کورونا وائرس کے پیش نظر قربانی کا مسئلہ

مقبول احمد سلفی فقہیات

کورونا وائرس کے پیدا کردہ سنگین مسائل میں ایک مسئلہ لوگوں کی محتاجگی میں شدید اضافہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں لوگ وبائی مرض کا شکار ہوکر بڑی تعداد میں دم توڑ رہے ہیں وہیں کثرت سے اموات بھوک وتنگی کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ یہ اس وقت کا انتہائی سنگین مسئلہ ہے، سماجی اور انفرادی طور پر خدمت خلق کا فریضہ دیا جارہا ہے تاکہ کورونا متاثرین اور بھوک سے مرنے والوں پرقابو پایا جاسکے۔ اللہ تعالی ہر طرح سے ہماری حفاظت فرمائے اور صاحب ثروت کو رضاکارانہ خدمات کی مزید توفیق بخشے۔ آمین
ہم نے رمضان کی مبارک ساعات لاک ڈاون میں گزاریں، اب عیدالاضحی کی نمازوقربانی کا مسئلہ درپیش ہے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی مومنوں پر رحمت برسائے گا اور عیدالاضحی کی نماز ایک ساتھ عید گاہ میں ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے گا، ان شاء اللہ۔ قربانی کے تعلق سے بریلوی مکتب کے ادارے “جامعہ نظامیہ، حیدرآباد کا ایک فتوی ان دنوں سوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے وائرل ہورہا ہے۔ فتوی کا خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا ہی بہتر ہے لیکن اگر آپ قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کرسکیں تو اس کے بعد قربانی کا جانور یا اس کی قیمت فقراء ومساکین پر صدقہ کردیں۔ دراصل اس فتوی سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان دنوں لاک ڈاون کی وجہ سے محتاجگی زیادہ ہے اس لیے قربانی کی بجائے اس کی قیمت محتاجوں پر صدقہ کردی جائے حالانکہ فتوی میں یہ بات نہیں ہے۔ فتوی میں بارہ ذوالحجہ تک (احناف کے یہاں تین دن اور قرآن وحدیث کی روشنی میں چار دن قربانی جائز ہے) قربانی کے اسباب نہ بن پڑیں تب قیمت صدقہ کرنےکی بات کہی گئی ہے۔ ان حالات کے تناظر میں اس قسم کا فتوی دارالعلوم دیوبند کا بھی ہے۔
فتوی سے ہٹ کر یہ بحث لوگوں میں بھی عام ہے کہ ان دنوں قربانی کی جگہ اس کی قیمت محتاجوں پر صدقہ کرنا کیسا ہے؟
قربانی کا دوسرا کوئی بدل نہیں ہے، متعین وقت میں مشروع طریقے پر جانور ذبح کرکے اس سے اللہ کا تقرب حاصل کرنا قربانی کہلاتی ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ(الحج:37)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمھارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح اللہ نے جانوروں کو تمھارا مطیع کردیا ہے کہ تم اس کی راہنمائی کے شکریے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا مقصد جانور ذبح کرکے اللہ کا تقرب حاصل کرنا اور اپنے اندر پرہیزگاری پیدا کرنا ہے۔ اس آیت سے تین آیت پہلے اللہ نے یہ بھی کہا ہے“وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا”
کہ ہم نے ہر امت میں منسک(قربانی) مقرر کیے اور منسک کہتے ہیں اللہ کے تقرب کے لیے جانور ذبح کرنا اسی لیے آگے چویایوں (بهيمة الأنعام) کا ذکر ہے۔
قربانی عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہوتی ہے، اس میں اپنی طرف سے قیاس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے قربانی اسی شکل میں انجام دی جائے گی جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ قربانی کا جانور وہی ہونا چاہیے جو منصوص ہے، قربانی میں دوسرا جانور نہیں چلے گا حتی کہ جانور کی صفات بھی متعین ہیں اور اسی وقت قربانی کرنا جائز ہے جو شریعت کی طرف سے متعین ہے، اپنی طرف سے آگے پیچھے بھی نہیں کرسکتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:مَن صَلَّى صَلَاتَنَا، ونَسَكَ نُسُكَنَا، فقَدْ أصَابَ النُّسُكَ، ومَن نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فإنَّه قَبْلَ الصَّلَاةِ ولَا نُسُكَ له(صحيح البخاري:955)
ترجمہ: جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔
اس حدیث نے بالکل واضح کردیا کہ قربانی اسی صورت میں پیش کی جائے گی اور اللہ کے یہاں مقبول ہوگی جو رسول اللہ کی سنت کے مطابق ہوگی۔ ورنہ وہ قربانی نہیں جانور کا گوشت ہے جیسا کہ ایک صحابی نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی تو آ پ نے کہا: “شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ”
کہ تمھاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔
ذرا اندازہ لگائیں کہ قربانی میں جب معمولی وقت کی تقدیم وتاخیر نہیں کرسکتے ہیں تو اس کی قیمت ادا کرنا قربانی کیسے کہلائے گی؟ کورونا وائرس جیسے محتاجگی کے وقت بھی قربانی کی قیمت ادا کرنا قربانی نہیں ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تنگی کا موقع آیا لیکن آپ نے قربانی کے موقع پر اس کی قیمت صدقہ کرنے کو نہیں کہا، صحیح بخاری کی اس حدیث سے اندازہ لگائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَن ضَحَّى مِنكُم فلا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثالِثَةٍ وبَقِيَ في بَيْتِهِ منه شيءٌ فَلَمَّا كانَ العامُ المُقْبِلُ، قالوا: يا رَسولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كما فَعَلْنا عامَ الماضِي؟ قالَ: كُلُوا وأَطْعِمُوا وادَّخِرُوا، فإنَّ ذلكَ العامَ كانَ بالنَّاسِ جَهْدٌ، فأرَدْتُ أنْ تُعِينُوا فيها(صحيح البخاري:5569)
ترجمہ: جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قربانی میں جانور ذبح کرنا ہی مقصود ہے لہذا جن کو اللہ نے قربانی کی وسعت دی ہے وہ سنت کے مطابق جانور کی قربانی کریں۔ جہاں تک کورونا وائرس کے مسائل کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں:
پہلے جو لوگ ایک فیملی کی طرف سے کئی کئی قربانی کرتے تھے وہ امسال پورے گھرانہ کی طرف سے ایک ہی جانور کی قربانی کریں، یہ سب کی طرف سے کفایت کرجائے گا اور بقیہ پیسوں کو محتاجوں پر صدقہ کردیں۔ ایک جانور کی قربانی پورے گھرانہ کی طرف سے امسال کے لیے نہیں ہمیشہ کے لیے مشروع ہے۔
کچھ لوگ بڑے جانور میں کئی کئی حصے لیتے ہیں وہ امسال ایک ہی حصہ گھر کے سرپرست کی طرف سے لیں اور باقی پیسوں کو صدقہ کردیں ۔
میت کی طرف سے قربانی مشروع نہیں ہے پھر بھی بہت سے لوگ میت کی طرف سے قربانی کرتے ہیں ان لوگوں سے گزارش ہے کہ میت کی طرف سے مالی صدقہ کریں اور کورونا سے متاثر افراد کی مدد کریں۔
اگر آپ قربانی کرکے اس کا سارا گوشت محتاجوں میں تقسیم کردیتے ہیں تو بھی آپ کی قربانی صحیح ہے حتی کہ آپ اپنی قربانی دوسرے محتاج کو دے سکتے ہیں یا دوسری جگہوں پر بھی بھیج سکتے ہیں تاکہ وہ آپ کی قربانی کے گوشت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
جو لوگ ہرسال قربانی کرتے تھے مگر امسال قربانی دینے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں انھیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ کا فضل عام ہے اور اس کے فضل سے کوئی محروم نہیں ہوسکتا۔ نیت کا پایا جانا حصول ثواب کے لیے کافی ہے جبکہ اس عمل کی استطاعت نہ ہو۔ ساتھ ہی جو لوگ ایک ذوالحجہ سے نماز عید تک اپنے بال وناخن نہ کاٹیں انھیں بھی قربانی کا اجر ملتا ہے۔
وقتی محتاج اس محتاجگی کے دور میں قرض لے کر قربانی کرسکتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ قرض کی ادائیگی آسان ہو۔
محتاجوں کی مدد کرنا ایک الگ چیز ہے اور قربانی کرنا ایک الگ چیز ہے۔ قربانی کے ذریعہ بھی ہم محتاجوں کی مدد کرسکتے ہیں جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور نفلی وواجبی صدقات کے ذریعہ بھی مدد کرسکتے ہیں لیکن تعاون کے لیے قربانی کی صورت بدل نہیں سکتے ہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اس عالمی وبا سے نجات دے، ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت دے اور ہر قسم کی عبادات کی ادائیگی میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Hamza

Alhumdulilah jazakallahkher
Please give this Einglish