امام صاحب کی تین کہانیاں

ابوالمیزان منظرنما

مشکل ہو یا آسانی وقت کی رفتار دونوں کو پنکھ دے دیتی ہے۔ سفر سے تیز تو خبر ہے، بیماری بھلے بعد میں پہنچی اس کی خبر پہلے پہنچ گئی تھی اور اب ایسا لگتا ہے یہ بیماری پورے ایک سال کی خبر لے کر ہی رہے گی۔ چین سے نومبر میں چلی تھی، دن بدن رنگ روپ بدلتی خبریں کہتی ہیں نومبر تک تو چلے گی ہی۔ لاک ڈاؤن شروع ہوا تھا تو اس آڈیو پر یقین کرنا کتنا‌ مشکل ہورہا تھا کہ تیس جون تک لاک ڈاؤن چلے گا۔ آج سات جولائی ہے اب تو ایسا لگتا ہے لاک ڈاؤن ہی زندگی ہے ایسی ہی تو تھی ہمیشہ۔ مسلسل کتنے جمعے گزر گئے اندازہ تک نہیں تھا پہلے کہ زندگی میں کبھی ایسے حالات بھی آسکتے ہیں۔ عید گھر میں گزر سکتی ہے، چھٹی تو چھٹی جمعہ کا دن کب آیا کب چلا گیا یاد بھی نہ رہے گا۔
سب نے جینا‌ سیکھ لیا ہے۔ بھوک، فاقہ، بیماری، بے روزگاری سب نے۔ ہجرتوں کا ایک موسم گزر چکا ہے، تقسیم ہند کے وقت پلاین کرنے کے دوران جو قتل عام ہوا تھا وہ تو نہیں ہوا مگر موتیں بہت ہوئیں۔ پرندوں کی طرح جو انسان اپنے اپنے گھونسلوں سے دور دانہ چگنے شہروں کی طرف آئے تھے جب کال پڑا سناٹا پسرا تو بھوک کے ڈر سے اپنے جائے امان کی طرف بھاگے ہیں تو ایسی بھگدڑ مچی کہ ہزاروں پنکھ ٹوٹ گئے۔ انیس سو سینتالیس میں مجبور مارے گئے تھے اور اب مزدور۔
امام صاحب یہ تینوں کہانیاں خود ہی سنانا چاہتے تھے۔ مگر پھر مجھے سناکر ایسے مطمئن ہوئے کہ پلٹ کر نہیں دیکھا۔ پورا ایک مہینہ گزر چکا ہے۔ کال یا میسج کرکے ایک بار بھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ میرے پیٹ میں وہ کہانیاں سمائی کیسے ہیں۔ ہولڈ کرنا تو کچھ مشکل کام نہیں تھا مگر ہضم کر لے جانا، وہ میرے بس کا روگ نہیں ہے۔
درد کا وہ سلسلہ جو لاک ڈاؤن کے سبب مدارس کے اساتذہ کے ساتھ شروع ہوا تھا وہ اب کہیں کہیں درد گراں بن چکا ہے۔ گرانی کا تو یہ حال ہے کہ جات کا پھول گوبھی بھی اب خوشبو بکھیرنے لگا ہے۔ پرور کو ہی ہمیشہ ٹاپ پر دیکھتے آئے تھے۔ اب تو سیم بھی مرغی کے بھاؤ بکتا ہے۔ ایک طرف سبزیوں کا یہ حال ہے کہ سیکڑوں میں بک رہی ہیں دوسری طرف انسانوں کی یہ ارزانی کہ ڈر مارے ڈال رہا ہے۔
لاک ڈاؤن ہوا، کام رکے، مسجدوں پر تالے پڑے مدرسے بند ہوئے، اساتذہ گھر بیٹھے، رمضان آیا کلیکشن نہیں ہوا بیلنس ختم ہونے لگا بیلنس ختم ہونے کا ڈر بڑھا۔ تنخواہیں روک دی گئیں، آدھی کر دی گئیں۔ اساتذہ کے تقاضے بڑھے برخاست کردیا گیا۔ اب؟ بڑا سا سوالیہ نشان سب کے سامنے ابھی بھی ہے۔
جنھوں نے دینا چاہا وہ اب تک دے رہے ہیں۔ جن کی نیت خراب تھی انھیں بہانہ مل گیا۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو دینا چاہتے تھے مگر دے نہ سکے۔
