ہندو اقوام پر مسلمانوں کے احسانات

سفیان قاضی مدنی سماجیات

میڈیا اور فلم انڈسٹری کا ہندوتو ایجنڈا اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پبلک برین واشنگ کے سارے ذرائع پر انہی کا قبضہ ہے۔ کچھ عرصہ سے اعتراضات کا ایک عریض سلسلہ چل رہا ہے۔ اور حالات بتا رہے ہیں کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔
فلموں اور ڈوکومینٹری کے ذریعہ مسلم حکمرانوں کے خلاف ایک عام فضا قائم کی جا رہی ہے۔ مسلم قوم کو مرعوبیت کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے۔ مختلف شرعی پہلووں کو نشانہ بناکر جارحانہ حملے جاری ہیں۔ گویا اسلام ہی تمدن کا مخالف اور خوں آشام فرسودہ نظام حیات ہے۔ اس طرح ہندو مسلم منافرت کو ہوا دی جارہی ہے۔
اس قدر پلاننگ کے باوجود ہندوتو تنظیموں کی یہ جارحانہ کوششیں اب تک ناکام اسی لیے ہو رہی ہیں کہ اسلامی تہذیب کے روشن و تابناک تاریخی صفحات اب تک فرسودہ نہیں ہوئے ہیں۔ اسلامی تہذیب و نظام حیات کے اصول اس قدر مستحکم ہیں کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھانا ممکن نہیں۔ ہندو کٹر پنتھی تنظیمیں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ تو اپنے مذہب کو انسانیت کا علمبردار ثابت کرسکیں اور نہ ہی اسلامی تمدن و ثقافت کے مقابلہ میں برتری پا سکی ہیں۔
مگر چونکہ مسلمان خود اپنی تہذیب سے ناواقف ہیں اس لیے بسا اوقات ان فلموں میں بتائی گئی مسخ شدہ تاریخ کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں، احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی ہی تہذیب وسیادت کو کوسنے لگتے ہیں کہ ہم خود ہی ایسے ہیں اور ہمارے بزرگوں کی تاریخ بھی ظلم و استبداد سے بھری ہے۔
اس لیے ضرورت ہے کہ اس میڈیائی پروپیگنڈا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے اور اسلامی تہذیب کا یہ روشن باب کھلی روشن کتاب کی طرح لوگوں کے سامنے رکھا جائے۔
در اصل ہندو مسلم محبت کی تاریخ بہت عظیم ہے۔ ہندو قوم کی ترقی مسلم بادشاہوں کے احسانات کی مرہون منت ہے۔ مسلم حکمرانوں نے جس قدر وسیع امتیازات وفراخدلی اور کشادہ ذہنی سے انسانیت و رواداری کا ثبوت دیا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح خلافت امویہ کے روشن پہلو کو بغض معاویہ کے علمبردار شیعہ نوازوں نے حریفانہ طرز عمل سے پیش کیا اسی طرح تنگ ذہنی کے حامل ہندو مصنفین ومورخین نے یہاں بھی وہی کردار نبھایا ہے۔ محمد تغلق سے اورنگ زیب کو کچھ اس تصور کے ساتھ نصابی کتابوں میں جگہ دی گئی ہے گویا تاریخ ہند میں بجز فساد و ظلم کے ان کا کوئی کردار ہی نہیں۔ جبکہ مسلم حکمرانوں نے ان کو جو حقوق عطا کیے ان پر پردہ پوشی کی جارہی ہے۔
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی ایک تقریر کا اقتباس ملاحظہ کریں جو انھوں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس 1917 کے سالانہ اجلاس بمقام کلکتہ کی تھی:
“مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندو قوم وہ قوم تھی جو سبھی قوموں سے اس قدر شدید نفرت رکھتی تھی کہ اس کے سائے سے بھی گریز کرتی تھی۔ ہر چیز کو ناپاک اور نجس ہستی تصور کرتی تھی۔ کیا اس وقت میں کوئی یہ خیال کرسکتا تھا کہ کسی زمانہ میں ہندو قوم بھی اس قدر روادار اور وسیع الخیال ہوجائے گی کہ دوسری قوم کے ساتھ مل جل کر کام کرے۔ اور اس کے ساتھ شاگردی و استادی کا رشتہ قائم کرے۔ لیکن مسلمانوں کی آمد کے سو دو سو برس ہی کے اندر ان کے خیالات میں بڑا تغیر آیا اور اب وہ مسلمان سلاطین کی نوکریاں کرنے لگے۔ اور درباروں میں مسلمان ارباب کمال کے پہلو بہ پہلو بیٹھنے لگے۔ یہی ابتدائی بے تعصبی ہندووں کی موجودہ تعلیمی ترقی کا راز ہے”۔
ہندووں پر مسلمانوں کا ایک بہت بڑا احسان یہ ہے کہ عقل وفکر کے استعمال کا صحیح طریقہ انھوں نے مسلمانوں سے ہی سیکھا ہے۔ چونکہ ان کے تمام تر امتیازی فوائد اعلی طبقہ کو حاصل تھے۔ نچلے طبقہ کو تو وید کے شلوک سننے پر بھی پابندی تھی۔ مسلم حکمرانوں نے محمود و ایاز کے فرق کو ختم کرکے انسانیت کی بھر پور تعلیم دی۔ برہمنوں کے ظلم و استبداد سے چھتریوں اور شودروں کو نجات دلائی۔ مسلم سلاطین نے ہندو فاضلوں کو اپنے دربار کا حصہ بنایا۔ رفتہ رفتہ وہ مسلمانوں سے مانوس ہونے لگے۔ خاص کر وہ طبقہ جو فارسی زبان سے بہرہ ور تھا اسے سرکاری دفاتر میں بلا تفریق مذہب نوکریاں دستیاب تھیں۔
مسلمانوں کے علمی ذوق نے ہندووں میں ایک نئی روح پھونکی۔ آج بھی ہندوستانی کتب خانوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک بڑا گرانقدر سرمایہ فراہم ہوسکتا ہے کہ مسلم حکمران آزادی ومساوات کے ساتھ ہندومسلم فضلا کو شاہی درباروں میں پہلو بہ پہلو جگہ دیتے تھے۔
تعلیمی میدان میں ہندووں پر ایک احسان یہ بھی ہے کہ برہمن جاتیاں دوسرے طبقات کے ساتھ جو نا انصافی کیا کرتی تھیں مسلمانوں نے اس کے خلاف بغاوت کرکے ہندووں کو ان کا حق دلایا۔ تعلیم عام کے ذریعہ انھیں اپنے اسکولوں میں جگہ دی۔ چونکہ سنسکرت زبان صرف دعاؤں، بھجن منتر اور بھوت پریت بھگانے والی زبان تصور کی جاتی تھی اس لیے اس زبان میں علوم و فنون کی خاطر خواہ ترقی ممکن نہ تھی۔ بلکہ یہ صرف برہمنوں کی ملکیت سمجھی جاتی تھی اس لیے بہت سارے نچلے ہندو طبقہ جات و محققین فارسی کے گرویدہ ہوئے۔
ہندو مسلم لڑکے ایک ساتھ نہایت میل جول اور یکجہتی کے ساتھ پڑھتے تھے۔ گلستاں بوستاں، انشائے خلیفہ، اخلاق ناصری اور فارسی نویسی داخل نصاب تھیں۔ اخلاق و ریاضیات، طب وپاتن جلی کی جو تعلیم وید کے حساب سے ممنوع تھیں وہ بجز برہمن سارے ہندو طبقے آسانی سے حاصل کرتے تھے اور اسی بنیاد پر انھیں سرکاری عہدوں پر قبول بھی کیا جاتا تھا۔ ان میں زیادہ تر ایسے افسران تھے جو شاہی دفتر میں منشی، وقائع نویس اور صاحب دیوان کے عہدوں پر فائز رہے، ان کی نگاہ سے سلطنت کا کوئی راز چھپا نہیں تھا۔ سیاسی، انتظامی اور مالی مسائل میں وہ معتمد فیہ جانے جاتے تھے بلکہ ان میں سے بعض نے تو حکومتوں کے حالات کو بھی انتہائی مثبت طور پر قلم بند کیا ہے۔ غزنوی سے تغلق تک کی عہد ساز تاریخ کو اس خوبصورتی کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ کوئی متعصب ہی اس کا انکار کرسکتا ہے۔ اس میں یہ ان سب خدشات وخرافات کی کوئی جگہ نہیں ہے جو میڈیا میں آج کل گردش میں ہیں۔
غرضیکہ مسلمانوں نے ہندوستان آکر صرف حکومت و سیاست نہیں کی بلکہ مختلف علوم و فنون، صنعت وحرفت، تعلیم وترقی میں ہندوؤں کو ان کا پورا حق دیا۔
