شاگردی اختیار کی۔ ان کے پاس مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھ کر علم کی تشنگی بجھائی، پھر اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جامع مسجد دہلی کے دامن میں واقع مولانا عبدالسلام بستوی ؒ کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ ریاض العلوم گیے اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔ ما بعد دہلی ہی میں رہ کر طب کی تعلیم حاصل کی اور یہیں سے دوران تعلیم شعرو شاعری کا شوق اور جذبہ پیدا ہوا۔ پھر اسی جانب مائل ہوکر طبع آزمائی کی، کتب بینی سے گہرا تعلق اپنا کر اور اساتذہ فن سے رجوع ہوکر اس کارگاہ میں اپنے آپ کو صیقل کرنے میں منہمک ہوگیے۔ یہاں انھیں ایسے لائق و فائق اساتذہ ملے جن سے ان کے شعرو شاعری میں پختگی آتی چلی گئی۔ لیکن بھٹ پرا میں پہنچ کر مزید بالیدگی اور نکھار پیدا ہوا۔ اسی طرح دھیرے دھیرے اس میدان میں قدم جمانے لگے جس سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیا کہ ان کی شعرو شاعری سے متأثر ہوکر علماء و عوام انھیں حسانِ جماعت کے نام سے یاد کرنے لگے۔ انھوں نے بنیادی طور پر تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن حب نبوی سے سرشار ہوکر اپنے لیے نعت گوئی کا میدان منتخب کیا اور اسی میں اپنا جوہر دکھلاکر ایک منفرد مقام پیدا کیا۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
بے ساختہ آنکھوں سے رواں ہوتے ہیں آنسو
یاد آتی ہے جب ہجرت ِسلطان مدینہ

ثنائے نبی میں ہر اک سے نرالا
ہے انجم کا طرز، کلام  اللہ اللہ
   
ڈاکٹر حامد الانصار ی انجمؒ حب نبوی میں سرشار ہوکر کہتے ہیں:
شاید کہ نکیرین کہیں قبر میں مجھ سے
اک نعت یہاں بھی ہو ثنا خوان محمد

ارے نعت اقدس کے بدلے
تجھے بھی ملے گی ردائے محمد
   
مرا مشغلہ ان کی مدحت ہے انجم
جو امت کے شاہ جہاں بن کے آئے

میں مداح سرکار طیبہ ہوں انجم
مجھے کہتے ہیں سب غلام مدینہ

شاعر ہوں مگر شاعر دربار رسالت
لکھتا ہوں فقط نعت بعنوان محمد

کہتے ہیں سبھی اہل نظر مجھ کو اے انجم
 مداح رسول اور ثنا خوان محمد

ویسے تو ڈاکٹر حامد الانصار ی انجمؒ نے طب کی تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کرلی تھے اور اپنے ہی گاؤں لوہرسن میں ایک مطب چلانا شروع کر دیا تھا۔ لیکن اس میدان میں افتاد طبع میل نہیں کھائی، بہت ہی جلد ان کا دل اچاٹ ہوگیا، جس کی بہت ساری وجوہات تھیں مختصراً اتنا ہی جان لیں کہ آپ جہاں ایک منجھے ہوئے شاعر تھے وہیں بے باک اور شعلہ بیان خطیب بھی تھے، دعوت و تبلیغ کے شیدائی اور اس میدان کے شہسوار تھے۔ علاقی سطح پر اور قرب و جوار کے اضلاع میں بحیثیت شاعر، ناظم اجلاس اور مقرر کے طور پر انھیں مدعو کیا جاتا تھا، اس لیے دواخانہ پر حاضری کم اور اجلاس میں حاضری زیادہ ہوا کرتی تھی۔ جب ڈاکٹر ہی نہیں ہوگا تو مریض کہاں سے آئیں گے۔ لہذا مجبوراً اسے بند ہی کرنا پڑا، اس کی اور بھی وجوہات ہیں جس کا تذکرہ ڈاکٹر شمس کمال انجم نے اپنی کتاب “نقوش جاوداں” میں اور کلیات انجم کے مقدمے میں شرح و بسط کے ساتھ کیا ہے۔