امام صاحب کی تینوں کہانی میں یہ تینوں قسم کے لوگ موجود ہیں۔
پہلی کہانی: لاک ڈاؤن میں اپنی مسجد کے علاقے میں ضرورت مندوں کے لیے راشن ہیلپ ڈرائیو امام صاحب کا آئیڈیا بھر نہیں تھا پہلی رقم بھی انہی کی تھی۔ امام صاحب کو دست تعاون دراز کرتے دیکھ تمام اہل خیر آگے بڑھے، حسب استطاعت خرچ کیا۔
دوسری کہانی: امام اور مؤذن صاحبان کی تنخواہ کے لیے مسجد کے اکاؤنٹ میں موجود رقم ناکافی تھی۔ امام صاحب نے راشن ہیلپ کا کام کرنے والے ایک صاحب استطاعت سے صورت حال بتائی تو بھڑک گئے۔
“مسجد کے صدر اور سکریٹری کس لیے ہیں؟” صاف منع کردیا۔ اس کار خیر کی توفیق ملی دوسرے صاحب کو۔ اللہ رب العالمین ان کے مال‌ میں برکت دے۔
تیسری کہانی: ایک صاحب تراویح پڑھانے والے دونوں حافظ اور امام و مؤذن صاحبان کو گذشتہ کچھ سالوں سے ہر رمضان میں کچھ رقم ہدیہ کیا کرتے تھے۔ اس لاک ڈاؤن میں بھی جب کہ تراویح نہیں ہوئی انھوں نے امام صاحب کو بلاکر وہ پوری رقم دی۔ امام صاحب نے دونوں حفاظ کے اکاؤنٹ میں وہ پیسے ٹرانسفر کرادیے۔ اللہ رب العزت ان صاحب کو تاحیات مالامال رکھے۔
امام صاحب کے بیان کیے ہوئے ان واقعات میں انیک کردار ہیں۔ ہم سب کے اندر جو انسان ہے وہ ان میں سے کسی نہ کسی کردار سے ضرور ریلیٹ کرتا ہوگا۔
درد ہے، ایک کا ہے مگر محسوس سب کو ہونا چاہیے۔ یہی ایمان کا رشتہ ہے۔ اگر یہ احساس نہیں ہے تو ہمارے پہلو میں جو دل ہے اس کی سروسنگ کا وقت ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے کہ رپیئرنگ لائق نہ رہ جائے فوری توجہ ضروری ہے۔
درد تماشا کے لیے نہیں ہے، درد آہ بھرنے کے لیے بھی نہیں ہے اور نہ ہی درد کی کہانیاں واہ واہی بٹورنے کے لیے سنائی جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے ذمے دار کے گناہ میں شریک ہوں۔ اگر ہم ذمے دار کو اس کی ذمے داری کی ادائیگی میں تعاون کرسکتے ہیں مگر نہیں کرتے تو ہم بھی گنہ گار ہیں۔ صدر اور سکریٹری کا تو جو کام ہے وہ تو ہے ہی، ہم تمام مصلیوں اور مقتدیوں کی بھی ذمے داری ہے کہ ہم اپنی مسجد کے اماموں کے ساتھ، معماران قوم یعنی اپنے اساتذہ کے ساتھ ہر ضرورت میں کھڑے رہیں۔ جیسے ‌نمازوں میں امام صاحب کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں، ملاقاتوں میں اساتذہ کے سامنے ادب سے بیٹھے رہتے ہیں اسی طرح ان کے مشکل وقتوں میں بھی ان کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ صدر اور سکریٹری پر اماموں اور اساتذہ کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان کی ادائیگی میں بھی ساتھ رہیں، دور کھڑے ہوکر تماشہ نہ دیکھیں، ٹپنی نہ کریں۔

آپ کے تبصرے

3000