اپنی خامیوں کا تجزیہ

محمد مظہر الاعظمی تعلیم و تربیت

عصر حاضر کے مسلمانوں میں جو سب سے زیادہ خاص بات ہے وہ یہ کہ اپنی کسی بھی شکست و ریخت اور ناکامی کے بعد اپنے گریبان میں جھانک کر ایمانداری کے ساتھ اپنا جائزہ نہیں لیتے، اور نہ ہی تجزیہ کر کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ اس کی تمام تر ذمہ داری مخالفین کے سر تھوپ کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے مخالفین کی سازش کارفرما ہے، ہمارے خلاف ہمیشہ ریشہ دوانی میں لگے رہتے ہیں اور انہی ریشہ دوانیوں کا یہ ثمرہ اور نتیجہ ہے۔
اگر چند لمحہ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ مخالفین ہمیشہ سازش اور ریشہ دوانی کرتے ہیں تو کیا دشمن سے بھلائی اور خیر کی امید رکھی جاتی ہے یا ان کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے ہوشیار رہا جاتا ہے، یہ جاننے کے باوجود کہ یہ ہمارا دشمن ہے اور صرف دشمن ہی نہیں ہے بلکہ ہر وقت نقصان پہنچانے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود خود اپنی ناکامی اور ناکامیابی کی ذمہ داری غیروں پر ڈالنا دنیا کو بیوقوف بنانے اور سمجھنے کے مترادف ہے۔
اگر ایک شکاری عام لوگوں کے بھیس میں آئے اور جال اتنی ہوشیاری سے بچھائے کہ ہم بھانپ نہ سکیں اور پھنس جائیں تو یہاں تو عذر سمجھ میں آتا ہے، مگر شکاری اپنے شکاری کے لباس میں آئے اور جال بھی سامنے بچھائے اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ شکاری ہے اور ہم کو شکار کرنے کے لیے جال بچھارہا ہے اور ہم جال میں پھنس جائیں تو کیا کوئی شخص ہے ہمارے عذر کو قبول کرے گا۔ نہیں…!! بلکہ ہر شخص برجستہ کہے گا کہ سب کچھ جاننے کے باوجود کیسے پھنس گئے؟ اس میں سراسر غلطی تمھاری ہے۔
اس وقت کی صورت حال کے لحاظ سے دوست و دشمن کو پہچاننا مشکل نہیں، سمجھنے میں دھوکہ پڑھ سکتا ہے، جس کا امکان ہر وقت رہتا ہے۔ جب ہم اپنے دوست دشمن کو پہچانتے ہیں تو پھر دشمن کی نقل و حرکت پر ہروقت نگاہ رکھنا چاہیے تاکہ اس کی دسیسہ کاری اور عیاری سے محفوظ رہیں وہ کبھی نقصان نہ پہنچاسکے بلکہ اس کی پلاننگ وقت سے پہلے ہی فیل کردی جائے، اپنی ناکامی کے اسباب غیروں پر تھوپنے کے بجائے اس کا تجزیہ کر کے مداوا تلاش کرنا چاہیے، البتہ غیروں کی سازش سے باخبر رہنا چاہیے اور اس کا قلع قمع اخلاق و کردار کی تلوار سے کرنا چاہیے۔
ہم لوگ اب تک اسلاف کی حصولیابی کا ذکر کرکے فخر کرتے رہے ہیں جو انھوں نےاخلاق و کردار کی تلوار سے حاصل کیا تھا، مگر اب تاریخ کے اس باب کو دہرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے اخلاق و کردار کی تلوار سے دنیا فتح کر کے تاریخ خود مرتب و مزین کرنے کا وقت آگیا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000