دار العلوم ششہنیاں میں میرے کلاس میٹ تھے – چھ سال بعد جامعہ سلفیہ کے گیٹ پر ملے تھے – اس کے تین سال بعد ایک بار فون پر ذرا سی بات ہوئی تھی – تب کے بچھڑے ہوئے ہم آج یہاں آکے ملے – اس انٹرویو میں وہ ساری تفصیلات ہیں جو گزرے دنوں کی کہانی کہتی ہیں – عبد الوحید صاحب سے اب جب بھی ملاقات ہوگی تو ایسا لگے گا جیسے یہ فاصلہ زیادہ نہ تھا..
زیر نظر انٹرویو جو “دبستان اردو” کے مابہ الامتیاز سلسلے کی ایک کڑی تھا یہاں استفادہ عام کے لیے پیش کیا جارہا ہے.. (ابوالمیزان)
سوال 1: آپ اپنے نام و نسب اور خاندان کے بارے میں بتائیں.
عبدالوحید بن عبدالقادر بن محمد بشیر…
گاؤں میں ہمارا گھرانا بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. دین سے محبت اور سلفیت کی آبیاری کا جذبہ وراثت میں ملا. گھرانے میں عالم دین، ڈاکٹر گریجویٹ بھی ہیں. سسرالی رشتے میں تو اطباء کی پوری ٹیم ہی مل گئی
سوال 2: آپ کا تعلق کس علاقے سے ہے، اپنے گاؤں، خاندان اور ابتدائی تعلیم کے بارے میں روشنی ڈالیں.
میرا تعلق ضلع سدھارتھ نگر نوگڑھ کے قریب ایک مسلم اکثریتی علاقے سے ہے جو امہوا (کونڈرا گرانٹ) سے موسوم ہے. یہاں کی اک بڑی علمی شخصیت مولانا عارف سراجی رحمہ اللہ صاحب “نوادرات” کی ہے جو ملکی تناظر میں جماعت کے ابن بطوطہ کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں. دوسری معروف شخصیت شیخ عبدالعزیز شاہین النذیری کی ہے جو اردو اور عربی ادب کے ماہر ہیں عموما جلسوں اور کانفرنسوں میں نظامت کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں. میرے استاد بھی ہیں.
ابتدائی تعلیم کی شروعات ممبئی میں اہل حدیث مسجد ساقی ناکہ خیرانی روڈ سے شروع ہوئی اور پھر اپنے علاقے کے اک مکتب میں ختم ہوئی. متوسطہ کی تعلیم دارالعلوم ششہنیاں میں ہوئی. اس کے بعد ندوۃ العلماء جانے کا ارادہ ہوا تھا پر خوش نصیبی جامعہ سلفیہ کھینچ لائی
سوال 3: عبدالوحید نام بہت پیارا ہے، کس نے رکھا، کوئی خاص پس مناسبت، اس نام کا کچھ اثر آپ کی شخصیت پر؟
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سب سے پہلے آپ تمام علماء کرام اور مفکرین کا تہہ دل سے شکریہ.
میری سات ماہ کی ننھی بیٹی عفاف دو چار دنوں سے ناساز تھی اب اس کی طبعیت کچھ سنبھل رہی ہے. فیملی زندگی میں ہاتھ بٹانا زندگی کو مزید خوشگوار کردیتا ہے اس لیے گاہے بگاہے جواب میں تاخیر کے لیے معذرت. کوشش کرونگا تمام سوالات کے جوابات بقدر امکان دے سکوں.
سرفراز بھائی: والدین سے سنا کہ جب میرا نام رکھا جارہا تھا تو عبدالوحید اور ریحان کے درمیان اختیار کا مسئلہ درپیش تھا لیکن غالب اکثریت نے عبدالوحید کے حق میں ووٹ دیا اور میں رزلٹ کے طور پر عبدالوحید کے ساتھ موسوم ہوا.
اس نام کا مجھ پر کیا اثر ہے یہ تو حلقہ یاراں پر چھوڑتا ہوں البتہ انڈیوجول صلاحیتوں کو آزادی کے ساتھ نکھرنے اور ہمت افزائی کرنے میں یقین رکھتا ہوں.
سوال 4 : سدھارتھ نگر کے لوگ اتنے ذہین کیوں ہوتے ہیں، ان کا سلسلہ نسب کسی عبقری شخصیت سے جڑتا ہے کیا؟
میں اتنے عموم کے ساتھ تو نہیں کہ سکتا پر کچھ بات ضرور ہے. اللہ کا خاص فضل وکرم. دینی خطوط پر گھریلو تربیت. زمانے سے علماء وفضلاء کا ماحول، دینی بیداری اور یہاں کی خمیر میں بلا کی زرخیزی بھی شاید…
سوال 5 : ندوۃ العلماء جانے کا ارادہ کیوں ہوا، وہاں سے ارادہ جامعہ سلفیہ کی جانب کیسے پھر گیا، جامعہ سلفیہ جانے کو خوش نصیبی پر کیوں محمول کرتے ہیں؟
بہترین سوال ہے.
جب متوسطہ کی تعلیم کمال کو پہونچی تو باہر نکلنے کا فیصلہ میرے لئے کافی مشکل تھا چچا زاد بھائی شاہین نذیری صاحب کی شدید خواہش تھی کہ زبان و ادب میں مہارت حاصل کروں. اس سلسلے میں وہ ندوہ سے مراسلت بھی کئے، سیٹ فل ہوچکی تھی آئندہ سال کے لئے اجازت مل چکی تھی پر میرے پاس انتظار کا وقت نہ تھا. دوسرا آپشن جامعہ سلفیہ کے لئے پِری پلانڈ تھا اکیلے ہی رخت سفر باندھا اتفاق سے شیخ مستقیم صاحب ٹرین میں ہم سفر ہوگئے پھر کیا تھا پوری راہ نصیحتوں کا سیل جرار ہضم کرتا رہا. چونکہ سلف کے منھج پر دین سیکھنے کا جذبہ موجزن تھا اور کچھ لوگوں کے بتانے پر جامعہ سلفیہ کی علمی حیثیت کا مزید اندازہ ہوا تو پھر کوئی اور آپشن دل کو راس نہ آیا
سوال 6 : نوگڑھ کے علاقے میں میلوں تک صرف اہل حدیث بستے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں؟
نصیر الحق صاحب خود بھی اچھے ہیں اور اپنے سوالوں کے ساتھ اوربھی اچھے لگنے لگتے ہیں.
یقینی طور پر اہلحدیثیت کے معاملے میں یہ علاقہ کافی زرخیز رہا ہے. میرے علم کے مطابق مولانا عبدالرؤوف جھنڈا نگری، مولانا عبدالجليل رحمانی، مولانا عبدالسلام بستوی ، شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ مبارکپوری صاحب مرعاۃ اور شیخ المحدثین علامہ عبدالرحمان مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوزی رحمہم الله کی دعوت و تبلیغ کا ثمرہ ہے. اس پر مستزاد جلسوں کی کثرت اور علماء حق کی روز افزوں تعداد اور مدارس کے وجود نے جماعت اہل حدیث کو پھلنے پھولنے کا کافی موقع فراہم کیا.
سوال 7 : آپ کی ابتدائی تعلیم مکتب ہوئی اور ہم میں سے اکثریت کی بھی، ہمارے مکاتب اور وہاں کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
اس میں کوئی شک نہیں. آج مکاتب کی حالت زار پر رونا آتا ہے. پرائمری تعلیم بے توجہی کا شکار ہے. اس کی بانگ ڈور عموما نااہل سیٹھوں، جاہلوں، علم دشمنوں اور غیر تدریب یافتہ ہاتھوں میں ہے. کسی کو منھج تعلیم میں تبدیلی، اسلوب میں تحسین اور تعلیمی سیکٹر میں اچھے تجربات امپورٹ کرنے کا کوئی جذبہ نہیں اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا عام ہے.
