نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پیشاب وپاخانہ کے آداب بتائے ہیں۔ ہمارے لیے وہ آداب کافی ہیں اس لیے مصنوعی تدابیر پیدا کرنے یا بدعتی امور انجام دینے سے بچنا چاہیے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إذا ذهبَ أحدُكمْ إلى الغائطِ فليذهبْ معَهُ بثلاثةِ أحجارٍ يستطيبُ بهنَّ فإنَّها تُجزئُ عنهُ (صحيح أبي داود:40)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی پاخانہ کے لیے جانے لگے تو اپنے ساتھ تین ڈھیلے لے جایا کرے، ان سے استنجاء کرلیا کرے، بے شک یہ اس کے لیے کفایت کریں گے۔
ایک طرف اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین ڈھیلوں سے استنجاء ہوجاتا ہے اور مکمل طہارت حاصل ہوجاتی ہے تو دوسری احادیث میں پیشاب سے بچنے اور اس کے چھینٹوں سے محفوظ رہنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ پیشاب سے نہ بچنا موجب عذاب ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:تنزهوا مِنَ البولِ، فإِنَّ عامَّةَ عذابِ القبرِ منْهُ (صحيح الجامع:3002)
ترجمہ: پیشاب سے پاکی حاصل کرو کیونکہ زیادہ تر قبر کا عذاب اسی سبب ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک بہت مشہور حدیث ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ دو قبروں کے پاس سے گزرے جن کو عذاب دیا جارہا تھا۔
صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:أمَّا أحَدُهُما فَكانَ لا يَسْتَتِرُ مِنَ البَوْلِ، وأَمَّا الآخَرُ فَكانَ يَمْشِي بالنَّمِيمَةِ (صحيح البخاري:1361)
ترجمہ: ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے لیکن یہ عذاب کسی مشکل بات کی وجہ سے نہیں۔ ان میں سے ایک پیشاب سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا تھا۔
صحیح مسلم میں “لا يَسْتَتِرُ”کے علاوہ “لا يَسْتَنْزِهُ عَنِ البَوْلِ، أوْ مِنَ البَوْلِ” (صحيح مسلم:292)آیا ہے۔ سنن نسائی کے الفاظ ہیں “أمَّا أحدُهُما فَكانَ لا يستبرئُ من بولِهِ” (صحيح النسائي:2068)
لا یستتر یعنی پیشاب سے پردہ نہیں کرتا تھا تاکہ جسم اور کپڑے کو نہ لگے، لایستنزہیعنی پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا، لا يستبرئُ یعنی پیشاب کے قطرات مکمل طور پر گرنے کا انتظار نہیں کرتا تھا۔ دیکھا جائے تو ان تینوں الفاظ کے مفہوم ایک ہیں اور وہ ہے پیشاب سے نہ بچنا۔ اسی سے متعلق صحیح الجامع کی حدیث ہے کہ جو پیشاب سے نہیں بچتا اسے عذاب دیا جاتا ہے۔
ان باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام نے ہمیں پیشاب اور اس کے چھینٹوں سے بچنے کی تعلیم دی ہے اور پیشاب کرنے کے بعد پاکی حاصل کرنے کا حکم دیا ہے لہذا ہمیں پیشاب کرنے میں اس کے چھینٹوں سے بچنے کا خیال کرنا چاہیے۔ پیشاب کے لیے نرم زمین یا پیشاب کی مناسب جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے اور پیشاب کرتے وقت جب پیشاب کے قطرات ختم ہوجائیں تو اولا پانی سے یا پانی نہ ملے تو پاک تین ڈھیلوں سے استنجاء کرنا چاہیے۔
