پس منظر:
تحریک شہیدین کا ذکر تو ہر کوئی فخر سے کرتا ہے لیکن اس کے پھیلاؤ کی جب بات آتی ہے تو پنجاب سے شروع ہوکر صادقپور میں آکر اٹک جاتا ہے۔ جب سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے پنجاب کے سرحدی علاقوں میں نئی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی تو کچھ نام نہاد افغانی مسلم سرداروں کی دغابازیوں کی وجہ سے بالاکوٹ کا دل فگار اور خونچکاں سانحہ پیش آیا جہاں علامہ محمد اسمعیل اور سید احمد شہید رحمہما اللہ نے جام شہادت نوش فرمایا اور یہ تحریک امید کے مطابق کامیاب نہ ہوسکی۔
سانحہ بالاکوٹ کے بعد جب اکثر لوگوں کے پاؤں ڈگمگاگئے اس وقت پٹنہ عظیم آباد کے محلہ صادق پور کے ایک عظیم سپوت مولانا ولایت علی صادق پوری نے اس کے علم کو سنبھالا۔ آپ کے بعد مولانا عنایت علی صادق پوری، مولانا عبداللہ صادق پوری اور مولانا عبدالکریم عظیم آبادی نے بالترتیب اس تحریک کی ذمہ داری سنبھالی اور اسے اپنے خون پسینہ سے سینچا۔
اس تحریک کا پھیلاؤ بنگلہ دیش تک تھا اور اس پورے علاقے کا دارالحکومت ہونے کا شرف گمانی کو حاصل تھا۔
آج ہمارا موضوع بھی یہی “گم گشتہ تاریخی مقام اور اس کے گمنام سپوت” ہیں۔
گمانی کا محل وقوع:
یہ تین بڑے شہر پاکوڑ، مالدہ اور راج محل کے درمیان واقع ایک سبزہ زار علاقہ ہے، اس کے آس پاس تین اہم تاریخی مقامات ہیں:
(1) تیلیا گڑھی جو گمانی سے 98 کلومیٹر دوری پر واقع ہے، عہد ماضی میں اسے بنگال میں داخل ہونے کا اسٹریٹیجک دروازہ مانا جاتا تھا کیونکہ ایک طرف گنگا رواں دواں ہے دوسری طرف لمبا کوہستانی سلسلہ ہے اور دونوں کے بیچ یہ قلعہ واقع تھا جسے فتح کرنا بنگال میں داخل ہونے کے لیے ضروری تھا۔
(2) گوڑھ جو گمانی سے 50 کلومیٹر دوری پر ہے، یہ بنگال کی راجدھانی تھا جسے محمد بن بختیار خلجی نے 1199ء میں بسایا تھا۔
(3) گمانی سے 36 کلومیٹر کی مسافت پر راج محل ہے، جسے مغل صوبیدار مان سنگھ نے عہد اکبر میں بنگال کی راجدھانی بنایا تھا۔
آج کل گمانی چند گھنی آبادی والے گاؤوں کا مجموعہ ہے، جو گمانی اور کارنی ندی کے کنارے آباد ہیں، یہ سنتھال پرگنہ (بہار کے بھاگلپور سے بنگال کے بیربھوم تک کا علاقہ سنتھال پرگنہ کہلاتا تھا جو آج سمٹ کر چند ضلعوں میں تبدیل ہوگیا ہے) کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب راج محل کے سبز پوش کوہستانی سلسلوں سے مرشدآباد کے مرغ زار کھیتوں تک گمانی اور اس کے مضافات کا علاقہ سپاہیانہ ترکتازیوں کی جولان گاہیں ہوا کرتا تھا، یہاں کے شجر و حجر نے کئی شاہوں، نوابوں، صوبیداروں اور شہزادوں کو ابھرتے ڈوبتے دیکھا ہے، آج جس گمانی کو تاریخ کے سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے کسی زمانے میں تاریخ کا دھارا موڑ دینے والے عظیم معرکوں کا چشم دید گواہ رہ چکا ہے۔
گمانی (دلالپور) تحریک صادقپور کا ذیلی مرکز:
“تاریخ کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ گمانی کے تین قصبوں کا ذکر آیا ہے
(1) اسلام پور
(2) نارائن پور
(3) دلالپور (آخر الذکر کا نام نہیں آیا لیکن حقائق اسے ثابت کرتے ہیں)
