ترجمانی و اختصار: سفیان قاضی مدنی
ابوالقاسم مغربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد بقية السلف شیخ الاسلام ابن تيميه رحمہ اللہ سے مندرجہ ذیل امور میں وصیت طلب فرمائی:
1- دین و دنیا میں سرخروئی و کامیابی کے لیے کچھ وصیت کردیجیے۔
2- شرعی علم کیسے حاصل کیا جائے۔ خاص طور پر علم حدیث میں کیسے دلچسپی پیدا ہو۔
3- ایسا عمل بتا دیجیے جو تھوڑا ہو مگر فرائض وواجبات کے بعد اسے زیادہ اہمیت حاصل ہو۔
4- ذریعہ معاش سے متعلق خاطر خواہ رہنمائی فرما دیجیے۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے جوابا تحریر فرمایا:
الحمد لله رب العالمين، سب سے بہتر وصیت قرآن وسنت کو مضبوطی سے تھام لینا ہے کہ اس سے زیادہ نفع بخش وفائدہ مند چیز دنیا میں کوئی نہیں۔
قرآن حکیم میں کئی ایک وصیتوں کا ذکر ہے تاہم سب سے عظیم وصیت تقوی اختیار کرنا ہے۔
اور حدیث شریف میں سب سے بہتر وصیت وہ ہے جو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بناتے وقت فرمائی اور کہا تھا: اے معاذ! جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور یاد رکھو جب بھی کوئی برائی سرزد ہوجائے تو فورا کوئی نیکی کرلینا تاکہ برائی کا اثر زائل ہوجائے۔ نیز لوگوں کے ساتھ ملاقات کے وقت خندہ پیشانی سے پیش آنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ انتہائی جامع وصیت ہے۔ اب یہ جاننا ضروری ہے کہ گورنر بناتے وقت آخر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یہ وصیت کیونکر فرمائی؟
در حقیقت حضرت معاذ کوئی معمولی شخصیت نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ سواری میں بھی انھیں آپ پیچھے بٹھا لیتے تھے۔ حلال و حرام اور اسلامی حکومتوں کی ضرورتوں کا علم انھیں قدرے زیادہ تھا۔ وہ ایک فقیہ وبردبار شخص تھے۔ اور اہل یمن سے ان کے مزاج و طبیعت کے بقدر تعامل کرنے پر قادر تھے۔ لہذا آپ نے اہل یمن کے لیے انھیں بحثیت گورنر چنا۔
بعض روایتوں کے مطابق آپ (یعنی حضرت معاذ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہم شکل بھی تھے۔ بلکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے تو یہ وارد ہیضے کہ قرآن کی آیت (ان ابراہیم کان امة قانتا) پڑھتے تو فرماتے کہ (ان معاذا كان أمة قانتا) یعنی حضرت معاذ اپنے آپ میں ایک امت اور عظیم ہستی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
میں نے حضرت معاذ کو کی گئی وصیت کو جامع اور ٹھوس اس لیے کہا کیونکہ یہ وصیت حقوق اللہ اور حقوق العباد کی جامعیت کو اپنے اندر پروئے ہوئے ہے۔
عموما ہر آدمی کے ذمہ دو حق ہوتے ہیں:
ایک اس کے خالق و مالک کا حق
دوسرا مخلوق کا حق
پھر ان حقوق کی ادئیگی میں وقتا فوقتا کوتاہی ہوتی رہتی ہے۔ اور انسان دانستہ نادانستہ طور پر برائی میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے۔ اس لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وصیت فرمائی کہ خوف الہی اختیار کرلو تو ان ساری چیزوں سے نجات ملنا یقینی ہے۔
پھر آپ نے فرمایا کہ برائی سرزد ہوجائے تو فورا کوئی نیکی کر ڈالو۔
یوں سمجھ لیجیے انسان اگر لاپرواہی میں کوئی مضر چیز کھالے اور ڈاکٹر سے رجوع کرے تو ڈاکٹر دوائی کے ساتھ پرہیز کی ہدایت صادر کرتے ہیں۔ گناہ کا ارتکاب بھی کچھ یوں ہی چاہتا ہے کہ اگر گناہ ہو بھی جائے تو طبیب کا دروازہ بھی کھلا ہے اور پرہیز کا راستہ بھی۔ لہذا دانشمند وہ ہے جو فورا اس کا ادراک کرلے۔