جہاں تک مذہبی عبادت گاہوں کا احترام ہے تو اس ضمن میں بھی عوام کو تاریخی مغالطہ دیا جاتا ہے۔
اس مسئلہ میں شرعی نقطہ سے قطع نظر تاریخی حقائق پر روشنی ڈالی جائے تو روز روشن کی طرح یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مسلم حکمراں غیر مسلم عبادت گاہوں کو نہ صرف حمایت فراہم کرتے بلکہ ان کی تعمیر و تجدید کے لیے مالی اعانت بھی کیا کرتے تھے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دولت آباد سے جنجیرہ فورٹ تک بیشتر قلعوں میں مسجدوں کے ساتھ ساتھ مندروں کے آثار بھی ملتے ہیں؟
اورنگ زیب کے متعلق یہ وارد ہے کہ کنوٹ تعلقہ میں ایک پہاڑی پر واقع مندر “دیول سکھر” کو انھوں نے جاگیر عطا کی اور بعد میں سلاطین آصفیہ نے اس میں توسیع بھی فرمائی۔ بھدرا چلم کے مقام پر واقع مندر جب زبوں حالی کا شکار ہوا تو ابوالحسن تانا شاہ نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا اور نواب نظام علی کے دور حکمرانی میں اس دیول کے لیے 20 ہزار مشاہرہ بھی جاری کیا گیا۔
پٹن کی مشہور “ایکناتھ یاترا” کو مغل دور حکومت میں سرکاری اجازت حاصل تھی۔ حیدر آباد کے رومن کیتھولک کا سینٹ جوزف چرچ نظامی حکومت کے مشاہرہ پر جاری تھا۔ جبکہ پروٹسٹنٹ کے چرچ سینٹ جارج کو چار سو پچیس روپے سالانہ امداد دی جاتی تھی۔ (بحوالہ: سر رشتہ معلومات عامہ ۔ مشہور عبادت گاہیں ص 32)
ہندو اقوام پر مسلمانوں کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ علوم عقلیات اور تحقیق و جستجو کا فن انھوں نے عربی تہذیب سے سیکھا ہے جیسا کہ بیرونی نے ذکر کیا ہے۔ سنسکرت میں عربوں اور فارسیوں کی تحقیقات کی کافی آمیزش موجود ہے۔ مشہور ہندو مؤرخ کندن لال نے جب تاریخی انسائیکلوپیڈیا “ریچ اشکی” ترتیب دیا تو اسے چار حصوں پر منقسم کیا۔ پہلے حصہ میں ہندو فلسفہ۔ دوسرے میں یونان کا اور تیسرے میں عربوں کے علوم و فنون اور جدید سائنس سے ان کی ہم آہنگی اور چوتھے میں یورپ کی ترقی کا ذکر کیا۔ یہ کتاب 1225ھجری میں مطبع محمدیہ لکھنو میں چھپی۔

ہندو اقوام پر مسلمانوں کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ طب نبوی کے امتیازات کو انھوں نے ہندوستان میں متعارف کرایا۔ ہندوستانی علم طب میں مسلمانوں کی آمد سے جو بھی انقلاب برپا ہوا وہ قابل رشک ہے۔ ہندووں کے یہاں توہم پرستی، دیوی دیوتاؤں بھوت پریت کا ایسا اثر تھا کہ دسیوں بیماریاں بے علاج سمجھی جاتی تھیں۔ مریض کو بے علاج بناکر مرتے دم تک ایک کمرے میں بند کردیا جاتا، ایسی دسیوں بیماریوں کا علاج مسلمانوں نے دریافت کیا۔ ہندوستانی پہاڑوں اور سمندری تہوں سے جڑی بوٹیاں دریافت کرکے انھیں زیر تجربہ استعمال کیا، دواؤں کی ترکیب میں بعض جڑی بوٹیاں جو مذہبی قیود وبند میں شجر ممنوعہ سمجھی جاتی تھیں اور جنات بھوت کے تصور میں انہیںں منحوس گردانا جاتا تھا انھیں لائق علاج ثابت کرکے اپنی علمی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مسلمانوں کی ان طبی تحقیقات کا اثر یہ ہوا کہ شہروں میں جہاں برہمنوں نے ویدوں کے گرنتھ کی بے حرمتی کا شور مچایا وہیں دیہات و قصبوں کے (ہندو بنیے) طبی یونانی دواؤں کے بڑے بڑے عطار بن گئے اور عرب و یونان کی دوائیں ان کی دکانوں پر بکنے لگیں۔