انگریز مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے مطابق عظیم آباد (پٹنہ) کے خلیفہ مولانا ولایت علی نے شمال مشرقی ہندوستان کے لیے عبدالرحمن لکھنوی ملیح آبادی کو سن 1840 میں امیر بناکر مالدہ کی طرف روانہ کیا ( اس وقت گمانی مالدہ ضلع کا حصہ تھا اور پورا علاقہ صوبہ بنگال میں شمار ہوتا تھا) وہ یہاں تشریف لائے اور یہیں بس گئے، انھوں نے ایک لڑکی سے شادی کرلی (مولانا احمداللہ خاں عظیم آبادی کی بیٹی سے ان کی شادی ہوئی تھی) ان کا سب سے اہم کام تھا لوگوں کو شرک و بدعت سے دور کرنا، جنگ آزادی کی لڑائی میں شرکت کی دعوت دینا اور لوگوں سے صدقات و خیرات وصول کرکے جنگی سرگرمیوں کے اخراجات کے لیے عظیم آباد کی طرف بھیج دینا۔ چنانچہ انھوں نے تدریسی کام شروع کردیا اور اپنی ذمہ داری بھی بخوبی نبھانے کا آغاز کیا، علاقے کے لوگوں کے مرجھائے ہوئے ضمیر کو اپنی پرجوش تقریروں سے جھنجھوڑنے اور ان میں جنگ آزادی کی روح پھونکنے لگے، لوگوں پر اس کا مثبت اثر پڑا اور جوانوں کی فوج تیار ہونے لگی، وہ ان کی تربیت کرتے، ابتدائی ٹریننگ دیتے اور سرحدی کیمپ کی طرف انگریزوں سے لوہا لینے کے لیے روانہ کردیتے۔
انھیں 1853 میں شبہ کی بنیاد پر گرفتار بھی کیا گیا لیکن جرم ثابت نہ ہونے کی وجہ سے رہا کردیا گیا۔
ان کا معمول تھا کہ لوگ جب ان کی بنیادی باتوں کو مان لیتے، کتاب و سنت کے راستے پر آجاتے تو اس گاؤں میں ایک سردار مقرر فرماتے جو دینی مجالس اور صدقات و خیرات وصولی کی نگرانی کرتا، ان کے معاونین میں سے ایک ابراہیم منڈل تھے اور دوسرے رفیق منڈل اور ان کے فرزند مولوی امیرالدین، ان تینوں عظیم سپوتوں پر مالدہ اور راج محل کی عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا گیا اور انھیں کالا پانی کی سزائیں ہوئیں”
(The Indian Musalmans, WW Hunter : 79
سرگزشت مجاہدین غلام رسول مہر: 393 تا 395 )
گمانی کے مجاہد سپوت:
(1) مولانا عبد الرحمن لکھنوی ثم دلالپوری
میں نے ان کا پہلے ہی ذکر کردیا ہے، وہ اس علاقے کے امیر تھے، دلالپور میں انھوں نے ذیلی مرکز قائم کیا تھا، انھوں نے ہی ابراہیم منڈل، رفیق منڈل اور امیرالدین منڈل کی تربیت کی تھی، تحریک پر مکمل پابندی لگ جانے کے بعد انھوں نے ہی مدرسہ شمس الہدی السلفیہ کی بنیاد رکھی تھی اور 1878 سے 1940 تک ان ہی کے گھر میں طلبہ و اساتذہ کا کھانا بنتا تھا، ان کی عظیم قربانیوں کو گمانی والے کبھی فراموش نہیں کرسکتے، ان ہی کے فرزند ارجمند عبد الحنان دلالپوری تھے جن کا ذکر ہم بعد میں کریں گے ان شاء اللہ۔
(دامن کوہ میں کاروان رفتگاں ج1، ص:112)
(2) رفیق منڈل نراین پوری (اصل نام رفیع الدین منڈل)
شروع میں کہا جاچکا ہے کہ مولانا عبدالرحمن لکھنوی کے معاونین میں سے ایک رفیق منڈل تھے، یہ گمانی کے قصبہ نارائن پور کے رہنے والے تھے، انھوں نے 1853 تک بے خلل جماعت مجاہدین کے لیے کام کیا، 1853 میں شبہات کی وجہ سے ان کی تلاشی لی گئی تو ان کے پاس ایسے خطوط برآمد ہوئے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ان کا تعلق مجاہدین سے ہے، چنانچہ انھیں گرفتار کر لیا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد ان کی رہائی ہوگئی، رہائی کے بعد انھوں نے اپنے عہدے سے دستبردار ہوکر جماعتی کاروبار اپنے فرزند مولوی امیرالدین کو سونپ دیے۔