اب یہ جان لو کہ برائی زائل کرنے کا طریقہ کار کیا ہے۔
سب سے صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس ٹائپ کی برائی ہوئی ہے اسی سے میل رکھنے والی کوئی نیکی تلاش کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔
البتہ عام طریقے جن سے برائیاں زائل ہوتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
1 – توبہ: یعنی اپنے گناہ پر نادم ہونا اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرنا
2- استغفار: یعنی اپنے رب کے سامنے گناہ کا اعتراف اور معافی طلبی۔
3- کفارہ: یعنی نیک اعمال کی طرف جلدی کرنا۔
کفارہ کی دو قسمیں ہیں:
1- وہ کفارہ جن کی مقدار متعین ہے مثلا: بحالت روزہ جماع کرنا۔ یا جیسے حج کے واجبات میں کوتاہی وغیرہ۔
2- عام کفارہ: یعنی وہ اعمال صالحہ جن کو بغیر متعینہ مقدار کے کیا جاسکتا ہو۔
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ آدمی اگر اپنے مال واولاد کے فتنہ میں مبتلا ہوجائے تو کثرت کے ساتھ نماز و روزہ کا اہتمام کرے اور بھلائی کا حکم دے، برائی سے روکے۔
اور جیسا کہ بہت سارے اذکار واوراد کے بارے میں آتا ہے کہ فلاں عمل کرنے سے فلاں گناہ زائل ہوجاتے ہیں۔ فضائل اعمال کی کتابوں میں یہ باتیں بکثرت ملیں گی۔
آج جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ وحی و رسالت سے منقطع اور کافی دور ہوچکا ہے۔ ایام جاہلیت کی رسمیں دوبارہ لوٹ چکی ہیں۔ یہود ونصاری جن کی پیروی سے ہمیں منع کیا گیا تھا اب دوبارہ ہمارے دین میں دخل اندازی کررہے ہیں اور ہم ان کی مکمل پیروی بھی۔ حالت زار اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ دین دار طبقہ بھی ان کے شر و فتنہ سے محفوظ نہیں۔
لہذا ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ہمیں توبہ استغفار اور اعمال صالحہ کی کثرت کی از حد ضرورت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ: ایک وقت آئے گا جب تم گذشتہ قوموں کے طریقوں کی یوں مشابہت کروگے جیسے تیر یا نیزے کو کاٹ کر بالکل ایک سائز اور ایک شکل کا بنایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر انھیں گوہ (یعنی سوسمار) کے سوراخ میں داخل ہوتے دیکھو گے تو تم بھی بلا سوچے سمجھے اس میں داخل ہوجاؤگے۔ صحابہ کرام نے عرض فرمایا: یا رسول اللہ! کیا گذشتہ قوموں سے آپ کی مراد یہود ونصاری ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ان کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے؟
بسا اوقات دین دار طبقہ بھی اس کا شکار ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت سفیان بن عیینہ سے مروی ہے کہ اہل علم بھی اس وبا سے محفوظ نہ رہ سکے اور یہود کی بہت سی عادتیں ان میں سرایت کرگئیں۔ یہ باتیں اسی عالم و فاضل کے سامنے عیاں ہوسکتی ہیں جو قرآن و سنت کے علم میں رسوخ کے ساتھ عوام کے زندہ مسائل سے جڑا ہو۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اہل اسلام بہت سی علمی اور دینی و دنیاوی باتوں میں یہود ونصاری سے مشابہت رکھنے لگے ہیں اور جیسا کہ حدیث شریف میں بھی اس کا ذکر ہے۔
