زمین جب خشک ہوجاتی ہے اور بے آب و گیاہ میدان بن جاتی ہے تب تب رب کریم کی جانب سے بارش کا نزول ہوتا ہے پھر انسان، حیوان، چرند، پرند اور دیگر مخلوقات کی جان میں جان آجاتی ہے۔ جسمانی اعضاء بحال ہوتے ہیں، ہڈیوں میں گودے بھر آتے ہیں۔ یہ چیز انسان اور حیوان دونوں کو شامل ہے کہ ان کے جسموں کو تازگی ملے البتہ انسان جب اس کی روح اسلام اور اخلاقِ حسنہ سے خشک ہونے لگتی ہے اور ان کی جگہوں پر ضلالت و گمراہی اور بد اخلاقی جنم لینے لگتی ہے تو رب العالمین اس کی تطہیر کا انتظام کرتا ہے:
ھو الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمَّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعِلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (سورہ جمعہ، آیت نمبر ۲)
(وہی اللہ ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے)
وَمَآ أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (سورہ انبیاء، آیت نمبر ۱۰۷)
(اے نبی ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے)
آج سے تقریباً ساڑھے چودہ صدی پیشتر دنیا کی جو حالت تھی وہ کسی کی آنکھوں سے مخفی نہیں، اگر اس وقت کے دینی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ آشکارا ہوتا ہے کہ کہ دینِ ابراہیمی کا قلع قمع ہو چکا تھا، صرف حج و عمرہ کے چند ارکان بدعات و خرافات کے ساتھ باقی رہ گئے تھے، عریاں بدن خانہ کعبہ کا طواف کیا جاتا تھا اور اس میں موجود ۳۶۰ بتوں کی پوجا اور عبادت کرنا نیز ان سے مرادیں مانگنا اور ان کے نام پر جانور ذبح کرنے کا نام دین ہوگیا تھا۔ قرآن کریم اس کی شہادت دیتا ہے:
وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآءُنَا عِنْدَ اللّٰہِ
(اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیز کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں)
چنانچہ اس کفر و شرک کی عمیق غار سے نکالنے اور کراہتی ہوئی انسانیت کو راہِ حق سے روشناس کرانے کے لیے اسلام کی تابناک شعاعیں طلوع ہوئیں، اللہ نے اپنے آخری نبی محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور وَمَآ أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ کہہ کر ساری دنیا کے لیے لَا إِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے اصول کے ساتھ أُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ) [سورہ بقرہ: آیت نمبر ۲۰۸] کا حکم دے دیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں اس کی تعلیمات عام ہوگئیں۔
جی ہاں نبی اکرمﷺ کی بعثت سے قبل اگر اہلِ عرب کے اخلاق و عادات اور امن پسندی کا جائزہ لیا جائے تو یہ آشکارا ہوتا ہے کہ ظلم و تعدی اور بربریت و سفاکی کا دور دورہ تھا اور یہ اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا لیکن جب نبی اکرمﷺ کی بعثت ہوئی تو صرف انسانوں کیا جانوروں پر رحم کرنے کی تعلیم دی اور صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک میں رہنے والے ذمی اور اہلِ معاہدہ غیر مسلمین کے ساتھ بھی رحم و کرم کا برتاؤ کیا۔
جوا، شراب، قمار بازی، برائی، بدکاری، لوٹ کھسوٹ اور تمرد و سرکشی بامِ عروج پر پہنچی ہوئی تھی لیکن ہمارے نبیﷺ پر نازل کردہ کلام کے ذریعے یہ اعلان کردیا گیا:
إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْأَنْصَابُ وَ الْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ [سورہ مائدہ آیت نمبر ۹۰]
(یقیناً شراب، جوا، پرستش گاہوں اور فال نکالنے کے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطان کے کام ہیں لہٰذا تم ان سے بالکل الگ رہو تاکہ کامیاب ہوجاؤ)
اس کا اثر یہ ہوا کہ مدینہ کی نالیاں شراب سے بھر گئیں اور جس کسی نے جام اپنے منہ سے لگایا تھا اسی وقت روک لیا۔ جبکہ اس کے برخلاف “بیسویں صدی میں امریکہ نے شراب پر پابندی لگانی چاہی تو قانون کے نفاذ سے قبل طرح طرح سے پروپیگنڈہ کیا، کبھی فلم کے ذریعے تو کبھی کتاب و رسائل کے ذریعے اور کبھی علماء و اطباء کی تقریروں کے ذریعے۔ جس کا خرچ ۶۵ ملین ڈالر بتایا گیا ہے، نو ہزار ملین صفحات پر قانون کی تشہیر کی اور دس ملین ڈالر قانون کے نافذ کرنے میں خرچ کیا اور پھر ۱۹۳۰ میں شراب کی بیع و شراء اور اس کی صنعت کو حرام قرار دیا اور یہ قانون ۱۹٣٣ تک رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو سو نفوس قتل کیے گئے، نصف ملین لوگوں کو نذرِ زنداں کیا گیا، مخالفین پر جرمانہ لگایا گیا جس کی مقدار تقریباً چار ملین ڈالر تھی اور ایک ہزار ملین ڈالر کی قیمت کے بقدر مال سرکاری قبضہ میں کرلیا گیا، بالآخر ۱۹۳۳ کے اخیر میں حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور ایک تحریمِ خمر کا قانون نافذ نہ کرسکی جبکہ شریعتِ اسلامیہ نے صرف ایک جملہ “فاجتنبوہ” کے ذریعے ساری شراب نالیوں میں ڈلوا دیا۔ یہ محض ایمان کی قوت اور شریعت کی اطاعت اور احترام کی بنا پر تھا نہ کہ کسی سلطان کی اطاعت کے لیے” (اصول الدعوۃ للدکتور عبد الکریم زیدان ملخص از صفحہ نمبر ۵۰-۵۱)
