قربانی کے احکام و مسائل

محمد اخلاق الرحمن عبادات

اضحیہ کی لغوی و اصطلاحی تعریف:
ابو نصر فارابی کہتے ہیں:
[ضحا] ضَحْوَةُ النهار بعد طلوع الشمس، ثم بعده الضُحا، وهي حين تشرق الشمس، ضحى کا معنى سورج طلوع ہونے کے بعد دن کا چڑھنا ہے اور ضحا – ض کے ضمہ کے ساتھ – اس وقت کہا جاتا ہے جب کہ سورج بالکل روشن ہوجاتا ہے۔
اسی سے کہا جاتا ہے:
ضَحَّى بشاةٍ من الأُضْحِيَّةِ، وهي شاة تذبح يوم الأضحى۔ (الصحاح تاج اللغۃ: ۶/۲۴۰۶)

اس نے بکری کی قربانی بوقت چاشت کی اور اضحیہ وہ بکری ہے جسے اضحى کے دن ذبح کیا جاتا ہے۔
اصطلاحی تعریف:
اس جانور کو کہا جاتا ہے جسے عید الاضحى کے دن سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن تک اللہ تعالى کی قربت کے حصول کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔(فتح القدیر لکمال بن ہمام ۹/۵۰۵و مغنی المحتاج للشربینی ۴/۲۸۲و کشاف القناع للبہوتی ۲/۵۳۰)
سبب تسمیہ:
لغوی و اصطلاحی تعریف سے واضح ہوجاتا ہے کہ چونکہ چاشت کے وقت قربانی کی جاتی ہے اسی لیے اضحى کہا گیا ہے۔
امام شوکانی فرماتے ہیں: قاضی کہتے ہیں: اسے اضحیہ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ چاشت کے وقت یعنی سورج کے اوپر چڑھنے کے بعد ذبح کیا جاتا ہے۔ (نیل الاوطار: ۹/۴۴۹)
قربانی کی مشروعیت:
قربانی کی مشروعیت قرآن و حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔
قرآن کریم: اللہ تعالى نے فرمایا ہے: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}
اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور اسی کے لیے قربانی کر۔ (سورہ الکوثر)
ابن جریر طبری فرماتے ہیں: عبداللہ بن عباس کہتے ہیں: نحر نسک اور قربانی کے دن ذبح کرنے کا نام ہے۔(تفسیر طبری:۲۴/۶۹۳)
عبد القاہر الجرجانی کہتے ہیں:فالظاهر أنّه صلاة العيد ونحر الجزور (درج الدر فی تفسیر الآی و السور:۴/۱۷۶۹)
ظاہر ہے اس سے مراد عید کی نماز اور اونٹوں کی قربانی ہے۔
امام ابن کثیر نحر کے تین معانی ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:وَالصَّحِيحُ الْقَوْلُ الْأَوَّلُ، أَنَّ الْمُرَادَ بِالنَّحْرِ ذَبْحُ الْمَنَاسِكِ؛ وَلِهَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصلي الْعِيدَ (6) ثُمَّ يَنْحَرُ نُسُكَهُ
پہلا قول صحیح ہے یعنی نحر سے مراد قربانی کے بکروں کا ذبح کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم عید کی نماز پڑھتے پھر قربانی کرتے۔(تفسیر ابن کثیر: ۸/۵۰۳)
یہی جمہور کی رائے ہے جیساکہ ابن الجوزی زاد التفسیر ۹/۲۴۹ میں فرماتے ہیں۔
حدیث:
الف:
حضرت انس –رضی اللہ عنہ– فرماتے ہیں:ضحى النبي – صلى الله عليه و سلم – بكبشين أملحين، فرأيته واضعا قدمه على صفاحهما يسمي و يكبر فذبحهما بيده”(صحیح بخاری ح ۵۵۵۸ و صحیح مسلم ح ۱۹۶۶)