دوسری عالمی جنگ میں جاپان نے تعلیم کا اک ماسٹر پلان تیار کیا اور اس کے تحت تمام اچھی صلاحیتوں کا استعمال پرائمری مرحلے میں کیا اور آج اس کا نتیجہ سامنے ہے. شاید ابتدائی تعلیم کا سب سے بہتر نظام انہیں کے پاس ہے.
مکاتب کو ترقی کی دہلیز پر پہونچانے کے لئے اچھے تجربات کے تطبیق کی ضرورت ہے. تعلیم یافتہ لوگوں کو آگے بڑھنے، سیٹھوں کے چندے پر انحصار کم کرنے، باقاعدہ تعلیم یافتہ لوگوں کو اس مرحلے سے جوڑنے، جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے، جلسوں سے زیادہ ان مکاتب پر خرچ کرنے، اچھی سیلری کا انتظام اور خلوص نیتی کے ساتھ قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے جوش وجذبہ سے مسلح ہونے کی ضرورت ہے.
سوال 8 : آپ ذہین تھے حفظ کیوں نہیں کیا؟
یہ لوگوں کی ذرہ نوازی ہے جو مجھے قوی الحفیظ گردانتے ہیں.
اصل میں جس ماحول میں تعلیم حاصل کی وہاں عالم بننے بنانے پر بڑا زور تھا کسی نے حفظ کے سلسلے میں کبھی رہنمائی نہیں کی. میں نے مشاہدہ کیا کہ لوگ ان دونوں کے درمیان غلط سوچ کے شکار ہیں. جب شعور میں بالیدگی آئی تو حفظ کا جذبہ جگا شاید تب تک کافی دیر ہوچکی تھی. البتہ جب بھی کوئی سورہ یاد کرتا تو بہت جلد از بر ہوجاتا لیکن بد قسمتی کہ اس پر استمرار نہ رہ سکا
سوال 9 : آپ کے خاندان میں کون کون عالم ہیں؟
میرے خاندان میں اس وقت مجھ سمیت 4 عدد علماء ہیں.
مولانا عبدالسلام سلفی جو اک عرصے تک دھراوی کی اہل حدیث مسجد میں امام خطیب رہے ہیں اور آج کل اک کامیاب بزنس مین ہیں ممبئی ہی رہتے ہیں. دوسرے مولانا عبدالعزیز شاہین النذیری ہیں جو جامعہ دارالعلوم ششہنیاں میں مدرس ہیں اور سدھارتھ نگر کے اکثر جلسوں میں نظامت کرتے نظر آتے ہیں. تیسرا خاکسار جو خدمت پر ابھی مامور ہے اور چوتھا جاوید مصطفی جو بونڈھیار سے فارغ اور اس وقت جامعۃ الملک سعود میں زیر تعلیم ہے. کافی ذہین اور خاموش طبع ہے.
سوال 10 : عملی میدان کا پہلا سفر آپ نے امامت سے آغاز کیا اس کے تلخ اور شیریں تجربات پر روشنی ڈالیں.
شیخ سچ فرمایا آپ نے. فراغت کے بعد آپ مخلصوں کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے شیرور کرناٹک کا رخ کیا. مجھے لگا اڑپی دعوہ سنٹر میں سٹنگ ہوگئی ہے مگر آنے کے بعد معلوم ہوا کہ سنٹر کے زیر اہتمام اک اہل حدیث مسجد تعمیر ہوئی ہے اور فوری کوئی امام و خطیب دستیاب نہیں ہے اس لیے چند مہینوں اس تجربے سے گزرا. اچھے لوگ تھے بڑی محبتیں ملیں پر میں اپنے آپ میں اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کی صلاحیت نہیں پاتا تھا اور نہ ہی ذہنی طور پر اس کے لیے تیار تھا. لیکن اللہ کے فضل سے چار ماہ بلا نوک جھونک بحسن و خوبی گزر گئے.
اس پرآشوب دورمیں امامت کی ذمہ داری جس نے نبھا لیا وہ زندگی کے ہر محاذ پر ٹکراؤ کے بغیر رواں دواں رہ سکتا ہے.
اللہ اماموں کو صبر جمیل اور اجر جمیل سے نوازے
سوال 11 : شیخ عبیداللہ طیب جامعہ سلفیہ میں آپ کی عبارت فہمی اور ذہانت کی بہت تعریف کرتے تھے، یہ بتائیں کہ عربی میں کن کتابوں کا آپ نے مطالعہ کیا؟
جامعہ سلفیہ کے دور میں عربی کی مراجع و مصادر کی کتابوں سے زیادہ سابقہ پڑا، عربی کی کوئی جدید کتاب مل جاتی تو ضرور مطالعہ کرتا. بعد میں لطفی منفلوطی کی العبرات، النظرات، عقاد کی عبقریات مصری کاتبوں کی کچھ تحریریں، صوت الامۃ اور البعث الإسلامي، الفرقان کویت وغیرہ. بعد میں علی طنطاوي کی بیس سے زائد کتابیں جو میرے پاس ہیں بھی. علی میاں کی ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين، لا تحزن اور عائض قرنی کی دوسری شاہکار یں عربی کی کئی ایک ناولیں مثلاً تحت ظلال الزيتون (ماجدولین)، مشرق وسطٰی کے سلسلے میں چھپنے والے مختلف مقالات و مضامین اور جب سعودی میں رہا تواتر کے ساتھ عربی اخبارات سے تین یا چار کالم مختلف موضوعات پر پابندی سے پڑھتا رہا. ترجمہ کے تخصص کے سبب ان سب کی ضرورت بھی زیادہ پڑتی تھی
سوال 12 : لکھنے کا شوق کب سے ہوا، اس سلسلے میں اپنے تجربات شیئر کریں.
لکھنے کا شوق جامعہ سلفیہ کے ماحول سے سیکھا تقریباً تمام تحریری فیلڈ میں مثلاً مسابقات، حائطیہ المنار، مجلہ المنار اور کچھ اشعار سازی بھی کرلیتا تھا. لاکھ جتن کے باوجود شاید تحریرمیں پختگی نہ آسکی ، آپ کے بھائی خبیب حسن صاحب کچھ دیر پہلے میرے المنار میں چھپے کچھ مضامین کی نشاندہی اور رہنمائی بھی کررہے تھے جو اچھا بھی لگا. مگر نقد کی پروا کے بغیر لکھتا رہا. کئی مقالات بھی لکھا، علمی مسابقوں میں مشارکت کرکے کامیاب بھی ہوا. الأمن الفكري وأثره على الشباب لکھا تو علی مستوی الجامعہ تیسری پوزیشن آئی. اس وقت آٹھ ہزار ریال کا گرانقدر تحفہ اور سرٹیفکیٹ بھی ملی. دسیوں بار کمپٹیشن میں کامیابی ملی اور اللہ کے فضل سے بیسیوں ہزار ریال سے زائد کا نقدی انعام بھی حاصل کیا. التدخين وآثاره السيئة على الفرد والمجتمع، المسلمون حول العالم… مسلمو الهند، الابتزاز، اليهود قديما وحديثا الأيادي الخفية وراء الفتن اور مذكراتي في السعودية نمونے کے طور پر ہیں کچھ کتابوں اور اور مقالات کا ترجمہ بھی کیا اور ادھر وقتا فوقتاً اردو میں بھی مافی الضمیر کی ادائیگی کرلیتا ہوں. اس وقت الحمد للہ اپنے ادارے جامعہ دار السنہ شيرور کرناٹک سے شائع ہونے والے دو ماہی مجلہ نداء السنہ کا ایڈیٹر بھی ہوں.