لہذا ان مغضوب علیہم اور ضالین کی افراط و تفریط سے بچاؤ کی تدبیریں تلاش کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ہدایت الہی کو اپنا مشعل راہ بنائیں اور جاہلانہ رسوم وعادات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔
اس مہلک مرض کے علاج کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
1 – برائی کا علم: یعنی جیسے ہی ادراک ہو جائے کہ فلاں کام برا ہے تو فورا نیکی کے کام کرلیے جائیں۔
2- کفارہ کی طرف سبقت: کفارہ برائی کے اثر کو مٹا دیتا ہے۔ غم وغصہ، رنج والم، مالی نقصان سے حفاظت کرتا ہے۔ سکون و عزت کی فضا ہموار کرتا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یہ وصیت فرمائی کہ اللہ سے ڈرو اور برائی سرزد ہوجائے تو فورا نیکی کا کام کرلو۔
پھر آپ نے مزید ایک وصیت فرمائی۔ یعنی جب لوگوں سے ملاقات ہو تو حسن اخلاق سے پیش آؤ۔
حسن اخلاق سے مراد یہ ہے کہ کوئی تمھارے نقصان کے پیچھے پڑا ہو اور تم اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو۔ بلکہ پہلے سے زیادہ تم اسے فائدہ پہنچاؤ۔ کوئی تم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور تم حوصلہ بلند کرتے ہوئے اسے معاف کردو۔ البتہ ان میں بعض احکام مستحب ہیں بعض واجب۔ لہذا عموما ہر حال میں انسان کی ایک ہی کیفیت ہو ضروری نہیں ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خلق عظیم کے پیکر تھے۔ سیرت میں وارد واقعات آپ کی خلق عظیم کی صحیح ودرست تشریح کرتے ہیں۔
تقوى کی تفسیر:
درحقیقت تقوی حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں میں مطلوب ہے۔ اور متقی بننے کے لیے چار باتوں پر عمل ضروری ہے:
1- بھلائی پر عمل کرنا اور اس کی وصیت کرنا۔ نیز برائی سے خود بھی رک جانا اور دوسروں کو بھی تلقین کرنا۔
2- عذاب الہی سے خوف کھانا۔
یعنی گناہ اور حرام کاموں سے بچنا۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ جنت میں داخل ہونے کے لیے کون سا عمل زیادہ کرنا چاہیے تو آپ نے فرمایا: تقوی الہی اور حسن خلق۔ پھر سوال کیا گیا کہ کون سی چیز جہنم میں جانے کا عام سبب ہے تو آپ نے فرمایا: دو کھوکھلی چیزیں (یعنی انسان کی زبان اور اس کی شرم گاہ)۔ (ترمذی شریف)
نیز ایک حدیث میں ہے کہ کامل ترین مومن وہ ہے جو سب سے زیادہ با اخلاق ہو۔ (بخاری شریف)
لہذا ایمان کی بنیاد ہی تقوی و خشیت پر ہے۔ جو جتنا متقی ہوگا اسی بقدر حسن خلق کا پیکر بھی۔
3- اخلاص: یعنی ایک ایسا قلبی تعلق جو صرف بندے اور رب کے درمیان ہوتا ہے۔ یہی اخلاص نیکیوں کی بنیاد اور عبادت و استعانت کا سر چشمہ ہے۔ سورہ فاتحہ میں اسی بات کی تلقین کی گئی ہے (إياك نعبد واياك نستعين) یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے امداد مانگتے ہیں۔
قرآن حکیم میں جابجا اسی ذات الہی پر توکل و اعتماد کا حکم دیا گیا ہے کہ اپنا مقصود کلی صرف اسی رب العزت کو ٹھرایا جائے۔
4- حصول اخلاص کے اسباب تلاش کرنا:
اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنا ہر پسندیدہ عمل رب العالمین کی رضامندی کے لیے کیا جائے۔ جس کے پیچھے کوئی دنیاوی غرض وغایت مقصود نہ ہو۔
اگلا سوال: فرائض و واجبات کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ذکر الہی فرائض وواجبات کے بعد سب سے افضل عمل ہے۔