(The Indian Musalmans, WW Hunter : 79،
سرگزشت مجاہدین ،غلام رسول مہر : 393)
(3)مولانا امیر الدین منڈل نراین پوری
جب جماعتی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آئی تو انھوں نے اس کی آبیاری میں تن من دھن کی بازی لگا دی، ہنٹر نے ان کے متعلق بڑی تفصیل سے لکھا ہے، ان کا اثر و رسوخ مالدہ کے علاوہ مرشدآباد اور راج شاہی (موجودہ بنگلہ دیش میں ہے) کے بعض علاقوں پر بھی تھا، گنگا کے دونوں کنارے بسنے والے مسلمان انھیں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ان کا فراہمئ زر (صدقہ وصولی) کا طریقہ بہت سہل اور زبردست تھا، ہنٹر نے بھی ان کے اس طریقے کا ذکر کیا ہے، چار طریقوں سے وہ لوگوں سے صدقات وخیرات وصول کرتے تھے:
1.زکوۃ و عشر
2. عام صدقات
3. فطرانہ
(یہاں ہنٹر جل بھن کر لکھتا ہے کہ ان لوگوں نے فقراء و مساکین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے مساکین کے لیے مخصوص فطرانہ کو بھی جہادی سرگرمیوں میں صرف کرنا شروع کردیا تھا)
4. مٹھی کے چاول
(چونکہ گمانی میں غریبوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، لوگ کھانے پینے کو ترستے تھے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ چندہ دے سکے لہذا جماعت کے ذمہ داروں نے طریقہ نکالا تھا کہ عورتیں کھانا بناتے وقت روزانہ ایک مٹھی چاول الگ کرکے کسی برتن میں رکھ لیا کریں گی اور ان جمع شدہ چاولوں کو ہفتے کے ایک دن یعنی جمعہ کے مبارک دن محصل کے سپرد کر دیا کریں گی جو گھر گھر جاکر وصول کرتا تھا، آج بھی یہ طریقہ رائج ہے اور جامعہ شمس الہدی السلف یہ کے اخراجات میں صرف کیا جاتا ہے)
مولانا امیر الدین منڈل کے حسن کارکردگی نے علاقے پر بڑا اثر چھوڑا، آخر کار انگریزوں کو پتا چل گیا، جب مولانا احمداللہ عظیم آبادی پر مقدمہ چلا تو مولانا امیر الدین کا راز بھی فاش ہوگیا لیکن تحقیق و تفتیش میں انگریزوں نے خاصی دیر لگادی، بہت عرصہ کے بعد مولانا امیر الدین کو گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمہ دائر کرکے حبس دوام بہ عبور دریاۓ شور کی سزا دی گئی، یہ مقدمہ تاریخ میں مقدمۂ مالدہ کے نام سے جانا جاتا ہے، مارچ 1872ء میں ان کو انڈومان یعنی کالا پانی بھیج دیا گیا، وہاں بڑی مشقت بھرے ایام گزارے پھر انھیں وہیں تدریس کا کام سونپا گیا آخر کار 1883ء کی عام رہائی میں انھیں بھی آزادی نصیب ہوئی۔
(The Indian Musalmans, WW Hunter :80-82،
سرگزشت مجاہدین ،غلام رسول مہر : 393، ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک: 131)
آج بھی ان کا خاندان گمانی کے قصبہ نارائن پور میں آباد ہے، مولانا اشرف الحق رحمانی ان ہی کے پڑپوتے ہیں (مولانا اشرف الحق بن اسماعیل بن عبد الکریم بن امیر الدین بن رفیق منڈل) جو پورے علاقے کے امام مانے جاتے ہیں، مولانا عبد الحنان رحمہ اللہ نے اپنے آخری ایام میں ان کو ہی منصب امامت عنایت کیا تھا، اپنے علم و فضل اور تقوی شعاری میں معروف ہیں۔ آج کل گمانی کے قصبہ عبداللہ پور میں قائم جامعہ اسلامیہ سلفیہ کے صدر المدرسین ہیں۔
(4)ابراہیم منڈل اسلام پوری