سوال 13 : جامعہ سلفیہ میں داخلے کے بعد پھر کبھی آپ کو لگا کہ مجھے اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے کہیں اور جانا چاہیے؟
ہمارے بہت خاص دوست جناب عبدالرحمن صاحب اہلا و سهلا
جناب جامعہ سلفیہ کی درو دیوار نے علم کے سمندر بہائے پھربھی اس کے جیالوں اور علم کے سلطانوں کی تشنگی نہ بجھی. میں تو اک ادنی طالب ٹھہرا جو لاکھ کوششوں کے باوجود علم کے حاشیے پر رہا. علم کے بحر زخار کا کوئی ساحل نہیں. سلفیہ میں اس ساحل کی تلاش میں خوب غوطہ زنی کی مگر سیرابی حاصل نہ ہوسکی. عقابی روح نے سمندر پار کے بہت خواب دکھائے بالآخر اس کی تعبیر کسی حد تک جامعہ الملک سعود میں آپ کی رفاقت کے بعد پوری ہوئی. مگر علمی تشنگی اب بھی جیسی کی تیسی ہی ہے.
سوال 14 : آپ کی تحریر کردہ کتاب “مذکراتی فی السعودیۃ” کو جامعۃ الملک سعود کے ادارۃ المنح نے جامعہ کے پریس سے چھاپا جو آپ کے لئے باعث اعزاز ہے، اس پر کچھ روشنی ڈالیں.
آپ سب کی ذرہ نوازی کا شکریہ
یقینی طور پر بڑی خوشی ہوئی
مجھے اس سلسلے میں پیشگی کوئی خبر بھی نہ ملی تھی مدیر ادارۃ المنح کا اچانک فون آیا کہ آج “مھرجان ثقافۃ الشعوب” میں مدیر الجامعہ کے ہاتھوں تمہاری تکریم ہوگی بس وہاں حاضر رہنا. وہاں پہونچ کر میں نے مشاہدہ کیا کہ ہر طرف میری تصویر کے ساتھ کتاب کا بینر لگا ہوا ہے. بہر حال مدیر الجامعہ کے ہاتھوں تکریم ہوئی ایک آئی پیڈ بھی ملا اس سے پہلے ادارۃ المنح نے تحریری مسابقے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر اسی مقالے کے لیے تین ہزار ریال اور سند توصیفی سے نوازا تھا. میں اس منظر کو آج بھی بھلا نہیں پاتا جب بھی یاد کرتا ہوں تو جذباتی ہوجاتا ہوں. لفظوں میں تعبیر نہیں کر سکتا. یقینی طور پر یہ تمام وافدین طلبہ کے لیے بڑے فخر کی بات تھی، ایسا پہلی بار جامعہ میں ہوا تھا کہ کسی منح کے طالب کے مسابقتی مقالے کو جامعہ کے پریس سے چھاپا گیا ہو.
سوال 15 : آپ کی نظر میں پیسے کی کتنی اہمیت ہے؟
جناب میری نظر میں مال زر بڑے کام کی اور کمال کی چیز ہے اگر مصدر و مصرف شرعی حدود میں ہوں تو. اغنیاء صحابہ اور متمول محدثین ہمارے لئے حجت ہیں. کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ مادیت کے اس دور میں اس سے کنارہ کشی ممکن نہیں. مال زکوٰۃ کے نظم و نسق کے سلسلے میں آپ کا اک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا بڑا معیاری تھا. اک کاتب نے ہندوستان میں مسلمانوں کے مال زکوٰۃ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر مسلمان منظم طور سے زکوٰۃ کی وصولی کریں اور ہر صاحب استطاعت پچاس یا سو روپے چندہ کے طور پر دے تو اک محتاط اندازے کے مطابق اک ہزار کروڑ سے زیادہ رقم اکٹھی ہوگی اس کے زریعہ مسلم قوم ہر سال مسلمانوں کے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے بغیر سرکاری بھیک کے، اور چند سالوں میں مسلمان تعلیمی لحاظ سے خود کفیل ہو جائے گا پھر اس کو اکسپلائٹ کرنا سیاسی شعبدہ بازوں کے لئے آسان نہ ہوگا. ہمارے ہر پروجکٹس چاہے گھریلو ہوں یا تعلیمی دعوتی تعمیری یا تربیتی ہوں ہر ہر قدم پر پیسوں کی ضرورت ہے اس لئے پیسوں سے بے نیازی کا درس دینے کے بجائے کسب حلال اور صحیح مصرف پر زور دیا جائے. علماء طبقہ ہی سب سے نچلے پائیدان پر ہے اس لئے وہ کبھی کبھی مالداروں کے مال کے لیے اپنی خود داری اور خودمختاری کا سودا بھی کردیتے ہیں.
امامت تو میری مجبوری تھی البتہ تدریس کو رزق کا ذریعہ بنانا زندگی کی ضرورت جیسی لگی میرا خیال ہے کہ یہ میرے لیے موقتا ہے دوسرے راستوں کی تلاش جاری ہے
دعا ہے کہ اللہ علماء کو معاشی طور پر خوشحال اور خود کفیل بنائے تاکہ پورے عزت وقار اور خود داری کے ساتھ امت کے کاز کو آگے بڑھا سکیں.
سوال 16 : آپ نے جنوبی کرناٹک کے ایک نہایت اہم اسکول “Green Valley” میں کچھ مدت گزاری ہے، اپنے تجربات کے بارے میں لکھیں.
شیخ: گرین ویلی نیشنل اسکول GVNS ان چند معیاری اسکولوں میں سے ہے جس پر شیرور کے باسی بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں.
اسلامک ٹیچر کی حیثیت سے میرا وہاں تقرر ہوا بچوں کو اسلامک اسٹڈیز کا اک سلسلہ پڑھاتا تھا جو شاید دبئی کے اسکولوں میں شامل نصاب ہے. اس ادارہ میں میں نے نظم ونسق، انتظام و انصرام کا ایسا ماحول دیکھا جو خال خال ہی نظر آتا ہے. یہاں ذہن سازی، شخصیت سازی اور فن کا ماہر پروڈیوس کیا جاتا ہے. صفائی ستھرائی کا انتہائی زبردست نظام، مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہمارے مدارس میں جن آداب کی زیادہ ضرورت تھی وہ ان اسکولوں میں بڑے سلیقے سے برتے جاتے ہیں.
مسلمانوں کا قائم کردہ انگلش میڈیم کا نہایت ہی معیاری اسکول اور اب کالج ہے. یہاں کے طلبہ کو یورپ وامریکہ کا تعلیمی ٹور بھی کرایا جاتا ہے
سوال 17 : سعودی حکومت کے مسلم امہ پر احسانات اور اس کے مثبت پہلو پر آپ خوب لکھتے ہیں اس کا راز کیا ہے؟
ہاں شیخ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مملکت سعودی عرب کی پوری دنیائے انسانیت، امت مسلمہ اور ہم امت طلبہ پر بڑے احسانات ہیں. اس کی دفاع کو میں حق کا دفاع اور اس سے دینی لگاؤ عقیدہ توحید سے لگاؤ اور محبت پر محمول کرتا ہوں. سوچتا ہوں اگر قلم کے ذریعہ ہی کچھ کرسکتا ہوں تو کرتا رہوں اور اسی بہانے اس کے احسانات کے بوجھ کو ذرا جنبش دے سکوں . میرے مضامین “شاہ سلمان اور جدید چیلنجز” “داعش، سعودی عرب اور علماء سعودی کا موقف” “سعودی عرب شازشوں کے نرغے میں اور مسلم ممالک کا حال زار” “شاہ عبداللہ عہد حکومت اور کارنامے” “صحرائے عرب میں علم کا مینار جامعۃ الملک سعود” وغیرہ جو ہمارے ادارے جامعہ دارالسنہ کے دوماہں مجلہ نداء السنہ میں شائع ہوچکے ہیں، کچھ مجلہ افکار عالیہ میں بھی نشر ہوئے اور اکثر شوشل میڈیا کے حوالے بھی کئے گئے ہیں. فیس بک کے میرے اکاؤنٹ پر بھی دستیاب ہیں.