نبی –صلى اللہ علیہ و سلم– نے دو ایسے مینڈھے ذبح کیے جن کا رنگ سیاہ و سفید یعنی چتکبرا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے اپنا قدم ان کی گردن پر رکھا اور بسم اللہ و اللہ اکبر بول کر ذبح کیا۔
ب:
حضرت ام سلمہ –رضی اللہ عنہا– عرض کرتی ہیں کہ: رسول اللہ –صلى اللہ علیہ و سلم– نے فرمایا:“إذا دخلت العشر و أراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره و بشره شيئاً”(صحیح مسلم ح ۵۲۳۲)
جب ذو الحجہ کا عشر اول داخل ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو نہ وہ اپنے بال کاٹے اور نہ چمڑا کاٹے۔
ج:
حضرت براء بن عازب –رضی اللہ عنہ– عرض کرتے ہیں کہ: نبی –صلى اللہ علیہ و سلم– نے فرمایا: “جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کا نسک -قربانی- پورا ہوگیا اور مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل بھی ہوگیا”۔ (صحیح بخاری ح ۵۲۲۵)
اجماع امت:
ابن قدامہ فرماتے ہیں: مسلمانوں نے قربانی کی مشروعیت پر اجماع کیا ہے۔(المغنی ۹/۴۳۵)
ابن دقیق العید فرماتے ہیں: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی دین کے شعائر میں سے ہے۔ (احکام الاحکام ص ۴۸۲)
ابن حجر فرماتے ہیں:قربانی کے دینی شعار ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔ (فتح الباری ۱۰/۳)
قربانی کا حکم:
قربانی کے وجوب و عدم وجوب میں علما کا اختلاف ہے چنانچہ اس میں دو قول ہیں:
پہلا قول:
ابن قدامہ فرماتے ہیں:وَالْأُضْحِيَّةُ سُنَّةٌ، لَا يُسْتَحَبُّ تَرْكُهَا لِمَنْ يَقْدِرُ عَلَيْهَا، أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ الْأُضْحِيَّةَ سُنَّةً مُؤَكَّدَةً غَيْرَ وَاجِبَةٍ (المغنی ۹/۴۳۵)
قربانی سنت ہے، صاحب قدرت کا اسے چھوڑنا اچھا نہیں ہے۔ اکثر اہل علم قربانی کو سنت موکدہ سمجھتے ہیں واجب نہیں۔
امیر صنعانی فرماتے ہیں: وجوب کے دلائل ضعیف ہونے کی وجہ سے جمہور صحابہ، تابعین اور فقہا کا کہنا ہے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے۔ (سبل السلام ۴/۱۷۰)
امام نووی فرماتے ہیں: جمہور کے نزدیک مالدار کے حق میں سنت ہے ۔ یہی ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، بلال، ابو مسعود بدری، سعید بن المسیب، علقمہ، اسود و عطاء، مالک و احمد، ابویوسف و اسحاق، ابو ثور اور مزنی، ابن منذر و ابوداود وغیرہ کا قول ہے۔ (شرح مسلم ۱۳/۱۱۰)
دلیلیں:
الف:
حضرت ام سلمہ –رضی اللہ عنہا– عرض کرتی ہیں کہ: رسول اللہ –صلى اللہ علیہ و سلم– نے فرمایا:“إذا دخلت العشر و أراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره و بشره شيئاً”
جب ذو الحجہ کا عشر اول داخل ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو نہ وہ اپنے بال کاٹے اور نہ چمڑا کاٹے۔(مسلم ح ۵۲۳۲)
وجہ استدلال:
آپ –صلى اللہ علیہ و سلم– نے قربانی کو ارادہ و چاہت پر معلق رکھا۔ اگر واجب ہوتی تو چاہت پر معلق نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قربانی واجب نہیں ہے۔
