قربانی میں ذبح کیے جانے والے جانور کا بہیمۃ الانعام -یعنی گھریلو پالتو جانور– کا ہونا شرط ہے ورنہ قربانی درست نہیں۔ علامہ عبید اللہ مبارکپوری فرماتے ہیں:
معلوم ہونا چاہیے کہ قربانی کے لیے چوپایہ پالتو جانور ہی درست ہے۔ [مرعات ۵/۸۲]
دلیل: الف:
اللہ تعالى کا فرمان:
“و لكل أمة جعلنا منسكا ليذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فإلهكم إله واحد فله أسلموا و بشر المخبتين” [سورۃ الحج ۳۴]
(ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کے طریقے متعین کردیے ہیں تاکہ اللہ نے انھیں جو چوپائے دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں۔ سمجھ لو! تم سب کا ایک ہی معبود برحق ہے، اس کے تابع فرمان ہو جاؤ اور فرمانبرداری و عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سنادو)
اس کی تفسیر دوسری آیت میں اللہ تعالى نے:
“[ثمانية أزواج] آٹھ جوڑے” [سورۃ انعام ۱۴۳] کی شکل میں کردی ہے ۔
ب: علما کا اجماع:
محمد بن اسماعیل صنعانی فرماتے ہیں:
علما نے سارے چوپائے پالتو جانوروں کی قربانی کے جواز یعنی جائز ہونے پر اجماع کیا ہے۔[سبل السلام ۴/۱۷۶]
بہیمۃ الانعام سے مراد کون سے جانور ہیں؟
جواب:امام طبری فرماتے ہیں:
انعام سے اونٹ گائے اور بکری مراد ہے اور بہیمۃ سے ان جانوروں کی اولاد مراد ہے۔[تفسیر طبری ۹/۴۵۷]
امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
اس سے اونٹ گائے اور بکری مراد ہےاور اس کی تفسیر اللہ تعالى نے سورہ انعام میں ثمانیۃ ازواج کی شکل میں کردی ہے۔[تفسیر ابن کثیر ۵/۴۱۶] یہی قتادۃ و حسن اور دیگر اہل علم کی رائے ہے۔[تفسیر طبری ۹/۴۵۶. و الشرح الممتع ۶/۴۹] سورہ انعام کی آیت نمبر ۱۴۳ و ۱۴۴سے معلوم ہوتا ہے کہ بہیمۃ الانعام سے مراد بھیڑ کی دونوں صنفیں یعنی نر و مادہ، بکریوں کی دونوں صنفیں، اونٹ اور گائے کی دونوں صنفیں مراد ہیں۔امام سدی کہتے ہیں: ثمانية أزواج من الضأن اثنين ومن المعز اثنين، ومن البقر اثنين ومن الإبل اثنين.ثمانیۃ ازواج یعنی بھیڑ کی دونوں صنفیں اور بکریوں کی دونوں جنسیں، اسی طرح اونٹ اور گائے کی دونوں جنسیں مراد ہیں۔[تفسیر طبری ۱۲/۱۸۶]
عبدالقاہر جرجانی کہتے ہیں:
والمراد بالثمانية الأزواج الذكور والإناث جميعًا، ثمانیۃ ازواج سے ذکور و اناث دونوں مراد ہیں۔[درج الدرر فی تفسیر الآی و السور۲/۷۳۶]
امام طبری فرماتے ہیں:
“الأنعام”هي الإبل والبقر والضأن والمعز، هذه”الأنعام”التي قال الله:”ثمانية أزواج”
انعام سے مراد:
بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے ہیں۔ انہی انعام – چوپائے کے بارے میں اللہ تعالى نے آٹھ جوڑے کہا ہے۔ [تفسیر طبری ۱۲/۱۸۷]
بھینس کی قربانی:
اونٹ، بکری، بھیڑ اور گائے کی قربانی میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن بھینس کی قربانی مختلف فیہ ہے۔ سبب اختلاف یہ ہے کہ بھینس گائے کی جنس سے ہے یا نہیں؟ جن لوگوں نے گائے کی جنس سے نہیں مانا ہے وہ کہتے ہیں اس کی قربانی درست نہیں اور جو لوگ گائے کی جنس سے مانتے ہیں وہ اس کی قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں اور یہی قول راجح ہے۔ چنانچہ امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے کہا: بھینس سات شخصوں کی طرف کافی ہے؟ تو فرمایا: مجھے اس کے خلاف معلوم نہیں۔ [مسائل الامام احمد ۸/۴۰۲۷]
امام منذر کہتے ہیں:
أجمع كل من يحفظ عنه من أهل العلم على هذا و لأن الجواميس من أنواع البقر
(سارے علما نے اس –بھینس کی قربانی کے جواز- پر اجماع کیا ہے اور اس لیے کہ بھینس گائے کے اقسام میں سے ہے) یہی حسن بصری، زہری، مالک، ثوری، اسحاق، شافعی اور اہل راے کا قول ہے۔ [الاشراف على مذاہب العلماء۳/۱۲]
علامہ ابن حزم زکاۃ کے باب میں فرماتے ہیں:
الجواميس صنف من البقر يضم بعضها إلى بعض [المحلى ۴/۸۹]
(بھینس گائے کی ایک قسم ہے، ایک کو دوسرے کے ساتھ- حکم میں- ملا دیا جاتا ہے)
علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:
بھینس گائے ہی کی طرح ہے، ہمیں اس بارے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ [المغنی ۲/۴۴۴]
امام شوکانی نے اپنی تفسیر میں لیث بن ابی سلیم کا یہ قول نقل کیا ہے و ہ کہتے ہیں:
الجاموس و البختي من الأزواج الثمانية [فتح القدیر ۲/۱۹۵]
(بھینس اور بختی- ایک قسم کا بڑا اونٹ- آٹھ جوڑوں میں سے ہیں)
لغت و ادب کے امام ابو منصور محمد بن احمد ازہری زہری فرماتے ہیں:
أجناس البقر منها الجواميس واحدها الجاموس و هي من أنبلها و أكرمها و أكثرها ألبانا و أعظمها أجساما [الزاھر فی غریب الفاظ الشافعی ص ۱۰۱]
(بھینس گائے کی نسلوں میں سے ہے، بھینس اس کی عمدہ و بہترین قسم ہے، سب سے زیادہ دودھ دینے والی اور سب سے بڑے جسموں والی ہے)
امام لغت ابو الحسن ابن سیدہ لکھتے ہیں:
الجاموس نوع من البقر [المحکم المحیط الاأعظم ۷/۲۸۳]
(بھینس گائے کی ایک قسم ہے)
شمس الدین محمد بن عبد اللہ زرکشی حنبلی لکھتے ہیں:
الجواميس أحد نوعي البقر فحكمها حكمها. والله أعلم. [شرح الزرکشی على مختصر الخرقی ۲/۳۹۳]
(بھینس گائے کی دو قسموں میں سے ایک ہے، بھینس کا حکم گائے کا حکم ہے)
امام نووی فرماتے ہیں:
فَشَرْطُ الْمُجْزِئِ فِي الْأُضْحِيَّةِ أَنْ يَكُونَ مِنْ الْأَنْعَامِ وَهِيَ الْإِبِلُ وَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ سَوَاءٌ فِي ذَلِكَ جَمِيعُ أَنْوَاعِ الْإِبِلِ مِنْ الْبَخَاتِيِّ وَالْعِرَابِ وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبَقَرِ مِنْ الْجَوَامِيسِ وَالْعِرَابِ والدربانية وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْغَنَمِ مِنْ الضَّأْنِ وَالْمَعْزِ وَأَنْوَاعِهِمَا وَلَا يُجْزِئُ غَيْرُ الْأَنْعَامِ. [المجموع ۸/۳۹۳]
(قربانی درست ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ چوپائے پالتو جانور ہوں اور یہ جانور اونٹ، گائے اور بکری ہے۔ اس میں اونٹ کے سارے اقسام جیسے بختی و عرابی اور گائے کے سارے انواع جیسے بھینس، عراب اور دریانیہ -ایک قسم کی گائے- غنم کے سارے انواع جیسے بھیڑ و بکریاں اور ان دونوں کے انواع کی قربانی درست ہے۔ اس کے علاوہ جو انعام نہ ہو اس کی قر بانی درست نہیں)
اور بہت سے اقوال ہیں جو بھینس کو گائے کی نسل سے بتاتے ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ بھینس گائے سے بہت سی صفتوں میں مختلف ہے تو کیا بھینس آٹھ جوڑوں میں شامل ہوگی اور اس کی قربانی جائز ؟ تو جواب دیتے ہوئے فرمایا: بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔ اللہ تعالى نے عربوں کے نزدیک معروف و مشہور چیزوں کا ذکر کیا اور جاموس -بھینس– عربوں کے یہاں غیر معروف تھی۔ [مجموع فتاوى و رسائل ابن العثیمین ۲۵/۳۴]
مذکورہ بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ بھینس کی قربانی جائز ہے کوئی حرج نہیں لیکن اگر کسی کا دل مطمئن نہیں ہوتا ہے اور وہ گائے کی قربانی پر قادر ہے تو گائے کی کرے لیکن بھینس کی قربانی درست ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ شیخ الحدیث مولانا رفیق اثری فرماتے ہیں: یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جا سکتی ہے یا نہیں سلف صالحین میں متنازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوا۔ چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے جبکہ ایسے مسئلہ میں شدت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ [بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ از نعیم الحق الحق ملتانی ص ۱۹] مذکورہ بالا علما کے اقوال و لغویوں کے آراء سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اسی طرح مذکورہ بالا آیت اور اقوال علما سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جس طرح نر کی قربانی جائز ہے بعینہ اسی طرح مادہ کی قربانی بھی جائز ہے اور اس پر اجماع قائم ہے چنانچہ امام نووی فرماتے ہیں: ذکر و انثى یعنی نر و مادہ دونوں کی قربانی کے جواز پر اجماع ہے۔[المجموع ۸/۳۹۷]