سعودیہ کی دینی، تعلیمی، تصنیفی اور انسانی خدمات پر اک کتاب لکھنے کا ارادہ ہے. بس دعا کریں
اللہ سعودیہ کو درخشندہ اور تابندہ رکھے اور حاسدین کے شر سے محفوظ رکھے
سوال 18 : سلفیوں پر الزام ہے کہ یہ بدعت کی توپ خوب چلاتے ہیں جبکہ ان کا نام اہلحدیث اپنے آپ میں خود بدعت ہے، آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
جاوید صاحب کے وچار بڑے دھار دار ہوتے ہیں اور اپنے ہم منہج لوگوں پر بڑی تیزی سے چل جاتے ہیں.
اہل حدیث اک صفتی نام ہے اور اس کا بدعت سے کوئی جوڑ نہیں، اور ہاں جب بھی ہم اصطلاح بدعت کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے دین میں کسی شئ کا عبادت سمجھ کر یا دین کا جزء سمجھ کر کر نے پر اطلاق کرتے ہیں. صحابہ کرام پر صفتی نام کے طور پر حفاظ صحابہ، کاتبین وحی، مہاجرین صحابہ، انصاری صحابہ اصحاب صفہ وغیرہ کا اطلاق ہوتا رہا ہے، اس لیے نام اگر بہتر ہے تو اپنانے میں کوئی حرج نہیں اور جب اسم بامسمی ہو تب تو سونے پر سہاگہ اورسلفیت و اہلِ حیثیت کا یہ طرہ امتیاز ہے. یہ موضوع یا یوں کہیں اس حوالے سے پرایوں کا اتہام ہم پر بڑا پرانا ہے. اس حقیقت سے نقاب کشائی کے لئے کتاب “شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي (غالبا شیخ رفیق سلفی کا ترجمہ بھی اویلیبل ہے)” سلفیت کا تعارف اور اس متعلق بعض شبہات کا ازالہ ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ اور مولانا اسحاق بھٹی اور مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہم اللہ کی تحریریں آپ کے لئے بے حد مفید ہونگیں اگر تلاش حق مقصود ہے تو. ورنہ الزامات کا سلسلہ جاری رہے گا اور جماعت اہل حدیث بھی منھج سلف کے اصولوں پر پورے آن بان اور شان کے ساتھ جاری رہے گی ان شاء اللہ.
سوال 19 : جامعۃ الملک سعود کی تعلیم، نصاب اور نظام تعلیم پر روشنی ڈالیں.
سرفراز بھائی کا سوال بڑا خوبصورت بھی ہےاور سینسٹیو بھی.
کسی کی دل آزاری نہ ہو اس لئے میں مقارنہ سے اجتناب کرتے ہوئے جامعۃ الملک سعود کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا. جامعۃ الملک سعود بہت حد تک ہندوستان و بیرون ہند پھیلے عصری جامعات کے مانند ہے. اس کے ماتحت قریب تیس کالجز چلتے ہیں جن میں بیس سے زائد کیمپس کے اندر ہی ہیں. معہد اللغویات العربیہ اور کلیۃ التربیۃ کے قسم الدراسات الاسلامیہ کے علاوہ تمام کالجز اور ڈپارٹمنٹس عصری علوم کی آماجگاہ ہیں طرز تعلیم امریکن نظام تعلیم کے طرز پر ہے( اس سے میری مراد سیمسٹر بیسڈ نظام تعلیم، نصابی کتابیں، منھج تدریس، امتحان اور درجات کی تقییم یعنی ایویلویشن وغیرہ). جامعہ میں ستر ہزار سے زائد طلبہ اور قریب دس ہزار کا اسٹاف. مرد و زن کے تعلیم کا علیحدہ انتظام ہے اختلاط کا کوئی مسئلہ نہیں. ایک خاص بات یہ ہے کہ “مواد إعداد عام” کے نام سےچار یا پانچ مادوں کا اک یونیفائڈ نصاب ہے جو اسلامیات کے طلبہ کے ساتھ عصری علوم کے طلبہ لئے بھی لازمی ہے. وہ مادے کچھ یوں ہیں : مقدمة في الثقافة الإسلامية. النظام السياسي في الإسلام، النظام الاقتصادي في الإسلام، الإسلام و بناء المجتمع، مهارات اللغة العربية وغيره يہ سب کے لئے لازمی مادے ہیں. تدریس میں کتاب کے بجائے فن کی تدریس پر زور ہوتا ہے، سوال پوچھنے کا آزادانہ ماحول، تمام کلاس روم جدید وسائل تعلیم سے آراستہ و پیراستہ، ہارڈویئر بکس کے بجائے سافٹ بکس کے استعمال پر زور، بلیک بورڈ کے نام سے جامعہ کی طرف سے آن لائن فری بکس کی سروس جہاں سے طلبہ بہت سارے مادے آن لائن پڑھ سکتے ہیں اور استاد کو اسی پر اپنے ہوم ورک بھی شیئر کرسکتے ہیں، ہر کالج میں وائ فائی کی مفت سہولت طلبہ کو جامعہ میں ہونے والے تمام اکٹیویٹیز سے باخبر رکھنے کے لیے جامعہ کا خاص ٹویٹر اور فیسبوک اکاؤنٹ اور جامعہ کی اکٹیو ویبسائٹ، طلبہ کے ہاسٹل میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ 24 گھنٹے فری. شاہ سلمان کے نام سے موسوم مرکزی لائبریری جو 25 لاکھ سے زائد کتابوں پر مشتمل ہے اور مشرق وسطی کی سب سے عظیم لائبریری شمار کی جاتی ہے. شاہ خالد ہاسپٹل جہاں طلبہ اور اسٹاف اور انکی فیملی کے لیے ہر طرح کا علاج فری. کانفرنس اور سیمنار کا سلسلہ پورا سال قائم رہتا ہے. کھیل کود، آؤٹ ڈور اور ان ڈور ہر طرح کے کھیل کے سازو سامان، سوئمنگ پول، عالمی معیار کا اسٹیڈیم ان سب کے ساتھ تعلیم کا آزادانہ ماحول. غرضیکہ خوابوں کی دنیا ہے. اخلاص کے ساتھ پڑھنے اور سیکھنے والے کے لیے ہر طرح کا نظم و نسق اور سہولت اور ٹائم پاس کرنے والوں کے لیے کھانے پینے کھیلنے اور اوڑھنے کی تمام نعمتیں.
سب خوبیاں سمیٹنے کے لیے اک کتاب درکار ہے.
سوال 20 : آپ نے IELTS کا امتحان دیا جو انتہائی اہم ہوتا ہے، اپنے تجربات شیئر کریں.
شمس الرب صاحب کا دلچسپ سوال اور تفصیل طلب بھی.
مجھے لگتا ہے “ما المسؤول عنها بأعلم من السائل” کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے. آج ہی آنجناب کے فیس بک اکاؤنٹ کی سیر کررہا تھا معیاری انگلش دیکھ کر لگا کہ ILETS جناب کے لیے شاید پروفیشنل ضرورت کی تکمیل کا کام دے ورنہ انگلش مہارت کی نکھار کے لیے اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں.