امام شوکانی فرماتے ہیں:
لِأَنَّ التَّفْوِيضَ إلَى الْإِرَادَةِ يُشْعِرُ بِعَدَمِ الْوُجُوبِ (نیل الاوطار ۹/۴۵۸)

ارادہ پر چھوڑنا عدم وجوب کو بتاتا ہے۔
ب:
حضرت ابو سریح غفاری -حذیفہ بن اسید صحابی رسول- کہتے ہیں: میں نے ابو بکر و عمر –رضی اللہ عنہما- کا دیکھا کہ وہ دونوں اس ڈر سے قربانی نہیں کرتے تھے کہ کہیں لوگ ان کی اقتدا نہ کرنے لگے۔ (السنن الصغرى للبیہقی ح ۱۸۱۳و الکبرى ح ۱۹۰۳۴ و معرفۃ السنن و الآثار ح ۱۸۸۹۳..حافظ ابن حجر و علامہ البانی نے صحیح کہا ہے. الدرایہ للحافظ ۲/۲۱۵ و ارواء الغلیل ح ۱۱۳۹)
ج:
حضرت ابو مسعود انصاری فرماتے ہیں:إني لأترك الأضحى وإني لموسر كراهية أن يرى أهلي وجيراني أنه حتم (السنن الکبرى للبیہقی ح ۱۹۰۳۸. شیخ البانی فرماتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے۔ ارواء ح ۱۱۳۹)
میں قربانی کرنا چھوڑ دیتا ہوں حالانکہ میں مالدار و صاحب استطاعت ہوں، صرف اس خوف سے کہ کہ میرا گھرانہ اور پڑوسی یہ نہ سمجھ لے کہ مجھ پر واجب ہے۔
ان آثار کو ذکر کرنے کے بعد حافظ ابن عبدالبر تحریر فرماتے ہیں: اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس پر دوام و مواظبت کی وجہ سے فرض یا واجب نہ سمجھ لیا جائے۔ اس لیے کہ وہ لوگ ائمہ ہدایت تھے۔ بعد میں آنے والے لوگ ان کی اقتدا کریں گے اور دین کے معاملے میں ان کا عمل دیکھیں گے۔ اس لیے کہ وہی لوگ نبی اور آپ کی امت کے درمیان کا واسطہ ہیں۔ ان کے لیے اس معاملہ میں اجتہاد جائز ہوا جو دوسروں کے لیے جائز نہیں۔(التمہید ۲۳/۱۹۵)
د:
علامہ ابن حزم فرماتے ہیں: کسی صحابی سے صحیح واسطے سے ثابت نہیں کہ قربانی واجب ہے بلکہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے۔ (المحلى ۶/۱۰)
دوسرا قول:
قربانی صاحب قدرت پر واجب ہے۔
یہی امام ابو حنیفہ کا قول ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ۳/۱۰۷۷)
یہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا بھی قول ہے چنانچہ فرماتے ہیں: قربانی کا واجب ہونا ہی اظہر ہے لیکن وجوب استطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ (مجموع الفتاوى ابن تیمیہ ۲۳/۱۶۴)
شیخ ابن عثیمین کا اختیار ہے۔ (الشرح الممتع ۷/۴۲۲)
دلیلیں:
الف:{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}
(اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور اسی کے لیے قربانی کر)
وجہ استدلال:
کہتے ہیں: انحر امر ہے اور امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ لہذا قربانی واجب ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہاں نحر کو رب کے ساتھ خاص کرنا مقصود ہے نہ بتوں کے لیے قربانی کریں۔ لہذا اس سے متعلق ہے کہ نہ وجوب نحر سے۔ (مرعات ۵/۷۲)
ب:
حضرت ابو ہریرہ عرض کرتے ہیں کہ رسول اللہ –صلى اللہ علیہ و سلم– نے فرمایا:“من وجد سعة لأن يضحي فلم يضح فلا يحضر مصلانا” (مستدرک حاکم ح ۳۴۷۸و مسند احمد ح ۸۲۷۳)
