مشکلات کا حل

م . ع . اسعد تعلیم و تربیت

زندگی ایک سفر ہے اور اس میں آنے والی مشکلات راستے کے بریکرس (Breakers) ہوتے ہیں۔ کامیاب وہی شخص ہوتا ہے جو ان بریکرس کا سامنا کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتا ہے، قدم لڑکھڑاتے ہیں تو سنبھلتا ہے، گرتا بھی ہے تو فوراً اٹھ کھڑا ہوتا ہے، راہ میں ٹھوکریں بھی لگتی ہیں، چوٹ بھی آتی ہے مگر ان سب کے باوجود کبھی رکتا نہیں بلکہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے اور پھر ایک دن منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں مشکلات کے متعلق لوگ بڑے ہی افراط و تفریط کے شکار ہیں، کچھ لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں مشکلات سرے سے آئیں ہی نہ، بلکہ ان کی پوری زندگی آسائش و آرام کے نرم بستر پر بسر ہو، نہ انھیں کبھی کوئی بیماری لاحق ہو اور نہ کبھی کسی ناموافق حالت کا سامنا کرنا پڑے یعنی راستہ بالکل صاف ستھرا اور سیدھا ہو تاکہ وہ بآسانی منزل تک پہنچ سکیں۔ دراصل یہ لوگ یا تو کثرتِ مشاکل کے سبب اندر سے بالکل ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں یا پھر پہلے سے ہی مشکلات سے گبھرائے ہوتے ہیں اور بزدلی کے شکار ہوتے ہیں، کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کی ہمت ان کے اندر نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ ہر وقت راستہ بدلتے رہتے ہیں جبکہ راستوں کی تبدیلی نہ تو مشکلات کے تالے کی چابی ہے اور نہ ہی منزل تک پہنچانے والی رسی (بلکہ مناسب راہ چن کر اس پر استقامت اختیار کرلینا اور پیش آنے والی مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کرنا ہی انسان کو کامیاب بناتا ہے) پس ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو ریس میں اکیلے ہی دوڑ کر جیت جائے، چناچہ ایسے لوگ بہت کم ہی منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔
اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تو ہوتے ہیں اور ان سے لڑنے کی اپنے اندر قوت بھی پاتے ہیں مگر اس میں حد درجہ غلو کے شکار ہو جاتے ہیں۔ یعنی اپنی زندگی کا مقصد وہ صرف اور صرف مشکلات کو سلجھانا ہی بنالیتے ہیں اور سلجھا بھی لیتے ہیں مگر دوسری طرف وہ بیچ راہ میں ہی اٹکے رہ جاتے ہیں اور منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ جبکہ ہر مشکل اس لائق نہیں ہوتی کہ اس کی طرف توجہ دی جائے اور اس کو سلجھانے کی سعی مشکور کی جائے بلکہ نظر انداز کرنا ہی بہت سی مشکلوں کا بہترین حل ہوتا ہے۔ مگر وہ ہر مشکل کو کچھ زیادہ ہی سیریسلی لے لیتے ہیں، بسا اوقات مشکل اتنی بڑی نہیں ہوتی لیکن وہ خود بخود اس میں ذہن کو الجھا کر بلا وجہ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں اور خوشی کی بیسیوں وجوہات کو چھوڑ کر، غم کی ایک چھوٹی سی وجہ کو لے کر پڑے رہتے ہیں اور پھر اپنی غلطی کا ٹھیکرا زندگی کے اوپر پھوڑ کر اس کے ظلم و ستم کا نالہ زمانہ بھر میں گاتے پھرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی میں کچھ نیا نہیں کر پاتے (اگر الفاظ کچھ سخت نہ ہوں تو) ان کی مثال مینڈک کی سی ہوتی ہے جو (مشکلات کے) اس کنوئیں کو ہی ساری دنیا تصور کرلیتا ہے جس کی بنا پر اس سے باہر نکلنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کرتا۔
جبکہ اس افراط و تفریط کے درمیان ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اعتدال کی راہ اختیار کرتا ہے، یعنی نہ تو ہر مشکل میں الجھ کر اپنا وقت برباد کرتا ہے اور نہ ہی تمام مشکلات سے کلی طور پر دستبرداری کا خواہاں ہوتا ہے۔ درحقیقت یہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور اپنی منزل تک پہنچتے ہیں۔
تنبیہ:
کچھ لوگ سب کچھ چھوڑ کر صرف اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ جس روز میری تمام پریشانیاں ختم ہوجائیں گی اسی روز میں اپنی عملی و اجتہادی زندگی کا آغاز کروں گا اور ایک نئے سفر کی شروعات کروں گا۔ ایک ایسا سفر جو سیدھا منزل پر ہی جاکر ختم ہو اور پھر اسی انتظار میں عمریں بیت جاتی ہیں مگر کوئی سورج ایسی صبح کے ساتھ طلوع نہیں ہوتا کہ جو مشکلات سے خالی ہو۔
ایسا‌ نہیں ہے۔ زندگی میں مشاکل کا آنا تو بالکل لازمی چیز ہے بلکہ یہ تو زندگی کا ایک جزء لاینفک ہے۔ لہٰذا جو لوگ بھی مشکل پروف زندگی کے خواہاں ہیں اور مکمل طور سے مصائب کے بادل چھٹنے کے منتظر ہیں وہ سراسر نادانی میں ہیں۔ کیونکہ یہ بادل تو ہمیشہ رہیں گے ہی، بلکہ کامیابی تو اسی کا نام ہے کہ ہم مشکلات کی ان کالی گھٹاؤں میں ہی اپنی محنت سے اپنے حصے کی شمع روشن کریں اور بلا خوف و خطر اپنی منزل کی جانب دوڑتے رہیں۔ دوڑ نہیں سکتے تو چلیں، چل نہیں سکتے تو گھٹنوں کے بل چلیں اور اگر گھٹنوں کے بل بھی چلنے کی طاقت نہ ہو تو کم از کم گھسٹتے ہوئے ہی سہی مگر اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہیں، رکیں نہیں، کیونکہ زندگی بڑی مختصر ہے۔
مختلف اعتبار سے مشکلات کی مختلف قسمیں ہوا کرتی ہیں، مثلاً:
1: وقتی اور دائمی مشکلیں
2: جسمانی اور روحانی پریشانیاں
3: چھوٹی اور بڑی مشکلات
4: وہ مشکلات جو سلجھانے کے لائق ہی نہ ہوں۔ اور وہ جو اس لائق ہوں کہ ان کو سلجھانے کی کوشش کی جائے۔
5: وہ مشکلیں جن کا سلجھانا ہماری قدرت میں ہو اور وہ جن کا حل کرنا ہماری قدرت سے باہر ہو۔
ان تمام اقسام کے عملی نمونے ہمیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے ملتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی ملتا ہے کہ مشکلات کے وقت ان کا ردعمل کیا رہا اور کس طرح انھوں نے تمام مشکلوں کا سامنا کیا۔
اول: مشکلات کے باب میں شریعت کی سب سے پہلی تعلیم یہ ہے کہ یہ یقین رکھا جائے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہی ہوتا ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا، لہٰذا یہ مصیبت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی سے ہے یعنی بالاختصار یہ کہ تقدیر پر ایمان رکھا جائے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے راضی رہا جائے۔ جیسا کہ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ”ابراہیم“ کی وفات کا واقعہ شاہد ہے۔
دوم: مشکل کسی بھی طرح کی ہو اس پر ابتدا ہی سے صبر کیا جائے، جزع فزع اور شکوہ شکایت سے پرہیز کیا جائے جیسا کہ اس بوڑھی صحابیہ کے قصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصبر عند الصدمة الأولى
سوم: اپنے اوپر آنے والی مشکلات کو “و ما أصابكم من مصيبة” کے تحت اپنے ہاتھوں کے کرتوت سمجھا جائے اور اپنے گناہوں کو یاد کرکے اللہ سے بخشش طلب کی جائے۔
چہارم: کسی بھی مشکل کے وقت وضو بنا کر دو رکعت نماز پڑھی جائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس مشکل کے حل ہونے کی التجا کی جائے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل تھا۔
پنجم: مشکل کے وقت انسان صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسباب سے قطع نظر رب کے بھروسے بیٹھا نہ رہے بلکہ اس کا حل تلاشنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل کو بھی اختیار کرے جیسا کہ “من قتل دون ماله فهو شهيد” والی حدیث اور فرمان الٰہی “فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ” سے معلوم ہوتا ہے۔
پس اگر شریعت کی ان تعلیمات پر عمل کیا جائے تو بہت حد تک انسان ان مشکلات کو سلجھانے یا کم از کم ان کا سامنا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000