نزلہ اور زکام زمانہ قدیم سے معروف ہے، یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ تبدیلی موسم کے وقت بہت کم ہی لوگ اس سے بچ پاتے ہیں۔ اس بیماری کے عام ہونے کی وجہ سے اس کی عوام میں کوئی اہمیت نہیں ہے، جبکہ یہ مسلم ہے کہ کبھی کبھی یہ بیماری بھی نوعیت بدلتے بدلتے ایسی صورت اختیار کرلیتی ہے جو موت کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر بھی اس بیماری کا نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی دہشت ہے، بر خلاف اس کے کورونا وائرس کی صورت حال یہ ہے کہ یہ بیماری بھی نزلہ زکام کی طرح ہے مگر دہشت بہت زیادہ ہے، پوری دنیا کورونا کے خوف سے سہمی ہوئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے اعتبار سے کورونا سے بہت کم موتیں ہورہی ہیں جبکہ کورونا کے خوف سے زیادہ ہورہی ہیں۔ اس لیے اس وقت حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ عام لوگوں کو کورونا کے خوف ودہشت سے باہر نکالا جائے اور یقین دلایا جائے کہ جس طرح آپ اپنی صحت مند زندگی کے لیے بہت مختلف چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں اور احتیاط برتتے ہیں اسی طرح کورونا کو ایک بیماری سمجھ کر احتیاط ضرور برتیں مگر اس سے ڈرنے، خوف کھانے اور دہشت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ خوف و دہشت بہت بڑی بیماری ہے اور عام مہلک بیماریوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور گھاتک بیماری ہے۔ یہ بیماری جب حملہ آور ہوتی ہے تو اتنا موقع نہیں دیتی ہے کہ اس کا علاج کیا جاسکے اور بچاؤ کی تدبیر اختیار کی جاسکے، بیشتر ایسا ہی ہوتا ہے کہ خوف و دہشت نے حملہ کیا اور کام تمام کردیا۔ اس لیے ہر ایک شخص کو اپنے ذہن میں یہ بات بیٹھا لینی چاہیے کہ کورونا وائرس خطرناک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا کے پازیٹیو مریضوں کو جب آئیسولیٹ کیا جاتا ہے تو بیشتر نہیں بلکہ 98 فیصد مریض صحت یاب ہوکر گھر لوٹ جاتے ہیں۔ اور یہ تناسب تو عام بیماریوں میں ہے، کیوں کہ اسپتالوں میں مرنے والوں کی تعداد ہمیشہ ہی ایک دو فیصد تو رہتی ہے، جو تناسب اطمینان دلاتا ہے کہ کورونا سے صرف احتیاط کرنا ہے، گھبرانے، ڈرنے اور دہشت پالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اگر ہم نے کورونا سے بچنے کی احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں اور اس سے پیدا ہونے والے دہشت کو ذہن و دماغ میں پال لیا تو یاد رکھیے کورونا سے زیادہ سے زیادہ دو فیصد وہ بھی عمر رسیدہ جو شوگر وغیرہ کے مریض ہوتے ہیں زد میں آتے ہیں مگر خوف و دہشت سے مریض بمشکل دو فیصد جانبر ہوپاتے ہیں، باقی مریض ہمیشہ کے لیے رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔
خوف و دہشت سے مرنے والوں کے متعلق بہت سارے واقعات عوام و خواص میں مشہور ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا حملہ کس قدر خطرناک اور گھاتک ہوتا ہے۔ عوامی روایت کے مطابق بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص برسات کے موسم میں اپنا چھپر درست کر رہا تھا، اسی اثنا اس نے دیکھا کہ اس کی انگلی کٹ گئی ہے، اس نے سوچا چھپر میں استعمال ہونے والی کسی چیز سے کٹ گیا ہوگا اور بات ختم ہو گئی۔ دوسرے سال وہی شخص چھپر کے اسی حصے کو پھر درست کر رہا تھا تو یکایک اس کی نگاہ سانپ کی کینچلی پر پڑی، وہ شخص دیکھتے ہی گرا اور مر گیا۔
اسی طرح ایک دوسرا واقعہ ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنی ساس کے جلال سے سہمی ہوئی ہے، اس کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عید کا دن تھا، چاول پکا رہی تھی کہ اچانک اس میں سانپ آگرا۔ ساس کے جلال اور خوف سے چاول گرانے کے بجائے سانپ کو بھی اسی میں پکا دیا، سب نے کھایا، خوب تعریف کی، بہترین چاول بنا ہے، مزہ آگیا وغیرہ وغیرہ۔ سال گزر گیا ایک اور موقع پر چاول بنا، سب نے پچھلی بات پھر دہرائی کہ عید پر جو چاول بنا تھا بہت عمدہ تھا، کمال کا ذائقہ تھا، اب ساس کا جلال مدھم پڑ چکا تھا، عورت راز کا بوجھ کب تک اٹھائے پھرتی، سو بتا ہی دیا کہ چاول میں سانپ گرا تھا جسے میں نے اسی میں پکا دیا۔ یہ سننا تھا کہ سب گھر والے بے ہوش ہوگئے، ایک کو دل کا دورہ پڑا اور وہیں مر گیا۔
ان دونوں واقعات کو دیکھیے سانپ کے زہر سے نہیں بلکہ سانپ کے خوف سے موت واقع ہوگئی کیوں کہ عام لوگوں کے ذہن میں سانپ کا خوف اس قدر بھرا ہوا ہے کہ وہ خوف انھیں ابدی نیند سلا گیا۔
اس لیے یہ بات ذہن میں رکھیے کہ کورونا بیماری ہے اور نزلہ، زکام کی طرح ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں اور اپنے دماغ سے کورونا کا خوف اور دہشت نکال دیجیے ورنہ اگر ہم نے اس خوف و دہشت کو ایسے ہی پال رکھا جیسا کہ عوام و خواص میں مشہور ہے تو کورونا سے کم اور خوف و دہشت سے زیادہ موت واقع ہوگی، جو بلا وجہ بہت بڑا خسارہ ہوگا جس کی تلافی مشکل ہو جائے گی ۔ اللّٰہ تعالی کورونا اور اس کے خوف سے ہم سب کو محفوظ و مامون رکھے۔ (آمین)
آپ کے تبصرے