یہ بڑے ہی غیور اور دیندار بزرگ تھے، گمانی کے ایک قصبہ اسلام پور کے رہنے والے تھے، اسلام پور سے دلالپور کب منتقل ہوئے یا وہ پہلے سے ہی دلالپور کے تھے یہ معلوم نہیں، تاریخ کی کتابوں میں اسلام پور ہے لیکن ان کا قائم کردہ مدرسہ دلالپور میں ہے، پورے علاقے پر ان کی تقوی شعاری معروف تھی، انھوں نے مولانا عبدالرحمن لکھنوی کا ابتدا سے ہی ساتھ دیا تھا، لہذا مولانا امیر الدین کی گرفتاری کے فورا بعد اکتوبر 1870ء میں ان پر مقدمہ چلا جو مقدمۂ راج محل کے نام سے مشہور ہوا اور حبس دوام بہ عبور دریاۓ شور نیز ضبطی املاک کی سزا ہوئی لیکن انھیں انڈمان نہیں بھیجا گیا۔
(سرگزشت مجاہدین: 394-395 ، ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک: 133)
(شنید ہے کہ لوگ پروانہ وار ان کی رہائی کے لیے راج محل کی طرف دوڑے چلے آئے، بعض لوگ گنگا کے راستے تیرتے ہوئے راج محل پہنچے اور انھوں نے عدالت کو گھیر لیا، عام بغاوت کے خوف سے انھیں انڈومان نہیں بھیجا گیا، نیز یہ بھی کہاجاتا ہے کہ وہ اس وقت بیمار تھے، ممکن ہے عام بغاوت کے خوف سے بیماری کا عذر لگاکر انھیں کالا پانی نہیں بھیجا گیا ہو) بالآخر 1878ءمیں ان کو رہا کردیا گیا۔
گمانی کے یہ چار اشخاص نمایاں ہیں جن پر مقدمہ دائر کیا گیا اور ان کے نام بھی عدالتی فائلوں میں موجود ہیں، ان کے علاوہ ہزاروں گمنام سپاہی ہوں گے جو تاریخ کی بھول بھلیوں میں گمنام ہوچکے ہیں، ان کا جوش جہاد اور ان کی محنتوں کا اثر اتنا زوردار تھا کہ سرحدی کیمپ میں ایک چوکی کے 430 لوگوں میں سے 10 فیصد تعداد صادقپور کے ذیلی مرکز (گمانی) سے آئے ہوئے نوجوانوں کی ہوتی تھی جو مولانا عبدالرحمن اور مولانا امیرالدین صاحب کے علاقے سے بھیجے جاتے تھے یعنی ہرچوکی میں گمانی کے چالیس سے پچاس جوان ضرور رہتے تھے۔ (سرگزشت مجاہدین: 393)
اب اندازہ لگائیں کہ گمانی کی سرزمین نے جنگ آزادی کے لیے کتنے سپوتوں کو شہادت کے حوالے کیا ہوگا!
تحریک آزادی کا خاتمہ اور علمی تحریک کا آغاز:
سطور بالا میں ہم نے گمانی کے مجاہدین آزادی کا ذکر کیا، جب مسلسل مقدمات میں الجھا کر جماعت کا خاتمہ ہوگیا تو رہبران قوم نے علمی جہاد کا آغاز کیا، چنانچہ ابراہیم منڈل نے جیل سے رہا ہونے کے بعد دین کی نشر و اشاعت کے لیے مولانا عبدالرحمن لکھنوی کے ساتھ مل کر 1878ء میں جامعہ شمس الہدی السلفیہ دلالپور کی بنیاد رکھی جس میں مولانا عبدالرحمن لکھنوی کے سسر مولانا احمد اللہ خان عظیم آبادی بھی شریک تھے، آج بھی یہ ادارہ اپنی علمی ضو فشانیوں سے جہالت کے گماشتوں کے ساتھ نبرد آزما ہے، موجودہ سکریٹری ضمیر الحق منڈل مجاہد آزادی ابراہیم منڈل کے پڑپوتے ہیں۔
ذیل میں ہم اس خطے کے بعض چنندہ علماء کا ذکر کررہے ہیں جن کا عوام و خواص پر بڑا گہرا اثر پڑا اور ایک مدت تک جنھوں نے اپنے خون بصیرت سے شمع توحید کو روشن رکھا:
مولانا عبد المنان دلالپوری
مولانا عبدالمنان دلالپوری تحریک شہیدین کے خلیفہ ولایت علی کی طرف سے مقرر کردہ امیر مولانا عبدالرحمن لکھنوی دلالپوری کے فرزند اور شیخ الحدیث عبدالحنان دلالپوری کے بڑے بھائی اور مجاہد تحریک شہیدین احمد اللہ خان عظیم آبادی کے نواسے تھے،
ان کی پرورش خالص علمی گھرانے میں ہوئی، ابتدائی کتابیں گھر میں مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کی غرض سے انھوں نے عظیم آباد کا سفر کیا۔