ان باتوں کو لکھنے کی وجہ استبراء نامی ایک مضمون ہے جو لوگوں میں غلط فہمی پھیلارہا ہے۔ اس میں پیشاب سے پاکی حاصل کرنے میں حد سے زیادہ غلو کیا گیا ہے اور لوگوں کا وضو اور عبادت مشکوک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون میں یہاں تک زیادتی کی گئی ہے کہ استنجاء کا پانی جو شرمگاہ پر لگا ہے اس سے کپڑا ناپاک ہورہا ہے حتی کہ اس آمیزش والے پانی کو خواتین پر جنات وشیاطین کی آمد کا سبب بھی قرار دیا ہے۔ غصہ، حسد اور بغض اسی وجہ سے ہے۔ یہ سراسر جھوٹ اور غلو آمیز بات ہے۔ شرعا اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ ٹھیک اسی طرح کا شیطانی وسوسہ ہے جو نماز میں وضو ٹوٹنے کا خیال پیدا کرتا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے سوال کیا کہ میں نماز میں ہوتا ہوں تو شرمگاہ پر تری کا خیال پیدا ہوتا ہے تو آپ نے جواب دیا:
قاتل الله الشيطان إنه يمس ذكر الإنسان فى صلاته؛ ليريه أنه قد أحدث، فإذا توضأت فانضح فرجك بالماء فان وجدت قلت هو من الماء ففعل الرجل ذلك فذهب (مصنف عدالرزاق:583)
ترجمہ: اللہ شیطان کو غارت کرے کہ وہ نماز میں انسان کی شرم گاہ کو چھوتا ہے تاکہ اسے یہ خیال دلاسکے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے، جب تم وضو کرو تو اپنی شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے مار لیا کرو۔ اس کے بعد اگر ایسا خیال پائے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پانی ہے۔ اس آدمی نے ایسے ہی کیا تو یہ وسوسہ دور ہوگیا۔
دراصل احناف کے یہاں استنجاء کے بارے میں حد درجہ غلو پایا جاتا ہے، ان کے یہاں پیشاب کے بعد استنجاء سے پہلے ذکر (شرمگاہ) کو ہاتھوں سے قوت کے ساتھ نچوڑا جاتا ہے تاکہ پیشاب کے قطرات نالی سے بالکل صاف ہوجائیں اور استنجاء کے وقت ذکر اور خصیتین کو بھی دھلاجاتا ہے حتی کہ بعض لوگ پاخانہ کی جگہ بھی دھوتے ہیں۔ شرمگاہ کو قطرات کے لیے نچوڑنا بدعتی عمل ہے اور پیشاب کے استنجاء میں صرف اس جگہ کو دھلا جائے گا جہاں سے پیشاب نکلا ہے یعنی صرف شرمگاہ کا سرا۔ خصیتین یا مقعد دھونا غلو ہے، اس کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں اگر پیشاب کے چھینٹے جسم یا کپڑے میں کہیں پر لگ جائے تو پھر اسے دھونا ضروری ہے۔
پیشاب سے متعلق چند مسائل:
شرمگاہ نچوڑنے سے متعلق حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے، اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا:إذا بالَ أحدُكم فلينترْ ذَكرَه ثلاثَ مرَّاتٍ (ضعيف ابن ماجه:68)
ترجمہ: جب کوئی شخص پیشاب کرے تو عضو کو تین بار سونت لے (زور سے دبا کر کھینچے تاکہ اس کے اندر جو قطرات ہیں وہ نکل جائیں)
جب ڈھیلہ سے کامل استنجاء حاصل ہے تو پانی سے استنجاء کیوں مشکوک بتایا جارہا ہے اور رہا مسئلہ پیشاب کی نالی کا تو اسے خشک کرنے کا حکم نہیں ہوا ہے تاہم پیشاب کے قطرات گرنے ختم ہوجائیں یہ مطلوب ہے۔
استنجاء کا جو پانی شرمگاہ پر لگا ہے یا وہ پھر کپڑے کو لگے گا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، وہ پاک پانی ہے اور اسی طرح استنجاء کے بعد ہاتھوں پر لگا پانی بھی پاک ہے، مزید ہاتھ دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔
جس کو نماز میں پیشاب کے قطروں کا احساس یا وسوسہ ہو اس کو چاہیے کہ وضو کے بعد شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے مار لے اس طرح اس کا وسوسہ دور ہوجائے گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا:
علَّمني جبرائيلُ الوضوءَ وأمرني أن أنضَحَ تحت ثوبي لما يخرُجُ من البولِ بعد الوضوءِ (صحيح ابن ماجه:380)
ترجمہ: جبرائیل علیہ السلام نے مجھے وضو سکھایا اور مجھے اپنے کپڑے کے نیچے (شرمگاہ) پر چھینٹے مارنے کا حکم دیا کہ کہیں وضو کے بعد پیشاب کا کوئی قطرہ نہ آ گیا ہو۔ (تاکہ چھینٹے مارنے سے یہ شبہ زائل ہو جائے)
یہ چھینٹے نجاست دور کرنے کے مقصد سے نہیں ہیں بلکہ محض وسوسہ دور کرنے کے لیے اور وہ بھی صرف ان کے لیے جنھیں وسوسہ پیدا ہوتا ہو۔
پیشاب نکلنے میں دودھ کی مانند ہے، جس طرح تھن دبانے سے دودھ نکلتا ہے اور چھوڑ دینے سے بند ہوجاتا ہے اسی طرح پیشاب کے لیے ذکر پر زور دینا اور چھوڑ دینا ہے تاہم بعض لوگ پیشاب کے قطرات گرتے رہتے ہیں اور کپڑا چڑھالیتے ہیں، یہ عذاب کا باعث ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اصل استنجاء ہی نہیں کرتے۔
جس کو پیشاب کے قطروں کی بیماری ہے اس کو ہر نماز سے پہلے وضو کرنا ہے، وضو کے بعد گرنے والے قطروں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
گندگی والی جگہوں پر شیطان رہا کرتا ہے اس لیے ہمیں ایسی جگہ جاتے وقت اللہ کا نام لینے کی تعلیم دی گئی ہے۔ علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
سَترُ ما بين أعينِ الجنِّ، وعوْراتِ بني آدمَ، إذا دخل أحدُهم الخلاءَ أن يقولَ: بسمِ اللهِ (صحيح الترمذي:606)
جنوں کی آنکھوں اور انسان کی شرمگاہوں کے درمیان کا پردہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی پاخانہ جائے تو وہ بسم اللہ کہے۔
اس لیے پیشاب وپاخانہ کی جگہ داخل ہوتے وقت “بِسْمِ اللَّهِ،اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ”کہے اور واپسی پر غُفْرَانَكَ کہے۔
عذاب کا سبب پیشاب کرکے سرے سے استنجاء نہ کرنا یا پیشاب اور اس کے چھینٹوں سے جسم اور کپڑوں کو نہ بچانا ہے اور جو پیشاب سے بچتا ہے اور استنجاء کرتا ہے اس کو عذاب نہیں ہوگا۔
آخری بات یہ ہے کہ استبراء والا غلو آمیز مضمون آج کے بعد نہ پھیلائیں اور ذرا غور کریں کہ یہ احتیاط کرنے والے استنجاء کے متعلق اس قدر غلو کررہے ہیں اور وضو ونماز مشکوک بتارہے ہیں جبکہ کبھی احتیاطا مقتدی کو نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی تعلیم نہیں دیتے کہ ہوسکتا ہے کہیں ہماری نماز ہی نہیں ہوتی ہو یا احتیاطا رفع یدین کا حکم نہیں دیتے کہ کہیں ہم سے سنت تو نہیں چھوٹ رہی ہے لیکن پیشاب کے بہانے عبادت میں وسوسہ پیدا کر رہے ہیں۔ اس کی اصل وجہ تقلید ہے۔ جب تک تقلید کو دین سمجھا جائے گا تب تک تقلید کرنے والے دین کی اسی طرح تعبیر پیش کرتے رہیں گے۔ اللہ لوگوں کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور قرآن وحدیث پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
آپ کے تبصرے