اتنا ہی نہیں حسن اخلاق و محبت کی تعلیم بھی ہندوؤں نے مسلمانوں سے حاصل کی ہے۔ گرو نانک جو سکھ فرقے کے بانی ہیں انھیں کون نہیں جانتا۔ آخر ہندوانہ طبقاتی نظام کے خلاف انھوں نے خاموش آندولن کیوں چلائی۔ کیا وجہ تھی کہ ہندو رسم و تہذیب سے نالاں ہوکر اسلامی نظام ثقافت کا مطالعہ کیا۔ پھر اس قدر متاثر ہوئے کہ جز وقتی اسلام قبول کرکے حج کے سفر پر روانہ ہوئے ۔۔ مکہ مدینہ کی سیر بھی کی۔ تاہم واپسی پر اپنی قوم کا بہیمانہ رویہ انھیں اسلام میں داخل ہونے پر آمادہ نہ کرسکا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ملک قیصر ہرقل کی بھی کچھ ایسی ہی مثال ملتی ہے۔
گرونانک کو عربی وفارسی پر ایسا عبور تھا کہ ان کے گرنتھ میں سینکڑوں الفاظ ان دو زبانوں کے ملتے ہیں۔ مخطوطات آصفیہ کی فہرست میں تو ان کے چند رسائل فارسی میں بھی مرقوم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مرنے سے قبل یہ وصیت کرگئے کہ ان کی قبر پر آیت الکرسی کی چادر چڑھائی جائے۔
آج بھی ان کی قبر پر آیت الکرسی کی منقوش چادر چڑھائی جاتی ہے۔ یہ ساری حکایتیں شرعی نقطہ نظر سے قطع نظر ہمیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف ہندوکشی و دشمنی کا الزام بے بنیاد و بے اصل ہے۔ جو کچھ ہمیں میڈیا اور فلموں میں بتایا جاتا ہے حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ سارے مسلم حکمراں اپنے سوچ وچار میں اسلامی اقدار کے پابند رہے ہیں۔ بلکہ سیاست وسیادت کی راہ میں ان کی بھی اپنی خامیاں ہیں جو ہر نابغہ زمانہ سے ہوتی ہیں۔ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جس قدر انھوں نے فنون تعمیر، صنعت وحرفت، طب و ریاضیات کو اہمیت دی اگر وہ دینی علوم کی نشر و اشاعت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو حرز جاں بنالیتے تو آنے والی تاریخ بھی ان کے ساتھ انصاف کی متقاضی ہوتی۔ ان میں بیشتر حکمرانوں نے سیاست، معیشت، تہذیب، معاشرت میں ایک اعلی امتیاز تو قائم کیا تاہم لوگوں کی اطاعت دین سے متعلق خاطر خواہ رہنمائی میں بے بضاعتی کا شکار رہے۔ حالانکہ اسلام کے اعتدال و توازن میں وہ تمام تر رہنمائیاں ہیں جن کی انسانیت کو ضرورت پڑتی ہے۔ خلافت راشدہ کا دور عروج اس کی عظیم مثال ہے۔ جنھوں نے دنیا کو انصاف ومساوات سے بہرہ ور کرایا، بین الاقوامی تعلقات کے زریں اصولوں کی بنیاد رکھی، غریبوں، مسکینوں، عورتوں کو ان کے حقوق دلائے۔ ہر طرف سے ان کا خیر مقدم کیا جانے لگا۔ یہ اسلامی تاریخ کے وہ اوراق ہیں جو ہم سے اوجھل ہیں اور ہم مادیت کے اس دور میں اس سے آگاہ نہیں ہونا چاہتے۔ ضروت ہے کہ ہم اپنی منزل کے نشانات کو دوبارہ تلاش کریں اور نمک کی کان میں مٹھاس کی تلاش نہ رکھیں بلکہ عزم مصمم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی زبوں حالی، سیاسی، معاشی، تعلیمی و دینی پس ماندگی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد نسيم بن نثار احمد

ان تاریخی حقائق سے لوگوں کو روسناش کرانا بے حد ضروری ہے کیونکہ عوام کو اس کا نہیں ہے

محمود الحق سلفی

معلوماتی تحریر
جزاک اللہ خیرا