ادب میں طنز و مزاح کی معنویت

طارق اسعد

یوں تو ادب کی مختلف اور متنوع اصناف ہیں اور ہر ایک کا اپنا دائرہ کار اور مخصوص حلقہ ہے۔ ادب کی ہر صنف کی اپنی الگ شناخت اور منفرد اہمیت ہے۔ خاص کر قاری کے رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے ادباء اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور پڑھنے والے کے ذوق کے مطابق خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ ادب کی منجملہ شاخوں میں طنز و مزاح کی بھی مستقل معنویت و افادیت ہے جس کا انکار بہر حال کسی صاحب نظر کے لیے ممکن نہیں ہے۔بقول ڈاکٹر وزیر آغا’’طنزیہ و مزاحیہ ادب ملائمیت اور نشتریت کے ایک خوشگوار امتزاج کے باعث قابل برداشت ہوتا ہے اور کسی ناگوار رد عمل کو تحریک نہیں دیتا۔‘‘

عام طور سے سیدھے سادے پیرائے میں لکھی گئی تحریریں اور خشک مضامین قاری کے جذبات پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالتے اور نہ ہی اس کے وجدان میں کسی قسم کا اشتعال پیدا کرتے ہیں، بلکہ بسا اوقات تو آدمی بیزاری اور اکتاہٹ کا بھی اظہار کر بیٹھتا ہے اور پوری تحریر یا مضمون پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس کے برعکس زندگی کی ناہمواریوں اور معاشرے کی برائیوں کو طنز ومزاح کے پردے میں پیش کرنے سے قاری نہ صرف یہ کہ اس تحریر سے لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ اس کے اندر سماجی مسائل کا سامنا کرنے کی جرأت بھی پیدا ہوتی ہے ۔ ایک مزاح نگار پس تحریر جو پیغام دینا چاہتا ہے اور قاری سے جس چیز کا مطالبہ کرتا ہے وہ اسے فوراً کیچ کر لیتا ہے اور اس کی عملی تطبیق کی بھی کوشش کرتا ہے۔ ایسٹ مین کا کہناہے کہ ’’مزاح کھیل کی جبلت ہے اور اس کا بڑا کام یہ ہے کہ انسان کو صدمے یا مایوسی کا ہنس کر مقابلہ کرنے کی ترغیب دے۔‘‘ اسٹیفن لیکاک لکھتاہے کہ ’’ مزاح زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہو جائے‘‘ ۔

عربی زبان کا یہ مقولہ تو اکثر کو ازبر ہو گا’’الملح فی الکلام کالملح فی الطعام‘‘ یعنی کلام میں ظرافت کو وہی مرتبہ حاصل ہے جو کھانے میں نمک کو نصیب ہے۔ مولانا صلاح الدین احمد نے اس مقولے سے یہ حقیقت اخذ کی ہے کہ ’’کسی زبان کی لطافت اور کسی قوم کی پختگی کا اندازہ کرنے کے لیے اس زبان کی ادبی ظرافت اور اس قوم کا احساس مزاح ہی سب سے عمدہ معیار ہے۔‘‘

ایک مزاح نگار جب اپنی شگفتہ تحریروں سے قارئین کو دلچسپی اور لذت اندوز ہونے کا سامان بہم مہیا فرماتا ہے تو اس کا اصل مقصد محض انھیں ہنسانا یا ان کی دلجوئی کرنا نہیں ہوتا ہے، ایک بلند پایہ مزاح نگار کا مطمح نظر دراصل سماج کی وہ ناہمواریاں یا معاشرے کے وہ قابل گرفت امور ہوتے ہیں جن پر عام طور سے لوگوں کی توجہ نہیں ہوتی، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مزاحیہ تحریروں میں نہایت چھوٹی اور معمولی چیزوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ بظاہر معمولی نظر آنے والی ان برائیوں اور خامیوں کا سد باب ہو اور معاشرے کی صحیح تعمیر وتشکیل ہو۔ ایک مثالی معاشرے کی تعمیر میں اور ادبیات عالیہ کے ذخیرے میں بیش بہا اور قیمتی سرمایے کا اضافہ کرنے میں طنز ومزاح کا درجہ دیگر اصناف ادب سے کسی طور پر کم نہیں ہے۔ اردو ادب نے طنز ومزاح نگاری کی ایسی کھیپ تیار کی ہے جو گذشتہ دو صدیوں سے برابر برسر پیکار ہیں اور اردو زبان وادب کو خالص مزاح کی چاشنی سے مالا مال کر رہی ہیں۔ اردو کا طنزیہ و مزاحیہ ادب امتداد زمانہ کے ساتھ مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان کے بڑے سے بڑے مزاحیہ سرمائے کے سامنے سر اٹھا کر کھڑا ہو سکے، تاہم ابھی بھی اس میں تعمیر وترقی اور اسے اوج ثریا تک پہنچانے کے کافی مواقع ہیں۔ ادبی مذاق رکھنے والوں کے لیے یہ میدان دیگر اصناف ادب کے بالمقابل زیادہ وسیع و کار آمد ہے۔ ہم اس تحریر کو عصر حاضر کے عظیم ترین مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے اس اقتباس پر ختم کرتے ہیں: ’’عمل مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے۔ لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز تر ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتا ، ہیرا بن جاتا ہے۔‘‘

آپ کے تبصرے

3000