مجھے اس امتحان کی پہنائیوں میں سیر کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب میں نے ایم اے کے لئے اپلائ کیا. مناهج و طرق تدريس اللغة کے تخصص میں داخلے کے لیے شرط تھا. اس کے ساتھ ہی قسم الإعلام Mass communication میں بھی اپلائی کردیا تھا. British Council کی آفیشل ویب سائٹ میں اس امتحان کے لیے رجسٹریشن کرنے کے بعد (جس کی فیس قریب اک ہزار ریال ہے) تیاری شروع کیا. ٹیسٹ کے لئے محض دس دن یا اس سے بھی کم تھے. میں نے سوچا امتحان تو دینا ہی ہے چاہے بغیر تیاری ہی کے کیوں نہ ہو . انگلش میری کچھ خاص نہیں مگر عزم جواں تھا. کتابوں کی تلاش شروع کیا، اس وقت پیسے کی قلت اور مطلوبہ کتابوں کی گرانی کے سبب میرے لئے کافی دشواری ہوئی اتفاق سے اک دکتور جو میرے کلیہ کے استاد تھے اور ان کی آفس میں ان کے ترجمہ اور مراجعات کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا تھا ان سے خوشخبری ملی کی اس سلسلے کی کتاب ان کے پاس دستیاب ہے. بہر حال کتاب ملنے کے بعد تیاری میں لگ گیا. انٹرنیٹ سے کافی مدد ملی. یوٹیوب اور برٹش کونسل وغیرہ پر پریکٹیکل میٹیریل ٹھیک ٹھاک دستیاب تھے مزید برآں اس امتحان میں رجسٹریشن کے بعد ایمیل کے ذریعہ اک لنک بھی فراہم کی جاتی ہے جس سے اس امتحان کی ساری تفاصیل سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے. اور انٹریکٹیو ویڈیو کے ذریعہ بڑے اچھے انداز میں اس کی مختصر پریکٹس بھی ہوجاتی ہے. دکتور کی فراہم کردہ کتاب سے (جو ہر سال نئے ایڈیشن کے طور پر مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہے ) کچھ تفصیلی مطالعے کا موقع ملا. اس طرح ٹوٹی پھوٹی تیاری کے ساتھ برٹش کونسل کی ریاض آفس پہونچا اور امتحان دیا بھی. اس نوعیت کا یہ پہلا تجربہ تھا اور الحمد للہ بڑی حد تک کامیاب رہا. انگلش کے چار مہارات لسننگ، ریڈنگ، اسپیکنگ اور رائٹنگ کا بڑا معیاری امتحان ہوتا ہے. ہر سکشن کے لیے فکس ٹائم اور نقل و نا انصافی کا کوئی چانس نہیں.
آج کل اس امتحان کے لیے باقاعدہ ٹریننگ سینٹر کھلے ہوئے ہیں اور اچھی خاصی فیس کے ساتھ تیاری کرائی جاتی ہے تاکہ متوقع نمبرات حاصل کرنے میں کوئی دقت نہ ہو.
اس سلسلے میں کچھ خاص کتابوں کی نشاندہی مشکل ہے البتہ اس امتحان کے سلسلے میں ہر سال چھپنے والے جدید نسخے کا مطالعہ کافی مفید ہوگا. اس کے علاوہ یوٹیوب، گوگل، وکیپیڈیا، برٹش کونسل کی ویب سائٹ پر اچھا خاصا مواد دستیاب ہے. ایک بات کہونگا کہ اس سلسلے میں اکسٹرا مطالعہ بہت اہمیت کا حامل ہے. تعلیم، اقتصاد، طب، سیاست، اسپورٹس، انوائرنمنٹ، ٹرانسپورٹ، انرجی اور اکیڈمک سے متعلق جدید مضامین، معلومات اور مفردات پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے. یہ امتحان سبجکٹو اور آبجیکٹو دونوں طرح کا ہوتا ہے. ریڈنگ اور لسننگ میں آبجیکٹو اور رائٹنگ اور اسپیکنگ میں سبجکٹو طرز غالب ہے. انگلش زبان میں عالمی پہچان اور تعلیمی ضروریات کے لیے اسے بہت ضروری سمجھا جاتا ہے.
ILETS: International English Language Testing System (British Version)
يعني انگلش زبان کے امتحان کا عالمی نظام. یہ امتحان کثیر المقاصد ہے، اور یہ ان کے لیے ضروری ہوتا ہے جن کی مادری زبان انگلش نہ ہو اور وہ کسی انگلش اسپیکنگ ملک میں اعلی تعلیم کے خواہاں ہوں، یا کسی کمپنی میں ملازمت کے متمنی ہوں یا کسی ایشین یونیورسٹی میں بعض اہم تخصصات میں داخلہ لینا چاہتے ہوں. یہ انگلش کا بہت ہی معیاری امتحان ہے جو پوری دنیا میں معتبر ہے.
اسی طرح کا ایک امتحان
ToEFL: Test of English as Foreign Language (American Version)
یہ امتحان بھی اسی معیار کا ہے. اکیڈمک اور پروفیشنل ناحیے سے پوری دنیا میں بڑی اہمیت کا حامل ہے.
مجھے لگتا ہے میں نے کچھ زیادہ ہی تفصیل سے کام لے لیا.
سوال 21 : دینی مدارس کے مروجہ نصاب کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
جاوید صاحب میرا ماننا ہے کہ مروجہ نصاب پر بحث ومناقشے کی ضرورت ہے اور تبدیلی بھی ممکن ہے. تبدیلی سے میری مراد اسلوب تعلیم، وسائل تعلیم، دیوبند سے چھپی حدیثوں کی پریشان کن طباعت کو ریپلیس کرنے، جدید طرز پر اساتذہ کی ٹریننگ اور کتاب کے بجائے فن پڑھانے پر زور ہونا چاہیے. اسلامیات اور دینیات کی تعلیم کے سلسلے میں سعودی نظام تعلیم اور نصاب سے بھرپور استفادہ کی گنجائش ہے.
سوال 22 : ریاض میں پڑھنے والے طلبہ کی کارکردگی کیسی ہے؟
ریاض میں پڑھنے والے طلبہ کی حالت اطمینان بخش تو ہے مگر مزید محنت لگن اور اخلاص کی ضرورت ہے تاکہ جن کو یہ سنہرا موقع ملا ہے وہ علم کی موتیاں سمیٹ لیں. کسی بھی صورت میں اپنے تعلیمی مقاصد کو پس پشت ڈال کر وقت ضائع کرنے سے بچنے کی ضرورت ہے
سوال 23 : جو ہندوستانی طلبہ سعودی جامعات میں زیر تعلیم ہیں ان کی جد و جہد اور تعلیمی کار گزاری کے بارے میں بتائیں.
حقیقت میں سعودی جامعات میں داخلہ پانا بہتوں کے لیے خواب کی تعبیر جیسا ہے.
اس میں شک نہیں کہ طلبہ کی بڑی تعداد آج بھی محنت و مشقت کے ساتھ علم حاصل کرتی ہے اور اپنے مقصد قبول کو فراموش نہیں کرتی. مگر ٹھیک ٹھاک تعداد ایسے لوگوں کی بھی مل جائے گی جن کے لئے حصول علم ثانوی حیثیت رکھتا ہے. تن آسانی، وقت گزاری، مال و زر کی ترجیحات، شاہی حکومت پر نکتہ چینی، واجبات سے غفلت اور شکم پروری کا مزاج غالب ہے. کچھ ایسے بھی مل جائیں گے جو علمی مستوی کے لحاظ سے شاید مستحق داخلہ نہ تھے اور ان کی وجہ سے بعض انتہائی ذہین اور قابل صلاحیتں سیٹ کے پُر ہوجانے کے سبب داخلے سے محروم رہیں . (قدر اللہ ما شاء فعل).
سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جو بلا معاوضہ اتنی بڑی تعداد میں پوری دنیا سے مسلم نوجوانوں کو دینی تعلیم فراہم کرتا ہے اور اب تو عربی زبان وادب اور عصری علوم میں بھی دروازہ کھول رہا ہے. ایسے میں مقبول طلبہ کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ علمی گہرائیوں سے پردہ اٹھائیں اور ماہر فن بن کر نکلیں. اس عظیم نعمت کی ناشکری بالکل ہی نہ کریں، ورنہ ہم سب کے لیے بڑی پشیمانی اور محرومی کی بات ہوگی.
دعا ہے کہ اللہ پھر سے ان علمی درسگاہوں سے عزیز شمس، ڈاکٹر رضاء اللہ، ڈاکٹر وصی اللہ عباس، شیخ عبدالمعید، صلاح الدین مقبول حفظہم اللہ وغیرہ جیسے گوہر نایاب سے سلفیان ہند کو مالا مال کرے.
سوال 24 : آپ نے جامعۃ الملک سعود کے کلیۃ اللغات والترجمۃ سے بی اے کیا، اس تخصص کو اختیار کرنے کی کوئی خاص وجہ؟
بڑی اور اہم وجہ یہ تھی کہ دراسات اسلامیہ کے شعبے میں جو کتابیں داخل نصاب تھیں وہ تقریباً جامعہ سلفیہ ہی میں پڑھ چکا تھا بس اسلوب تعلیم اور وسائل تعلیم کا فرق تھا. مجھے لگا وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کسی اور تخصص میں قسمت آزمائی کروں اور باقاعدہ اک پروفشنل ڈگری بھی ہوجائے . کلیہ اللغات والترجمۃ اپنے مزاج سے بڑا قریب تر لگا. باہری طلبہ کے لیے اس میں داخلہ کافی دشوار تھا مگر جب عزم جواں ہو اور جہد پیہم ساتھ ساتھ ہو تو بڑی سے بڑی رکاوٹیں ہیچ ہوجاتی ہیں. لگا رہا اور بالآخر داخلہ مل گیا. ترجمہ کا یہ پانچ سالہ کورس ہے. دس زبانوں سے زائد میں ترجمہ کا تخصص موجود ہے. عربک کے ساتھ کوئی بھی انگلش، فرنچ، جرمن، ایٹالک، رشین جاپانیز، ہبرو یا چائنیز وغیرہ اختیار کر سکتے ہیں. سعودی طلبہ کے انگلش میں کمزوری کا لحاظ کرکے اسے پانچ سالہ رکھا گیا ہے وگرنہ چار سال کافی تھا مگر خاص بات یہ ہے کہ ترجمہ کے ہر شعبے کا تعارف اور پریکٹس مکثف انداز میں کرادیا جاتا ہے جو شاید ہمارے یہاں کی یونیورسٹیوں میں نہیں.
شروع كے چار سیمسٹر میں انگلش کی مہارات اور ترجمہ کے بنیادی اصول اور زبان کی تاریخ اور کلچر پر ترکیز ہوتی ہے پھر باقاعدہ ترجمہ کا کام شروع ہوتا ہے.
ترجمہ کے مجالات کا اک نمونہ
ترجمة في المجالات التربوية
ترجمة في المجالات الإسلامية
ترجمة في المجالات الاقتصادية
ترجمة في المجالات الطبية
ترجمة في المجالات العلمية
ترجمة في المجالات الأدبية
ترجمة في المجالات القانونية
ترجمة في المجالات السياسية
ترجمة في المجالات التجارية
الترجمة الثنائية
الترجمة التتبعية
الترجمة الفورية
ثقافة اللغات
اور اس کے علاوہ بھی کچھ ضروری کتابیں.
الحمد للہ میں نے امتیازی نمبرات سے یہ مرحلہ طے کیا الحمد للہ
سوال 25 : مستقبل کے آپ کے کیا عزائم ہیں؟
مستقبل کے لئے ابھی باضابطہ کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوپائی ہے، ابھی سیکھنے کا سلسلہ جاری ہے. جامعۃ الملک سعود میں دو تخصص “مناهج وطرق تدريس اللغة” اور “الإعلام” میں داخلہ ہوچکا ہے ویزے میں تاخیر ہے. ادھر مولانا آزاد اوپن یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ایم اے کے لئے اپلائی کرچکا ہوں، اس لیے مؤقتا تدریسی مشغولیت کے ساتھ ایم اے کی تکمیل میں دھیان بٹا ہوا ہے. ان سب کے باوجود مستقبل میں کچھ خاص کرنے کا ارادہ ہے (اللہ مقصد میں کامیاب کرے). ایک ریسرچ سینٹر کا قیام جہاں ماہرین کی ایک ٹیم کے ساتھ تمام مدارس وجامعات کے لیے اک یونیفائڈ اسلامی نصاب تعلیم کی تیاری اور فراہمی جو دین کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حالات و ظروف کے مطابق ہو.
یا ایک ایسے سنٹر کا قیام جہاں اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے متعلق انگلش و عربک میں لکھی ہوئی کتابوں، مقالات اور مضامین کا معیاری ترجمہ، تمام جدید وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دعاۃ کی ٹریننگ کا انتظام، عصری جامعات کا رخ کرنے والے علماء کے لیے کنسلٹیشن ٹیم اور اسکالرشپ کی فراہمی.
یا معاشی خوشحالی کی صورت میں اک معیاری اسکول اور ویلفیئر فاؤنڈیشن کا قیام جہاں سے سماج کے کمزور طبقہ کی تعلیمی، طبی، اجتماعی، ازدواجی اور اخلاقی مدد ہوسکے اور قوم کے ہر فرد کو تعلیمی بیداری مشن کا حصہ بنایا جاسکے.
یہ خواب حقیقت کا روپ کب ڈھاریں گے اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر میرا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی پروجکٹ کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے اسے تصورات و خیالات کی پُر پیچ وادیوں سے گزارنا پڑتا ہے اور جیسا کہ بعض مفکرین کا کہنا بھی ہے کہ “اگر آپ خواب دیکھنا ہی چاہتے ہیں تو عظیم خواب دیکھیں”. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث بھی ہے کہ “جب اللہ سے جنت مانگیں تو جنت الفردوس مانگیں”. بہر حال یہ میرے اپنے خیالات ہیں جو آفاق ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں. محنت شرط ہے توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے.
اللہ کی مدد شامل حال رہی تو مجھے یقین ہے کہ ہم ہونگے کامیاب. ان شاء اللہ
سوال 26: آپ سیاسی ذوق رکھتے ہیں اس سلسلے میں قارئین سے کچھ کہنا چاہیں گے؟
اس سلسلے میں چند باتیں کہنا چاہونگا
ہندوستان میں مسلم اقلیت چاہے اپنی خود کی پارٹی بنائے یا کسی کے ساتھ مل کر سیاست کی بازی گری کرے وہ کبھی بھی اپنے تمام حقوق کی بازیابی نہیں کرسکتی. قانون آپ کا لاکھ ساتھ دے مگر اکثریت کی متعصب ذہنیت آپ کو کامیاب اور ترقی سے ہمکنار ہونے نہیں دے گی.