الغرض ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؒ نے ہمیشہ کے لیے دواخانہ بند کرکے یکسوئی کے ساتھ جسمانی علاج کرنے کے بجائے روحانی علاج شروع کردیا۔ ڈاکٹر تو تھے ہی علاج و معالجے کے معاملات میں آزمودہ کار تھے، شرک و بدعات میں ڈوبی ہوئی قوم کا اپنی گرجدار آواز اور پرکشش و دلنشیں بیانات کے ذریعہ مریض دیکھ کر آپریشن اور وقت ضرورت اس کا پوسٹ مارٹم بھی کردیا کرتے تھے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ آپ کی شخصیت اور سحر انگیز بیانات سے بہتوں کے دل کی دنیا بدلنے لگی اور وہ ہر قسم کے خرافات اور غلط عقائد کو چھوڑ کر کتاب و سنت کا دامن تھام لینے ہی میں عافیت محسوس کرنے لگے۔ دواخانہ سے مکمل فرصت ملنے کے بعد تدریسی میدان میں باقاعدہ قدم رکھ دیا۔ اس جولان گاہ سے راستہ مزید وسیع ہوتا چلا گیا بالآخر ابتدائی ایام میں بحیثیت شاعر مشہور ہوئے لیکن مرور ایام کے ساتھ ساتھ ناظم اجلاس، شاعر رسول اور مقرر شعلہ بیان کے ناموں سے شہرت ملی۔ ان تینوں میدانوں میں ان کی موجودگی اجلاس کی کامیابی کا ضامن ہوا کرتی تھی۔ جب شاعری کرتے تو اپنی مسحور کن آواز سے تشویق دلاتے، اشعار کے ذریعہ سامعین کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے۔ جن لوگوں نے 1961 میں نوگڑھ کے تاریخی کانفرنس میں شرکت کی ہوگی آج بھی ان کی پڑھی ہوئی طویل اور تاریخی نظم لوگوں کے دلوں پر نقش ہوگی اور ان کی بصارتوں سے  ٹکراکر دلوں کو مسخر اور جوش و لولہ پیدا کر رہی ہوگی۔
اس طویل نظم کے چند مصرعے ملاحظہ فرمائیں:
اٹھو اٹھو قسم ہے اب بہت ہی سو چکے ہو تم
ہنسو بھی اور ہنساؤ بھی بہت ہی رو چکے ہو تم
ذرا سا ہوش بھی تو لو کہ کتنا کھو چکے ہو تم

بلا رہی ہیں منزلیں تمھارا انتظار ہے
قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے

نہیں ہے تم میں تازگی تو پھولوں سے ادھار لو
نہیں ہے تم میں روشنی تو تاروں کو اتار لو
ہے راہ پر خطر اگر تو عزم کو پکار لو

  بلا رہی ہیں منزلیں تمھارا انتظار ہے
  قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے

جو سو رہے ہیں غفلتوں میں ان کو بھی جھنجھوڑ دو
طلسم بے حسی کے آج تانے بانے توڑ دو
جو گردنیں خلاف اٹھیں بڑھو انھیں مروڑ دو

  بلا رہی ہیں منزلیں تمھارا انتظار ہے
قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے

تمھارا ولولہ جواں، تمھارا عزم نوجواں
تمھاری ہے زمین بھی تمھارا ہے یہ آسماں
تمہی ہو نائب خدا تمھارا ہے یہ کل جہاں

بلا رہی ہیں منزلیں تمھارا انتظار ہے
قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے

تمھارے عزم و حوصلے کی کون تاب لائے گا
تمھاری موج بیکراں کی زد پہ کون آئے گا
جو آئے گا مقابلے میں منہ کی اپنی کھائے گا

بلا رہی ہیں منزلیں تمھارا انتظار ہے
قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے

لگادو ظلمتوں کے خرمنوں میں آج آگ تم
سنوار دو قسم ہے دیکھو! کہکشاں کی مانگ تم
یہ قافلے بھی جس سے چل پڑیں وہ چھیڑو راگ تم

بلا رہی ہیں منزلیں تمھارا انتظار ہے
قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے

(مکمل نظم کے لیے دیکھیں: کلیات انجم :ص 644تا 452)

