حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تاریخ و سیرت

علم و حکمت کا ایک سر چشمہ جو خشک ہوگیا
(حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ)


سن ۱۸ ھجری میں ملک شام میں طاعون پھیل گیا جو طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہوا، یہ تاریخ اسلام کا پہلا بڑا طاعون ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ انسانی کی ہلاکت خیز وباؤں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے، ایک ماہ کی قلیل مدت میں صرف شام میں پچیس تا تیس ہزار لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ اسی طاعون میں جلیل القدر صحابہ میں سے حضرات ابوعبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل، ان کے فرزند عبدالرحمن، یزید بن ابی سفیان، شرحبیل بن حسنہ اور فضل بن عباس -رضی اللہ عنہم أجمعین- جیسی عظیم اور علم وفضل کی مالک ہستیاں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
پچھلے چھ ماہ سے زائد عرصہ سے پوری دنیا میں پھیلی کرونا کی وبا نے اسی طاعون عمواس کی یاد تازہ کردی ہے۔ اس وبا کے دوران وبا سے متاثر ہوکر یا اس کے بغیر علم و فضل کی حامل کئی شخصیتیں ہمیں داغ مفارقت دے گئی ہیں جس کی وجہ سے علم و حکمت کی مسندیں خالی ہوتی جارہی ہیں اور نگاہوں کے سامنے امام ذھبی کی فن حدیث سے متعلق اس علمی تعبیر کی علوم شرعیہ سے متعلق عملی تفسیر نظر آنے لگی ہے: “فأين علم الحديث؟ وأين أهله؟ كدت لا أراهم إلا في كتاب أو تحت التراب”۔
(آج علم حدیث کہاں ہے؟ اور اس کے ماہر کہاں ملتے ہیں؟ اب تو یوں لگتا ہے کہ شاید ایسے لوگ یا تو کتابوں میں ملیں گے یا منوں مٹی کے نیچے).

اس سلسلہ میں ایک اور نام کل رات جڑگیا جب پاکستان سے یہ خبر موصول ہوئی کہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب بھی وفات پاگئے -إنا لله وإنا إليه راجعون- اللهم أجرنا في مصيبتنا و أخلف لنا خيرا منه-
تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، دفاعِ سنت، فکر و نظر، علمی و منہجی ردود، رد بدعات، سماجی و معاشرتی مسائل، آداب اور حقوق وغیرہ سے متعلق درجنوں مضامین کے علاوہ تقریبا پچاس سے زائد کتابوں کے مؤلف، جن کی اہمیت ان کی کمیت سے زیادہ ان کی کیفیت کی وجہ سے ہے وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔

(یہ تحریر لکھتے وقت چونکہ میں سفر میں ہوں اس لیے) ہمارے بعض احباب نے حافظ صاحب کی مطبوعہ کتابوں کی درج ذیل فہرست فراہم کی ہے:

1) تفسیر أحسن البیان
2) رياض الصالحین: ترجمہ وفوائد
3) خلافت وملوكيت کی تاريخى وشرعى حيثيت
4) رمضان المبارک فضائل اور احكام ومسائل
5) فضائل عشرہ ذو الحجہ اور احكام ومسائل عيد الاضحى
6) نماز مسنون مع ادعیہ ماثورہ
7) نماز محمدى
8) توحيد اور شرک كى حقیقت مع مغالطات وشبہات
9) نفاذ شريعت كيوں اور كيسے؟
10) مفرور لڑکیوں كا نكاح اور ہمارى عدالتيں
11) عورتوں کے امتيازى مسائل وقوانين
12) کیا خواتین کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟
13) اسلامى آداب معاشرت
14) واقعۂ معراج اور اس کے مشاہدات
15) رسومات محرم الحرام اور سانحۂ کربلا
16) زکوٰۃ وعشر کے احکام اور مسائل وفضائل
17) مسنون نکاح اور شادی بیاہ کی رسومات
18) قبر پرستی: قبر پرستوں کے دلائل کا جائزہ
19) حصن المسلم مشہور دعا کی کتاب کا اردو ترجمہ
20) اجتہاد اور تعبیر شریعت کے اختیار کا مسئلہ، پارلیمنٹ اس کی اہل ہے یا باصلاحیت علماء اسلام
21) ایصال ثواب اور قرآن خوانی
22) جشن عید میلاد النبی
23) اہل حدیث اور اہل تقلید
24) حد رجم کی شرعی حیثیت
25) عورت کی سربراہی کا مسئلہ اور شبہات و مغالطات کا جائزہ
26) اسلامی خلفاء وملوک کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
27) حقوق الأمۃ
28) حقوق العباد
29) حقوق الوالدين
30) حقوق الأولاد
31) حقوق الزوجين
32) کھانے پینے کے آداب
33) سونے جاگنے کے آداب
34) سلام کے آداب واحکام
35) خواتین سے متعلق بعض اہم مسائل احادیث کی روشنی میں
36) ایام مخصوصہ میں عورت کا قرآن پڑھنا اور چھونا
37) مسئلہ طلاق ثلاثہ اور علماء احناف
38) عظمت حدیث اور اس کے تقاضے
39) اسلامی لباس… آداب واحکام
40) تحریک جہاد اور اہل حدیث واحناف
41) ترجمۃ القرآن لفظی بکسوں میں
42) منحة الباری ترجمة الأدب المفرد للبخاری
43) تنقیح الرواة في تخريج أحاديث المشکوۃ
44) نميمة الصبي في ترجمة الأربعين من أحاديث النبي-
سيد نواب صديق حسن بھوپالی رحمہ اللہ کی کتاب کی تسہیل وتنقیح
45) اہل حدیث کا منہج اور احناف سے اختلاف
46) یا اللہ مدد
47) حقوق وفرائض
48) مسئلہ رؤیت ہلال اور بارہ اسلامی مہینے
(49)فتنہ غامدیت
(50) حقوق مردوں اور حقوق نسواں
وغیرہ-
(ماخوذ از دبستان حدیث: مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ص 578-588 / فہرست کتب مکتبہ فہیم مئو ناتھ بھنجن یوپی 18-2019/ صفحہ نمبر 50-51)
(ہوسکتا ہے اس فہرست میں مزید اضافہ ہو خاص طور پر غیر مطبوعہ کتابیں اور مضامین اور زیر تحقیق و ترتیب کام جو ادھورے رہ گئے جن کے سلسلے میں مکتبہ دارالسلام سے وابستہ حضرات یا شیخ کے براہ راست شاگرد اور ورثہ کوشش کریں تو ساری محنت یکجا ہوسکتی ہے۔)