ہندوستان کی سیاست میں مسلم اقلیت کے لیے مولانا آزاد کی دور اندیشی، حکمت عملی اور سیاسی سوجھ بوجھ سب سے کامیاب ہتھیار ہے.
اویسی صاحب بطور ایم پی پارلیمنٹ میں مسلم مسائل کو اٹھانے والی سب سے بے باک آواز ہے اور ان کے اخلاص پر ہمارا حسن ظن ہے مگر حیدرآباد میں ان کی جو پاپولاریٹی ہے اور انہیں جس طرح سے یکطرفہ تائید حاصل ہے اس کا قیاس ہندوستان کے دوسرے خطوں سے کرنا کافی مشکل امر ہے.
آپ کہہ سکتے ہیں کہ دلتوں کی اک مستقل پارٹی ہے، جاٹوں کی اک پارٹی اور یادو برادری کی بھی مستقل پارٹی ہے تو مسلمانوں کی کیوں نہیں؟ وہ اس لئے کیونکہ کسی بھی سیکولر یا غیر سیکولر پارٹی کو خالص مسلم پارٹی بالکل نہیں بھاتی اور بفرض محال جس دن کوئی مسلم پارٹی سنٹر میں اپنے بل بوتے کچھ کرنے کے قابل ہوگئی اس دن سب “الكفر ملة واحدة” ہوکر آپ کو ناکام کردیں گے اور ہندو مسلم کی ایسی خلیج پیدا ہو گی اور فسادات کا وہ سلسلہ جنم لے گا جسے سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے.
مسلمانوں کے لئے سماجی نقطہ نظر سے سب سے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ہندوستان کے کرسچنوں سے کچھ سبق لیں : تعلیم، معاش، ہیلتھ اور اتحاد کے محاذ پر پورا زور لگادیں، نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ سیاسی بھیک اور ریزرویشن کی مانگ سے محفوظ ہونگے اور دوسری قومیں آپ کے دروازے پر دستک دیں گیں اور نا چاہتے ہوئے بھی آپ کا احترام کریں گیں.
اخیر میں یہ کہونگا کہ عزت و ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی کے چاہنے سے سب کچھ ہوتا ہے. ہندوستان کا مسلمان آج بھی مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت اور معیاری تعلیم کا سب سے زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہے.
یہ میرا ماننا ہے
رائے سے اتفاق ضروری نہیں
سوال 27 : ہندوستانی مدارس میں طلبہ دس سال عربی پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں پھر بھی لکھنے اور بولنے عموماً کافی کمزور ہوتے ہیں، اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟
میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا(اختلاف رائے کی آزادی ہے)
*ہمارے مدارس میں زبان و ادب پڑھانے کا جو طریقہ رائج ہے وہ محل نظر ہے
*سالوں کے تجربات کے باوجود ہم اچھی تعداد میں عربی قلمکار پروڈیوس کرنے سے قاصر ہیں
*معلم الإنشاء اور مختارات پر برسوں سے نصابی اعتماد اور لفظی ترجمہ ہمارے لئے امتحان میں کامیابی کی حد تک مفید رہا ہے
*عربی زبان میں گفتگو اور قلمی مہارت کے لیے ہم نے جدید عربی اور اسلوب کو یکسر نظر انداز کیا ہے.
سعودی جامعات کے فارغین جو عموماً عربک میں گفتگو اور قلمی تعبیر کرسکتے ہیں انہوں نے بھی زبان سکھانے کے حوالے سے کوئی قابل ذکر عملی نمونہ پیش نہ کیا
غیر متخصص اساتذہ کا زبان و ادب کی تدریس پر مامور کرنا.
*زبان کے حوالے سے طلبہ کی ذہن سازی کا فقدان
*قدیم اسلوب اور تعبیر کو اپنانا اور جدید اسلوب، تعبیر اور مضامین سے راہ فرار اختیار کرنا
*دوران تعلیم اور فراغت کے بعد ہمیں جس ماحول، مخاطبین اور الفاظ و مصطلحات وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے ہمارے مدارس کی عربی اس سے بہت دور واقع ہے.
*عربک میں تدریس، باہم طلبہ اور اساتذہ و طلبہ کے درمیان عربک میں خط و کتابت اور بات چیت کا فقدان وغیرہ وغیرہ
کرنے کے کام
*سعودی جامعات میں عربی مہارت کو پروان چڑھا نے کے لئے چار پوائنٹس پر زور دیا جاتا ہے ( الاستماع، المحادثة، القراءة اور الكتابة يا التعبير الكتابي).
استماع: استاد مقرر كتاب سے جو پڑھے یا آڈیو ویڈیو کے میڈیم سے جو سنائے اسے دلجمعی سے سننا اور اس سے متعلق سوالات کا شفوی جواب دینا یا کبھی ورقی شکل میں بھی.
المحادثة : استاد کا کسی موضوع کا انتخاب کرنا چاہے نصاب سے یا غیر نصاب سے، استاد کا پہلے خود طلبہ کے سامنے پڑھنا پھر بورڈ پر اس مضمون کے اہم نقاط کو لکھنا اور اسکی تشریح کرنا اس سلسلے میں طلبہ کے سوالات کا جواب دینا. پھر طلبہ کو بولنے کا موقع دینا، ہرطالب کا بولنا لازمی ہو، نحوی اور صرفی غلطیوں سے بڑی حد صرف نظر ، طلبہ کو دو گروپ میں بانٹ کر اس مضمون کے ایجابیات اور سلبیات یا دیگر پہلوؤں پر ڈیبیٹ اور بحث و مباحثہ کرانا اور خود مشرف کی حیثیت سے حسب حال رہنمائی.
القراءة : طلبہ کے مستوی کے لحاظ سے مختلف موضوعات پر مشتمل ایک کتاب تیار کرنا (القراءة المكثفة) ہر طالب کو لازمی طور پر پڑھانا اور آزاد مضامین اور کتابوں کی طرف رہنمائی کرنا اور نوٹْس تیار کرانا.
الكتابة يا التعبير الكتابي: يومیہ لکھنے کی مشق. اس سلسلے میں معلم الإنشاء کی طرز پر ابتدائی مرحلے میں جدید نصاب تیار کرنا اور اس کی روشنی میں طلبہ سے لکھنے کی خوب مشق کرانا، بلیک بورڈ کا استعمال لازمی طور پر کرنا، کتاب میں لکھے جملے کے طرز پر اپنی جانب سے چند جملے لکھ کر ہمت افزائی کرنا. ثانویہ کے مرحلے میں کتاب کے ساتھ کچھ آزادانہ تمارین کرانا. عالمیت کے مرحلے میں مختلف النوع موضوعات پر آزادانہ تحریری مشق، عربی کی جدید صحافت سے روشناس کرانا، جدید کالمز کے تراشے لاکر طلبہ کو سمجھانا اور اس کے خلاصے لکھوانا. عربی خط و کتابت اور ادبی شہ پاروں کی مشق کرانا. وقتا فوقتاً استاد خود برجستہ بلیک بورڈ پر کسی موضوع پر لکھے اور ویسا ہی کرنے کی ہمت افزائی کرے. اس مرحلے میں تدریس عربی زبان میں ہو اور متخصص اساتذہ کی زیر نگرانی ہو.
کس ماہر فن استاد یا اساتذہ کی اک ٹیم کو مکلف کرنا کہ عربی زبان کی تدریس کے سلسلے میں عرب اور غیر عرب کے بہترین تجربات کا دراسہ کرے اور پھر اپنے ادارے میں تنفیذ کرنا.
حتی الامکان کوشش ہو کہ عالمیت اور فضیلت کے مرحلے میں تدریس عربی ہی میں ہو.