یہ کتنی دلنشیں اور دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی نظم ہے۔ اس وقت اس کا کیا اثر ہوا ہوگا جب یہ آواز فضا کا سینہ چاک کرکے کانوں کے پردے سے ٹکرا کر دل و دماغ کو جھنجھوڑ رہی تھی۔ اس کا اندازہ ہم اور آپ کے لیے کرپانا نہایت مشکل ہے۔ مگر اس بارے میں کلیات انجم میں مذکور ہے کہ جب یہ انقلابی نظم انھوں نے پڑھی تو لوگوں کی سسکیاں بندھ گئی تھیں اور آنکھوں نے کتنوں کے دامن کو تر کردیا تھا۔ (کلیات انجم :74)

مولانا ڈاکٹر حامدالانصاری انجم ؒ اپنے نام کے بجائے تخلص سے شہرت پائے، ان کے نام سے شاذ و نادر ہی کوئی جانتا اور پہچانتا ہو۔ گاؤں اور علاقے کے لوگ ”مولانا انجم“ ہی جانتے اور پکارتے تھے، اصل نام نادیدہ و ناشنیدہ ہوگیا ہے، بہت ہی کم ایسے افراد ہوں گے جو ان کے اصل نام سے واقف ہوں گے۔ ان کا پیدائشی نام عبد الحمید تھا، جب شعرو شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو اپنا تخلص انجم رکھ لیا، اب عبدالحمید انجم ہوگئے۔ لیکن انھوں نے صرف اسی نام پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اور بھی نام لکھتے رہے، جیسے انجم جمال اثری، حامد الانصاری انجم۔
اس تعلق سے ان کے چھوٹے فرزند ڈاکٹر شمس کمال انجم لکھتے ہیں:
میرا خیال ہے آپ کے شاعرانہ مزاج نے آپ کو حمید سے حامد بنایا ہوگا اور انجم تخلص اختیار کیا ہوگا۔ مگر انصاری کے ساتھ اس کا معجون مرکب اس طرح تیار ہوا کہ جب جلسوں میں آپ کی شرکت زیادہ ہوگئی تو جس گاؤں میں جاتے لوگ سوال کرتے مولانا آپ کس برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب آپ بتاتے کہ انصاری ہوں تو لوگ کہتے ارے یہ تو جولاہے ہیں۔ اس کے بعد والد صاحب نے جب خود “انصاری” لکھنا شروع کیا تو لوگوں نے پوچھنا چھوڑ دیا کہ آپ کس برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا اب آپ حامد الانصاری انجم ہوگیے۔ آپ کے والد ماجد کا نام جان محمد انصاری تھا اور گاؤں کا نام لوہرسن، چنانچہ آپ نے ان تمام سے ایک ایک لفظ جان کا جیم، محمد کا میم، انصاری کا الف اور لوہرسن کا لام لیا اور سب کو ملاکر ”جمال“ بنادیا۔ اب ”حامد الانصاری انجم جمال“ ہوگیے۔ جس زمانے میں آپ تازہ تازہ فارغ ہوکر دہلی سے آئے تھے اس وقت اس علاقے میں کئی علماء تھے، کوئی کسی مدرسے کی طرف نسبت کرتا تو کوئی کسی مدرسے کی طرف۔ جس سے ان کے منہجی اور مسلکی رجحان کا اندازہ ہوتا، عوام و خواص ابا سے پوچھتے مولانا آپ کیا ہیں؟ کس مدرسے سے فارغ ہیں؟کس مسلک کے عالم ہیں؟ چنانچہ انھوں نے اب اثری کا اضافہ کرلیا اور ”انجم جمال اثری“ ہوگیے۔ اثری کی اضافت سے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ آپ مئوناتھ بھنجن کے مشہور ادارہ جامعہ اثریہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ والد صاحب سے جب اس بابت سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا میں نے جس وقت اثری لکھنا شروع کیا اس وقت جامعہ اثریہ کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی۔ (نقوش جاوداں: ص ۴۸،۵۸)
مولانا کی خدمات:
ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ نمود و نمائش سے دور رہ کر دین کی بے لوث خدمت کرنا چاہتے تھے، وہ ایک جگہ بیٹھنے والے شخص نہیں تھے، کیونکہ تن آسانی ان کے خمیر میں شامل نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کا میدان اپنایا اور اسی پر خار راستے پر چل کر سنگلاخ وادیوں کا صعوبت بھرا سفر طے کرکے قوم کے نونہالوں کا مستقبل بنانے اور سنوارنے میں لگ گیے۔ ان کے اذہان و قلوب پر کتاب و سنت کا ایسے نقوش مرتسم کیے کہ وہ تاحیات کتاب و سنت کے شیدائی بن گیے، زبان و بیان کے ذریعہ کفر و شرک کی تاریک وادیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی انسانیت کو راہ راست پر لانے کی بے انتہا کوششیں کرتے۔ گنجینہ علم کے بحر بیکراں تھے ہی، لسان و قلم کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالی نے حاضر جوابی کا ملکہ اور مناظرے کی صلاحیت بھی ودیعت کی تھی، جن کے ذریعہ وہ مد مقابل کو دلائل و براہین سے شکست فاش دے دیا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنوں کے علاوہ غیر مسلمین سے بھی بہت سارے مناظرے کیے ”خصوصا آریہ سماج کے لوگوں سے“۔ آج بھی ان کے دو مناظرے کافی مشہور ہیں، جن میں سے ایک مناظرہ بریلوی مسلک کے عالم دین مولانا حشمت علی کے ساتھ ہوا تھا، تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒکی گرج دار آواز اور بے باکانہ انداز و جواب سے مناظرے کا نقشہ ہی بدل گیا، بالآخر لوگ بھاگ گیے اور مناظرہ ہی ختم ہوگیا۔ یہ مناظرہ بہت مشہور ہوا اور اس کی گونج بہت دور تک سنائی دی۔ آج بھی اس مناظرے کی یاد داشت لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے اور ہمارے علاقے کے لوگ اس واقعے کو بہت شوق سے سناتے اور سنتے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ نے ایک یادگار اور تاریخی نظم “آئینہ بدعت” لکھی۔ اس کی طباعت بھی ہوئی، یہ نظم کافی مشہور بھی ہوئی، اس کے نسخے اب ناپید ہوچکے ہیں، خاکسار کو اس کے چند بوسیدہ اوراق ملے تھے لیکن میرے پاس سے بھی وہ غائب ہوگیے۔
مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ نے دین سے لوگوں کا رشتہ استوار کرنے کے لیے اور دین کی طرف راغب کرنے کے لیے بہت سارے دینی ادارے بھی کھولے، جو آج بھی دین کی شمع فروزاں کرتے ہوئے علوم نبویہ کی نشر و اشاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ادارے اپنی ضیاپاشیوں سے گاؤں اور علاقوں کا نام روشن کیے ہوئے ہیں جن میں سے چند نام یہ ہیں:
مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم، لوہرسن کرنجوت بازار (سن تاسیس:1956ء)
یہ ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ کے آبائی گاؤں کا مدرسہ ہے۔ اس مدرسے میں صرف گاؤں کے لوگ ہی زیر تعلیم نہیں تھے بلکہ قرب و جوار کے تقریبا تمام مواضعات کے لوگوں نے یہاں پر اپنے علم کی پیاس بجھائی ہے۔ جیسے:
کرنجوت (اس گاؤں کا مدرسہ ہونے کی وجہ سے پورے گاؤں کے بچے یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے)
موضع سانڈا (یہ خاکسار کا گاؤں بھی ہے، جو مدرسہ سے کم و بیش ایک کلو میٹر کی دور ی پر واقع ہے، یہاں کے تقریبا سبھی بچے حصول علم کے لیے اسی مدرسے کا رخ کیا کرتے تھے۔لیکن بعد میں جب مدرسہ زید بن ثابت کی بنیاد پڑی اور دھیرے دھیرے اس مدرسے کو شہرت ملی تو سانڈا گاؤں کے بچے کرنجوت جانے کے بجائے اسی مدرسے کا رخ کرنے لگے اور کرنجوت مدرسے میں سانڈا کے بچوں کی تعداد کم ہوگئی۔ لیکن یہ سب باتیں بہت بعد کی ہیں کیوں کہ مدینۃ العلوم کی داغ بیل 1956ء میں ڈالی گئی ہے، جبکہ مدرسہ زید بن ثابت کا وجود 1990ء میں ہوا ہے اور اس کی شہرت کہیں جاکر 1995-96ء میں ہوئی ہے)