جس کی وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ نہ آئے۔
وجہ استدلال:
امام شوکانی فرماتے ہیں:وَوَجْهُ الِاسْتِدْلَالِ بِهِ أَنَّهُ لَمَّا نَهَى مَنْ كَانَ ذَا سَعَةٍ عَنْ قُرْبَانِ الْمُصَلَّى إذَا لَمْ يُضَحِّ دَلَّ عَلَى أَنَّهُ قَدْ تَرَكَ وَاجِبًا، فَكَأَنَّهُ لَا فَائِدَةَ فِي التَّقَرُّبِ مَعَ تَرْكِ هَذَا الْوَاجِبِ (نیل الاوطار ۹/۴۵۷)
وجہ استدلال یہ ہے کہ صاحب استطاعت کو قدرت کے باوجود قربانی نہ کرنے کی وجہ سے عیدگاہ آنے سے روک دیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے واجب کو ترک کیا ہے گویاکہ ترک واجب کے ساتھ تقرب میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔
جواب:
اولا یہ حدیث کئی اعتبار سے مختلف فیہ ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: اسے ابن ماجہ و احمد نے روایت کی ہے۔ اس کے رجال ثقہ ہیں لیکن مرفوع و موقوف ہونے میں اختلاف ہے اور موقوف ہونا ہی زیادہ درست ہے۔ یہی بات طحاوی وغیرہ کی ہے۔(فتح الباری ۱۰/۳) یعنی قول رسول نہیں ہے ۔
ثانیا: اس کی سند میں ضعف ہے۔
شیخ شعیب ارناؤوط فرماتے ہیں: اس کی سند عبد اللہ بن عیاش کی وجہ سے ضعیف ہے۔(مسند احمد ح ۸۲۷۳)
بلکہ حافظ ابن الجوزی کہتے ہیں:
احمد نے کہا ہے کہ منکر حدیث ہے۔ (التحقیق فی مسائل الخلاف ۲/۱۶۱)
لیکن شیخ البانی فرماتے ہیں: حسن ہے۔ (تخریج مشکلۃ الفقر ح ۱۰۲)
ثالثا: حدیث صراحتا وجوب پر دال نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: یہ حدیث واجب ہونے میں صریح نہیں ہے۔ (فتح الباری ۱۰/۳)
ابن الجوزی لکھتے ہیں:“ثُمَّ إِنَّهُ لَا يَدُلُّ عَلَى الْوُجُوبِ كَمَا قَالَ مَنْ أَكَلَ الثَّوْمَ فَلَا يَقْرَبْ مُصَلَّانا”
احمد نے اسے منکر کہا ہے ۔ یہ حدیث وجوب پر دلالت نہیں کرتی جس طرح “جس نے لہسن کھائی وہ مصلى –مسجد– سے قریب نہ ہو” والی حدیث۔ (التحقیق فی مسائل الخلاف ۲/۱۶۱)
ج:
حضرت مخنف بن سلیم عرض کرتے ہیں:مِخْنَفُ بن سُليم، قال: ونحنُ وقوفٌ مع رسولِ الله -صلَّى الله عليه وسلم- بعرفاتٍ، قال: قال: “يا أيُّها الناسُ، إن على كل أهلِ بيتٍ في كلِّ عام أُضحيةً وعَتِيرَةً، أتَدْرُونَ مَا العَتيِرَة؟ هذه التي يقولُ الناسُ: الرجَبيّة” (سنن ابوداود ح ۲۷۸۸)
یعنی ہم لوگ رسول اللہ –صلى اللہ علیہ و سلم– کے ساتھ عرفات میں وقوف کیے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: “اے لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال قربانی اور عتیرہ واجب ہے۔ کیا تمھیں معلوم ہے عتیرہ کیا ہے؟ عتیرہ وہی ہے جسے لوگ رجبیہ کہتے ہیں۔
جواب:
الف:
علامہ عبید اللہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی حجت نہیں۔ اس لیے کہ صیغہ مطلق وجوب پر دلالت کرنے میں صریح نہیں ہے اور اضحیہ کے ساتھ ساتھ عتیرہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن جو لوگ وجوب اضحیہ کے قائل ہیں وہ لوگ بھی عتیرہ واجب ہونے کے قائل نہیں۔ بیہقی المعرفۃ میں کہتے ہیں:صحیح ماننے کی صورت میں اسے استحباب پر محمول کیا جائےگا۔ اس وجہ سے کہ قربانی اور عتیرہ دونوں کا ایک ساتھ ذکر ہے اور عتیرہ بالاجماع واجب نہیں ہے۔(مرعات ۵/۷۲)
ب: ابن قدامہ فرماتے ہیں:فَأَمَّا حَدِيثُهُمْ فَقَدْ ضَعَّفَهُ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ، ثُمَّ نَحْمِلُهُ عَلَى تَأْكِيدِ الِاسْتِحْبَابِ (المغنی ۹/۴۳۶)
علما نے ان حدیثوں کو ضعیف قرار دیا ہے اور -صحیح ماننے کی صورت میں– ہم اسے تاکید استحباب پر محمول کرتے ہیں۔
د: حضرت ابن عمر فرماتے ہیں:أقام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عشر سنين يضحي (مسند احمد ح ۴۹۵۵)
رسول اللہ –صلى اللہ علیہ و سلم– دس سال تک قربانی کرتے رہے۔
[شیخ شعیب فرماتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے۔ مسند احمد ۴/۴۶۲. سنن ترمذی ح ۱۵۰۷. شیخ البانی فرماتے ہیں: ضعیف ہے۔ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں: وفي سنده حجاج بن أرطاة، وهو كثير الخطأ والتدليس، ورواه عن نافع بالعنعنة،
اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ ہے جو کہ کثیر الخطا و التدلیس ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس نے نافع نے عنعنہ کے ساتھ روایت کی ہے۔ تحفۃ الاحوذی ۵/۸۰]
وجہ استدلال:
ملا علی قاری کہتے ہیں: وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى الْوُجُوبِ مُوَاظَبَتُهُ -عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ- عَشْرَ سِنِينَ مُدَّةَ إِقَامَتِهِ بِالْمَدِينَةِ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ۳/۱۰۷۷)
آپ -صلى اللہ علیہ و سلم– کا پابندی کے ساتھ مدینے میں دس سال تک قیام کے دوران قربانی کرنا واجب ہونے کی دلیل ہے۔
جواب:
الف: حدیث ضعیف ہے۔
ب: آپ کا مواظبت سے کسی عمل کو انجام دینے سے وہ عمل واجب نہیں ہوتا۔جیساکہ یہ بات مخفی نہیں ہے۔ (مرعات ۵/۷۲ و تحفۃ الاحوذی ۵/۸۰)
راجح قول:
یہ ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے واجب نہیں ہے علامہ عبید اللہ مبارکپوری فرماتے ہیں: مذکورہ بیان سے واضح ہو گیا کہ قربانی سنت موکدہ ہے واجب نہیں اور جو قدرت رکھتا ہے اس کے لیے قربانی نہ کرنا مکروہ ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ قائلین وجوب کا قول کمزور ہے۔ (مرعات ۵/۷۳)
چند اسباب کی وجہ سے:
پہلا سبب:
براءت اصلیہ۔ اس لیے کہ کوئی ایسی صحیح دلیل نہیں جو وجوب پر دلالت کرے لہذا واجب نہ ہونا اصل ہے۔
دوسرا سبب:
بعض صحیح حدیثیں وارد ہیں جو کہ واجب نہ ہونے پر دال ہیں جیساکہ ذکر ہوا ہے۔
تیسرا:
صحابہ سے صحیح سندوں سے مروی ہے کہ انھوں نے استطاعت کے باوجود ترک کیا ہے تاکہ واجب نہ سمجھا جائے۔ (جاری)

آپ کے تبصرے

3000