زبان کی تعلیم کے حوالے سے موجودہ تمام جدید وسائل سے استفادہ کرنا خصوصاً انٹرنیٹ.
جس طرح ہم قرآن و حدیث عقیدہ و فقہ وغیرہ پر خصوصی توجہ دیتے ہیں ایسا ہی اہتمام زبان وادب کے تئیں ہونا.
متوسطہ کے مرحلے میں استاد قدم قدم پر رہنمائی کرے، ثانویہ کے مرحلے میں ففٹی ففٹی ذمہ داری، عالمیت میں طلبہ ستر فیصد اور اساتذہ تیس فیصد اور فضیلت کے مرحلے میں لکھنے کا سارا کام طلبہ کریں اور استاد صحت مند رہنما اور مشرف کا رول نبھائے. اس مرحلے میں طالب مضمون نگاری، مراسلت اور کتابوں کی تلخیص و تعلیق کا ہنر سیکھ جائے.
اخلاص، ماحول، نصاب، وسائل، فن کے اساتذہ اور جہد پیہم کے بغیر تبدیلی کافی مشکل ہے.
نوٹ : کسی کا قول ہے کہ مدارس وجامعات قابلیت اور مہارت کے جام نہیں پلاتے اس پَُر خار وادی سے گزر کر ہی لعل و گہر کے تاج سے مرصع ہوسکتے ہیں.
أبوعفاف عبدالوحيد حجازی
سوال 28 : “مذکراتی فی السعودیۃ” کس طرح کی کتاب ہے، کتاب کو پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی خاص وجہ؟
یہ اصل میں میرے سعودی میں قیام کے دوران شروعاتی پانچ سالہ تجربات و احساسات کی ترجمانی ہے. جس مسابقے کے لیے اصلا یہ کتاب بطور مقالہ تحریر کی گئی تھی اس میں یہ شرط تھی کہ کسی مرجع ومصدر کے بغیر اپنے احساسات کی ترجمانی عربی زبان میں کرنی ہے (غیر عرب طلبہ کے لئے). حسب استطاعت میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی عربی کو تعبیر کے دھاگے میں پرونے کی کوشش کی. شاید حکم صاحبان کو میری تعبیر و ترجمانی نسبتاً زیادہ راس آئی اور پھر وہ ہوا جس نے اس مقالے کو کتاب ہونے کا شرف بخشا.
شکریہ
سوال 29 : آپ کی تجزیاتی نگاہیں سعودی عرب کا مستقبل کیا دیکھتی ہیں، کیا یمن جنگ سعودی عرب کے زوال کی شروعات سمجھی جائے؟
پہلی بات یہ کہ کوئی بھی شخص سعودی کی خاموش مزاجی اس کی کمزوری پر محمول نہ کرے
دوسری بات یہ کہ حرمین شریفین کی پاسبانی اور دین حق کا حامل ہونے کے سبب وہ عمداً بہت ساری ریشہ دوانیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے اور میڈیائی ہفوات سے اجتناب کرتا ہے.
تیسری بات: سعودی جن جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے وہ ترقی پذیر ممالک میں بہت ہی کم لوگوں کے پاس ہے اور ہاں اسکی فضائیہ تو ترقی یافتہ ممالک کے زمرے میں شمار کی جاتی ہے
چوتھی بات : عرب ممالک میں عرب بہاریہ کے فتنوں کا یہ سلسلہ اک لمبی مدت کے بعد اٹھا اور عرب خواب خرگوش میں مست رہے اور جب اسکی آہٹ ان کی دہلیز پر پہونچی تو بیدار ہوئے. اس سلسلے میں سعودی عرب کی اصلاحی پالیسی اور موقع پر پبلک فرینڈلی پروجکٹوں کا اعلان کرکے بڑی حکمت عملی سے کام لیا گیا.
پانچویں بات: تشیع کا زہر اور فتنہ یمن میں پوری طرح سر اٹھا چکا تھا اور ایران مکمّل طور پر پشت پناہی کر رہا تھا اس طرح جنگی اسٹریٹجی کے ناحیے سے سعودی عرب کا یمن سے ملتی ہوئی سرحد دشمنوں کے نشانے پر تھی. ان تمام خطیر اسباب کے ہوتے ہوئے سعودی کا خاموش بیٹھنا ناممکن تھا اور عزم وحوصلے کے دھنی سلمان کے تاریخی فیصلے کی گھڑی آچکی تھی.
چھٹی بات : یہ فیصلہ لینے میں بھی انہوں نے امت مسلمہ کے قائدین سے بات چیت کرکے ایک فوجی اتحاد قائم کرکے حوثی باغیوں اور ایرانی ایجنٹوں کو سبق سکھانے کے لئے حملہ کیا.
ساتویں بات : پوری دنیا سکتے میں آگئی کہ سعودی نے کیسے حملہ کردیا اوریہیں سے دنیا کے سامنے سعودیہ کی فوجی قوت بھی سامنے آئی
آٹھویں بات : ایران کی گیدڑ بھبکیوں کی پول کھل گئی اور وہ اپنے نمک خوروں کی ہلاکت و بربادی پر میڈیائی اچھل کود کے سوا کچھ نہ کرسکا اور أوباما منافق کے چلے جانے کے بعد اب کچھ کر بھی نہیں سکتا
نویں بات : سعودی کے اس اقدام سے عرب دنیا میں سعودی کی بڑی پذیرائی ہوئی اور ان کو اس نئی قیادت میں سرزمین حرمین کی دفاع اورحفاطت کے لیے یقین و اطمینان کی فضا اور امید نظر آئی. اس کا سب زیادہ نفسیاتی اثر ایران اور اسرائیل پر پڑا.
آخری بات : یمن کی جنگ سے سعودی مائل بہ زوال نہیں بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوکر ابھرا ہے. بہت سارے منافقوں سے پردہ اٹھا ہے. اپنی حفاظت آپ اور مستقبل کے فتنوں کے تئیں سنجیدہ اور محتاط ہوا ہے اور اپنی دفاعی قوت کو بلندیوں کی معراج پر لے جانے کے لیے بہت تیزی سے رواں دواں ہے
سعودی کے حاسدین اور ضمیر فروش صحافی آج بھی سعودی کی تنقید اور ہجو کی جگالی کرتے نظر آتے ہیں.
اللہ سعودی کو محفوظ رکھے اور قوی سے قوی تر بنائے آمین
جزاکم اللہ خیرا، بہترین گفتگو، اللہ محترم عبد الوحید صاحب کو جزائے خیر دے اور ان کے علم وعمل میں مزید ترقی عطا فرمائے، عمدہ باتوں کی طرف اشارہ کیا، دی فری لانسر کا اس مضمون کو پورٹل کی زینت بنانے کے لیے شکریہ
ماشاءاللہ شیخ عبدالوحید عبدالقادر سلفی مزید ترقی کریں یہی ہماری دعا ہے شیخ کی ذہانت و فطانت جامعہ سلفیہ کے اساتذہ وطلبہ پر عیاں تھی، دکتور رضا ء اللہ رحمہ اللہ(غالباً 2002یا2003میں)نے ایک علمی نشست میں جماعت کے آفتاب وماہتاب شخصیتوں کو جمع کیا تین طلبہ کو خطاب کیلئے منتخب کیا گیا جن میں شیخ عبد الوحید سلفی بھی تھے ان کے خطاب کے بعد ایک نے کہا کہ یہ بچہ؛دو مرتبہ فضیلت کیا ہے دکتور رضاءاللہ رحمہ اللہ نے دفاع کرتے ہوئے کہا نہیں ایسا نہیں بلکہ اللہ نے اس کو بلا کی ذہانت دی ہے
اللہ ماموں جان کو سلامت رکھے ،