مولانا شمس الحق سلفی لکھتے ہیں:
“جس وقت مولانا عبدالمنان دلالپوری عظیم آباد بغرض تعلیم گئے تھے اس وقت عظیم آباد میں شیخ الکل فی الکل علامہ نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد علامہ شمس الحق عظیم آبادی صاحب عون المعبود کا سلسلہ درس جاری تھا، شاید آپ ان کے درس سے مستفید ہوئے ہوں گے”۔ (شیخ الحدیث مولانا عبد الحنان بن عبدالرحمن دلالپوری، شخصیت اور کارنامے:22)
مولانا شمس الحق سلفی مزید کہتے ہیں:
“انھوں نے پوری دلجمعی، توانائی، دانشمندی اور حکمت کے ساتھ تقریبا 1960 تک مدرسے کی مکمل ذمہ داری ادا کی، اس وقت مدرسہ شمس الہدی کے سیکریٹری آپ ہی تھے اور ابراہیم منڈل بعدہ ان کے فرزند معین الحق منڈل مدرسے کے صدر اور امیر جماعت تھے، معتمد لوگوں کا بیان ہے کہ مولانا عبدالمنان بغرض جہاد سرحدی علاقے بھی گئے تھے لیکن روداد معلوم نہیں، مولانا عبدالمنان نے 1960 میں مدرسے کا انتظام و انصرام اراکین مدرسہ کے سپرد کردیا اور بقیہ زندگی گوشہ نشینی میں گزاری، آپ کی وفات 1967 میں ہوئی”۔ (شیخ الحدیث مولانا عبد الحنان بن عبدالرحمن دلالپوری، شخصیت اور کارنامے: 22-23)
مولانا عبد الحنان دلالپوری:
سرزمین جھارکھنڈ میں دعوت وعلم کی اشاعت اور مسلک اہل حدیث کے فروغ میں جن شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا ان میں بڑا نام داعی گمنام مولانا عبدالحنان دلالپوری رحمہ اللہ کا ہے، یہ جماعت مجاہدین کے خلیفہ ولایت علی کی طرف سے مقرر کردہ امیر مولانا عبدالرحمن لکھنوی دلالپوری کے دوسرے فرزند تھے، آپ کی پیدائش موضع دلالپور صاحب گنج جھارکھنڈ میں 1895ء کو ہوئی، آپ کی والدہ مولانا احمد اللہ خان عظیم آبادی کی بیٹی تھی، لہذا آپ نے تعلیم یافتہ گھرانے میں نشوونما پائی، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے یوپی کے معروف شہر رام پور کا سفر کیا اور بارہ سال تک وہاں کے کبار اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔
1918ء کو تئیس سال کی عمر میں فراغت کے بعد دلالپور واپس آگئے اور اپنے آبائی مدرسہ شمس الہدیٰ السلفیہ دلالپور میں بحیثیت مدرس، مفتی، شیخ الحدیث اور صدر بحال ہوئے۔
آپ کے شاگرد مولانا و مفتی عبدالعزیز حقانی آپ کے متعلق فرماتے ہیں:
“بلامبالغہ استاذ محترم علم و فن کے بحر ذخار تھے، عبارت فہمی میں یکتائے روزگار تھے، عبارت فارسی ہو یا عربی بڑی آسانی سے حل کردیا کرتے تھے، بھاگلپور اور پٹنہ یونیورسٹیوں سے شعبۂ عربی و فارسی کے پروفیسران کبھی کبھی آپ سے عبارت سمجھنے اور حل کروانے کے لیے آپ کے پاس آیا کرتے تھے، مدرسہ شمس الہدیٰ کے اساتذہ بھی پیچیدہ اور مغلق عبارتیں آپ سے سمجھا کرتے تھے، تفسیر و حدیث، فقہ و ادب اور معقولات کی کتابوں کے آپ امام وقت تھے، علم میراث میں آپ کو مہارت تامہ اعلی درجے کی حاصل تھی، میں نے اس فن میں آپ کا ثانی نہیں دیکھا”
آپ ایک بہترین مناظر بھی تھے کئی مناظروں میں آپ نے شرکت کی تھی جن میں مناظرۂ برہروا، مناظرۂ پاکوڑ اور مناظرہ ہرنپور قابل ذکر ہے۔
اول الذکر مناظرہ ہندوؤں کے ساتھ وحدانیت اور آواگمن کے موضوع پر ہوا تھا، ثانی الذکر مناظرہ بریلویوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کے موضوع پر ہوا تھا جبکہ آخرالذکر مناظرہ تعزیہ پرستی کے موضوع پر ہوا تھا اور الحمدللہ ان تینوں میں آپ کو فتح حاصل ہوئی تھی۔