بعثتِ نبوی سے قبل ذرا ذرا سی بات پر تلوار نیام کے باہر آجاتی تھی، صدیوں تک دو قبیلوں کے درمیان جنگ و جدال کا سیاہ بادل منڈلاتا رہتا اور ایک ملک دوسرے ملک سے کب نبر دآزما ہوجائے گا کچھ پتہ نہ تھا لیکن ایسے پرآشوب حالات میں انسانیت کے مسیحا نبی اکرم
ﷺ تشریف لائے اور سرمایہ داروں کی بالا دستی ختم کردی اور قرآن کی زبانی فرمایا: “لَا تُفْسِدُ وْا فِی الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِہَا” (اور دنیا میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ) [سورہ اعراف: آیت نمبر ۵۶] اور حدیث شریف میں بیان فرمایا “لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرِقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا” (اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹوں گا) [بخاری: حدیث نمبر ۳۴۷۵، مسلم: حدیث نمبر ۱۶۸۸] آپ کی ان تعلیمات کا اثر یہ ہوا کہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آیا، صحابہ کرام کی وہ جماعت تیار ہوئی کہ دنیا آج بھی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
بعثتِ نبوی سے قبل کسی کے جان و مال کا تحفظ نہ تھا، لڑکیاں زندہ در گور کر دی جاتی تھیں، انسانوں کا خون بہت ارزاں ہوچکا تھا اور اسے پانی کی طرح بہایا جارہا تھا چنانچہ اس نازک حالت میں ہمارے نبیﷺ رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچایا “وَلَا تَقْتُلُواالنَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ” (اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہر گز ناحق قتل نہ کرو) [سورہ اسراء: آیت نمبر ۳۳] “وَإِذَا الْمَوْؤُوْدَۃُ سُئِلَتْ” (اور جب زندہ در گور کی گئی بچی سے سوال کیا جائے گا) [سورہ تکویر: آیت نمبر ۶] “وَلَا تَقْتُلُوْٓا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلَاقٍ” (اور غریبی کے ڈر سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو) [سورہ اسراء: آیت نمبر ۳۱] اس کا اثر یہ ہوا کہ ناحق قتل و خوں ریزی ختم ہوگئی اور توکل علی اللہ کی اعلیٰ مثال سامنے آئی۔
بعثتِ نبوی سے قبل لوگوں کے مال کو ناحق چھین کر اس پر بیجا تصرف کیا جاتا، کمزور و ناتواں بِلک بِلک کر رو رہا تھا، اس کی فریاد سننے والا کوئی اس طور پر بھی نہ تھا کہ اس کی داد رسی کرے لیکن معلم اخلاق رسول اکرمﷺ آئے تو اپنی تعلیم سے ایک پُر امن معاشرہ کی تشکیل دی۔ غرضیکہ نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل پورا معاشرہ تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا، مادیت نے بھی لوگوں کو اپنی خوشنما چادر میں لپیٹ رکھا تھا، مادہ کے پیچھے لوگ حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر بے تحاشا دوڑ رہے تھے اور ہر ایک دوسرے کو اس میدان میں پیچھے کرنا چاہتا تھا چنانچہ محسنِ انسانیت، سراپا رشد و ہدایت رسولﷺ نے “وَأَنْ لَّیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی” (اور ہر انسان کے لیے وہی ہے جو کچھ اس نے کوشش کی ہے) [سورہ نجم: آیت نمبر ۳۹] کی تعلیم دے کر لوگوں کے نہاں خانہ دل میں فکر آخرت کی بیج ڈال دی۔
آپﷺ کی دی ہوئی تمام تعلیمات کا اثر یہ ہوا کہ پوری دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن گئی، اس کی مثال یہ ہے کہ قادسیہ سے صنعاء تک ایک عورت ہر طرح کے جواہرات سے آراستہ و پیراستہ ہو کر تنہا بلا خوف و خطر سفر کرتی ہے اور اسے کوئی بھی چھیڑنے والا نہیں ہوتا ہے۔
آج چونکہ دنیا میں فتنہ و فساد کی کثرت ہوچکی ہے، ظلم و زیادتی کا چلن عام ہوگیا ہے اس لیے اب دنیا کو امن و شانتی کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہر شخص، ہر معاشرہ ایک دوسرے سے مامون و محفوظ رہ کر پرسکون زندگی بسر کر سکے۔ اور یہ امن و سکون صرف اور صرف اسلامی شریعت ہی پیش کرسکتی ہے جو ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لیے ہے، اس لیے ہمیں اس کی طرف لوٹنا ہوگا تبھی ہم کامیاب و کامران ہوسکیں گے اور امن و شانتی قائم ہو سکے گی اس لیے کہ رب العالمین کا فرمان ہے: “وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ” (تم ہی سربلند رہوگے بشر طیکہ تم ایمان والے رہو) [سورہ آل عمران: آیت نمبر ۱۳۹
Mashaallah Allah aap ko jazaeqaer ata farmaye AMEEN