اس سوال کی ایک ایک شق متعدد جواب کی محتمل ہے۔ ایام و اوقات کی مناسبت سے بعض اعمال کو بعض پر فضیلت ہوتی ہے۔ تاہم عمومی طور پر سب سے افضل عمل ذکر ہی ہے کہ اسے لازم پکڑنا انسان کو خوف وتقوی اور حسن خلق سے جوڑے رکھتا ہے۔
سنن ابو داود کی حدیث میں ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو سونے چاندی کا صدقہ کرنے سے بہتر ہو۔ حتی کہ جہاد میں تمھارے شہید ہونے سے بھی بہتر ہے؟ یاد رکھو، وہ اللہ کا ذکر ہے”۔
ذکر الہی میں سب سے افضل ترین طریقہ وہ الفاظ ہیں جو معلم انسانیت امام المتقین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہو۔ احادیث میں وارد شدہ ذکر کی تین قسمیں ہیں:
1- وہ اذکار جن کے اوقات مقرر ہیں۔ مثلا: صبح و شام کے اذکار۔ نماز کے بعد کے اذکار۔ سونے اور بیدار ہونے کے اذکار وغیرہ۔
2- وہ اذکار جو خاص مناسبت پر پڑھے جاتے ہیں۔
مثلا کھانے پینے کے اذکار۔ مسجد میں داخل و خارج ہونے کے اذکار۔ بارش و ہوا کے چلنے پر پڑھے جانے والے اذکار۔
3- وہ اذکار جو بلا تعین وقت کے کبھی بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ ان میں سب سے افضل ذکر کلمہ توحید کا پیہم ورد کرنا ہے۔ ان میں بعض اذکار وقت و مناسبت کے لحاظ سے اہم بھی ہوسکتے ہیں۔
ایک اہم نقطہ جس کا جاننا ضروری ہے وہ یہ کہ ہر نیک عمل جو رضاء الہی کی خاطر کیا جائے وہ بھی ذکر ہی کا حصہ ہے۔ جیسے دوسروں کی مدد کرنا۔ دینی تعلیم سے جڑنا۔ برائی سے روکنا بھلائی کا حکم دینا۔ یہ سارے اعمال صالحہ ذکر الہی کا جزء ہیں۔
البتہ ان آخر الذکر اعمال میں سب سے بہتر دینی تعلیم کا حصول ہی ہے جسے فقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
بعض لوگ اعمال صالحہ کے درجات میں تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں کہ کون سا عمل مقدم رکھا جائے۔ اگر کسی شخص کو اشتباہ ہوجائے تو فورا استخارہ کر لینا چاہیے۔ کیونکہ استخارہ خیر و برکت کی کلید ہے۔ استخارہ کا مناسب وقت رات کا آخری حصہ۔ فرض نماز کے بعد یا نزول بارش کے فورا بعد زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح کے اوقات بہت مبارک ہوتے ہیں۔
باقی رہا ذریعہ معاش سے متعلق خاطر خواہ رہنمائی! تو یہ جان لو کہ اللہ پر بھروسہ اور توکل اس کی کنجی ہے۔ روزی روٹی سے متعلق دو باتوں کا جاننا ضروری ہے:
1- رزق صرف اللہ ہی سے مانگنا چاہیے۔ اس کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں۔
حدیث شریف میں ہے: اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو، کھلانا میرا کام ہے۔ لہذا تم مجھی سے کھانا طلب کرو۔ میں ہی تمھیں روزی دوں گا۔ (صحیح مسلم)
اور قرآن مجید میں ہے: اللہ سے اس کا فضل یعنی روزی روٹی طلب کرو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دیتے ہوئے یہی کہا تھا کہ بتوں کو تراش کر پیٹ بھرنے سے بہتر ہے میرے رب سے روزی مانگو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔
2- مال و دولت کا کمانا صرف رفع حاجت کے لیے ہو۔ جیسے انسان بیت الخلاء کو صرف رفع حاجت کے لیے استعمال کرتا ہے۔ تحصیل مال کی حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ انسان کو دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے مقدور میں لکھی گئی ہے۔ اور جسے صبح ہوتے ہی دنیا کی فکر لگ جائے تو اللہ اس کے جمع شدہ کاموں کو پراگندہ کردیتا ہے۔ البتہ جسے صبح ہوتے ہی آخرت کی فکر ہو اللہ رب العالمین اس کے بکھرے کاموں کو جمع کردیتے ہیں پھر تو اس پر رزق کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ دنیا اس کے پیچھے پیچھے دوڑی چلی آتی ہے۔ (ترمذی شریف)
اسی لیے اہل سلف فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کو صرف راستہ میں آنے والی ضرورت کے بقدر جانو۔ اصل راستہ تو آخرت کی تیاری ہے۔
باقی رہا ذریعہ معاش کا تعین تو اس میں مختلف راہیں ہیں۔ تجارت، فن تعمیر، زراعت، صنعت وحرفت جو بھی میسر ہو اسے اپنالیں۔ اور جو ہنر آتا ہو اسے چھوڑ کر خواہ مخواہ دوسرے کام کے تکلف میں نہ پڑیں۔ تذبذب کی صورت میں استخارہ کرلیا کریں کیونکہ اس سے برکت کی راہیں کھلتی ہیں۔
آخری سوال علوم شرعیہ وعلم حدیث سے متعلق ہے۔ دراصل نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا نبوی علم سارے علوم کی بنیاد و اساس ہے۔ جو علماء کرام میں بطور میراث چلا آرہا ہے۔ اس کے باوجود علم کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1- علم: مگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہو۔
2- علم بھی نہیں اور نفع بھی نہیں۔ بس یوں ہی زبردستی اسے علم بنا دیا گیا ہو۔
3- علم بھی نفع بخش بھی: یہی تیسری قسم علوم نبوت سے متعلق ہے۔ اور یہی علم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی جامعیت پر مشتمل ہے۔ یہ علم کی سب سے اعلی ترین قسم ہے جس کے بے شمار فائدے دین اور دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔
آخر میں ایک عظیم دعا ذکر کرتا ہوں جو انسان کو شکوک و شبہات والی زندگی سے نجات دیتی ہے۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:
اللهم رب جبريل وميكائيل واسرافيل، فاطر السموات والأرض، عالم الغيب والشهادة، أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون، اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك، إنك تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم
اور ایک حدیث میں ہے:
“اے میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں صحیح راہ بتادوں، لہذا مجھ سے ہدایت طلب کرو میں ہی تمھاری رہنمائی کروں گا۔”
لہذا علوم نبوت میں سب سے بہتر کتاب امام بخاری رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔ تاہم ہر علم وفن کی معرفت کے لیے علماء فقہاء کی معتمد کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ کیونکہ علوم و فنون میں امت محمدیہ اپنا حق ادا کرچکی ہے۔ ہر شہر میں جو علم و فقہ دستیاب ہو اسے حاصل کریں البتہ یہ نہ بھولیں کہ کتابوں کی کثرت کبھی کبھار حیرت وضلالت میں بھی اضافہ کرتی ہے ۔لہذا نفع بخش علم پر زور دیں اور نور الہی کے حصول کو ترجیح دیں۔
اللہ رب العالمین ہمیں رشد وہدایت، علم و عمل میں تقوی نصیب فرمائے۔ ہمارے دلوں کو وہ نور عطا فرمائے جس میں ہماری ہدایت مضمر ہو۔
اور نفسانی خواہشات، کجروی سے ہماری حفاظت فرمائے۔ اپنی رحمت کے آغوش میں ہمیں جگہ عطا فرمائے۔ بے شک وہی رحمتوں کا عطا کرنے والا ہے۔
والحمد لله رب العالمين، وصلواته على أشرف المرسلين
Mashaallah zabardast tahereer