آپ کا سب سے اہم کارنامہ مدرسہ شمس الہدی دلالپور کی تعمیر و ترقی تھا، آپ کی خدمات 65 سال کو محیط ہیں۔
آپ کے علم و فضل کا اعتراف شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری نے بھی کیا ہے، اسی طرح علامہ داؤد راز نے بھی آپ کے علم و فضل کی گواہی دی ہے، جھارکھنڈ میں منعقد ایک اجلاس میں علامہ داؤد راز دہلوی کے استقبال میں جب لڑکے نعرے لگا رہے تھے تو انھوں نے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ “میرے استقبال میں تم لوگ کیا نعرہ لگاتے ہو؟ تمھارے یہاں مولانا عبدالحنان جیسے بلند پایہ عالم دین موجود ہیں، ان کی موجودگی میں میرے لیے نعرہ لگا کر مجھے رسوا و ذلیل نہ کرو”
مسلسل پینسٹھ سال تک علم و فن کا یہ آفتاب گمانی کے افق پر چمکتا رہا اور 25 دسمبر 1982 میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔
(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: شیخ الحدیث مولانا عبد الحنان بن عبدالرحمن دلالپوری، شخصیت اور کارنامے)
مولانا شمس الہدی عبد اللہ پوری:
مولانا شمس الہدیٰ عبداللہ پوری ضلع صاحب گنج جھارکھنڈ کے موضع عبداللہ پور میں 15 جنوری 1897ء کو ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے، والد بزرگوار کا شمار معزز علماء میں ہوتا تھا، ان کے دادا پر دادا نے حج کیا تھا اس لیے ان کے خاندان کو حاجی خاندان سے جانا جاتا تھا۔
مختلف مدارس میں آپ کی تعلیم ہوئی، آپ کے اساتذہ میں مولانا عبدالحنان دلالپوری، مولانا عبد السلام ندوی اور عبدالرؤف مولابخش وغیرہ سرفہرست ہیں۔
آپ کا سنہرا کارنامہ جامعہ اسلامیہ سلفیہ عبداللہ پور کی تاسیس ہے، مولانا مصلح الدین اعظمی جنھوں نے اس جامعہ میں تیس سال تدریسی خدمات انجام دیے تھے ان کے ساتھ مل کر آپ نے جامعہ کو خوب سینچا، اسی طرح ان کے علمی مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا عبدالوہاب آروی جو آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے امیر تھے اپنے اراکین مجلس شوریٰ میں مولانا شمس الہدیٰ کو بھی شامل کیا تھا، آپ کی سوانح عمری کئی کتابوں میں درج کی گئی ہے، مثلا: “تراجم علمائے اہل حدیث” نیز “صاحبگنجی علمائے اہل حدیث” اور ان کے کارنامے وغیرہ۔ (دامن کوہ میں کاروان رفتگاں: ج1 ص83 – 84)
دست بستہ گزارش:
افسوس کہ جھارکھنڈ کی تاریخ میں وطن کے ان بے باک مجاہدوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا، حالانکہ دیگر لوگوں کو کشادہ ظرفی سے قبول کیا گیا اور جابجا ہنٹر کی کتاب کا حوالہ دیا گیا لیکن اسی کتاب کے ایسے گوشوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا جن میں مسلم قوم کی قربانیاں مرقوم ہیں۔ لہذا با اثر لوگوں سے گزارش ہے کہ سرکاری نصاب تعلیم میں ان باکمال ہستیوں کو جگہ دی جائے، سڑک، ندی، پارک، چوک اور بازار وغیرہ کو ان کے نام سے موسوم کیا جائے،ض۔ اسی طرح علماء کرام سے بھی گزارش ہے کہ ہماری اس تابناک تاریخ کا ذکر مجلسوں، محفلوں، جمعہ کے خطبوں اور کانفرنسوں میں بار بار کیا جائے۔
شکریہ اس مضمون کے لئے!