نیز سانڈا کے علاوہ لوہرسن، رمواپور، بلوا، سانتھا، بلہر، موتی پور اور مڑلاں وغیرہ کے بچے یہاں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ جب تک باحیات رہے اور چلنے پھرنے کے قابل رہے یہاں کے ہر اجلاس کی صدارت وہی کرتے تھے۔
ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ نے اس کے علاوہ اور بھی مدارس کی داغ بیل ڈالی:
مرکزالدعوۃ السلفیہ سوہانس بازار (سن تاسیس: 1988ء)
مدرسہ مصباح العلوم ٹھوٹھری نیپال
مدرسہ کعب بن مالک بلوا مشر کی تاسیس انہی کے ہاتھوں عمل میں آئی۔
مدرسہ خدیجۃ الکبری للبنات (نسواں) کی تاسیس بھی انہی کے ہاتھوں عمل میں آئی۔
مرکزی ادارہ جامعہ سلفیہ بنارس کے معماران میں ان کا بھی شمار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ بیک وقت شاعر، خطیب، مقرر اور ناظم اجلاس ہونے کے ساتھ سیاست سے بھی اچھا خاصا لگاؤ رکھتے تھے۔ سیاسی شخصیات کا ان کے مکان پر آنا جانا لگا رہتا تھا، خصوصا ایام انتخابات میں۔ لیکن اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قوم کے مفادات کو مقدم رکھا کرتے تھے، گنوریا چوراہے سے لے کر لوہرسن کرنجوت تک روڈ کی تعمیر ان کے اہم کارناموں میں سے ایک ہے۔ نیز قرب و جوار میں موجود بنکروں کے مسائل زور و شور سے اٹھاتے اور ان کو اس جانکاہی کی وجہ سے کامیابی بھی ملتی۔ یہ ان کی کارکردگی اور ان کے تئیں لوگوں کی محبت کا ثمرہ ہی ہے کہ جب وہ سوئے مکہ حج کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو ان کے دیدار کے لیے انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آرہا تھا۔ جس میں خاکسار بھی شامل تھا۔ کرنجوت، لوہرسن، سانڈا، سانتھا اور بلوا کی عوام انھیں گنوریا چوراہے تک پہنچانے آئی تھی۔ مائک لگاکر، مداح رسول کی نعت خوانی کے ساتھ لوگ پیدل چل رہے تھے۔
خاکسار کو بھی ان سے بارہا ملاقات کا شرف حاصل رہا ہے، لیکن کچھ استفادہ نہ کرپانے کا آج تک ملال بھی ہے۔ ہماری بھی مجبوری تھی کہ ہم صغر سنی کی وجہ سے کچھ سیکھ نہ سکے اور جب اس لائق ہوئے تو مولانا انجم صاحب کی صحت ساتھ دینے سے انکار کرنے لگی۔ مجھے اچھے سے یاد ہے کہ ہم مولانا عبدالغفار قاسمی (سانڈا) کے ساتھ مولانا انجم صاحب کی بیماری کے ایام میں دو تین مرتبہ ان کے گھر پر بغرض ملاقات اور تیماری کے لیے گیے تھے۔
مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ؒ کا انتقال 17 فروری 2013ء کو ان کے آبائی وطن لوہرسن کرنجوت میں ہوا اور انہی کے تاسیس کردہ ادارہ مدرسہ مدینۃ العلوم لوہرسن کرنجوت کے وسیع و عریض صحن میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس میں ہند و نیپال کے بہت سارے نامور علمائے دین شریک جنازہ ہوئے۔ آپ کے چھوٹے فرزند ڈاکٹر شمس کمال انجم مدنی حفظہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ان کے آبائی وطن لوہرسن کرنجوت بازار میں تدفین عمل میں آئی۔
اللہ تبارک و تعالی ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کی قربانیوں کو ان کے لیے نجات کا ذریعہ بنائے، نیز انھیں جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرما۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
شعيب حسان الدهلوي

لا جواب تحرير