آپ کتابوں کی صرف فہرست دیکھ لیں، موضوعات کا تنوع، دقت، اہمیت اور پھر ان کے مواد میں تحقیقی مزاج، علمی گہرائی و گیرائی، انصاف پسندی، اسلوب کی سلاست و شائستگی وغیرہ دیکھیں اندازہ ہوجائے گا کہ آج امت کس قدر عظیم علمی خسارہ سے دوچار ہوئی ہے اور کیسی با اخلاق و با کردار ہستی ہم سے جدا ہوئی ہے۔

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
(محمود رامپوری)
آپ علامہ ابن تیمیہ -رحمہ اللہ- کی “منہاج السنہ النبویہ” پڑھیں، شیعی عالم ابن المطهر الحلي کی “منہاج الکرامة” کا علمی تعاقب اس شان سے کیا ہے کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ دفاع اسلام کی خاطر “اللهم أيده بروح القدس” کی جو دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت -رضی اللہ عنہ- کو دی تھی اس دعا کی برکت دفاعِ سنت کے ہر علمبردار تک پہونچی ہے، بالخصوص جہاں حلّی نے تاریخی حوالوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر فوقیت دینے کے لئے استدلال کیا ہے اس کی تردید دیکھئے، ایک طرف دونوں جلیل القدر ہستیوں کا تقدس تو دوسری طرف تاریخی حوالوں کے اعتبار کو قائم رکھنے کے علمی تقاضے مگر دیکھئے بال سے باریک اس پرخطر راہ سے وہ صاحبِ بصیرت کیسے گزر گئے۔
ایسے موضوعات میں کسی ایک کی تائید میں لکھ جانا اور یک طرفہ حوالوں سے کتاب کو بھردینا بہت آسان کام ہے اور تحقیق کے نام پر ایسے جانبدارانہ موقف ماضی و حال میں بہت سارے لوگ اپنا چکے ہیں مگر طرفین کے ساتھ علامہ ابن تیمیہ جیسے انصاف کی ایسی مثالیں محض توفیق الہی سے قائم کی جاسکتی ہیں -ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم-
میں نے “خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت” پہلے پڑھی تھی۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس علمی شاہکار سے آگاہی ہوئی اور اس کے بعض حصوں سے خوشہ چینی کی اور ایک بار پھر “خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت” پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اپنے محدود مطالعہ کی روشنی میں سہی یہ احساس پیدا ہوا کہ “خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت” میں واقعاتی شواہد کی روشنی میں تحلیل و تجزیہ میں علامہ ابن تیمیہ کی علمی شان نظر آتی ہے اور علمی امانت اور اس کے تقاضوں کی رعایت کے ساتھ ساتھ دفاعِ سنت و اہلِ سنت کی وہی سلفی تڑپ نظر آتی ہے جو ابن تیمیہ و حافظ صاحب میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ ومن جرب مثل تجربتي عرف مثل معرفتي۔
یہ میرا ایک ایسا تاثر ہے جو کتاب کے مطالعے کے دوران خود بخود پیدا ہوا۔ موازنہ کرنے کی کوئی پیشگی نیت نہیں تھی۔
مجھے اندازہ نہیں کہ حافظ صاحب نے اس وقت تک علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو کس حد تک پڑھا تھا- کیونکہ بقول مؤرخ اہل حدیث اسحاق بھٹی صاحب اس وقت حافظ صاحب کی عمر صرف بیس اکیس سال کی تھی- مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ منہج کی یکسانیت نے منہاج کا یہ رنگ حافظ صاحب کی تصنیف پر چڑھایا اور فکر و نظر کہ وحدت نے (منہاج السنہ) کے اسی راستے پر حافظ کو بھی چلایا- إنهما لمن مشكاة واحدة۔
رد و قدح کا میدان ایک الگ ماحول رکھتا ہے، یہاں اکثر نفاست پسند طبیعتیں اترنا پسند نہیں کرتیں مگر دیکھیں حافظ صاحب نے اس گدلے تالاب میں اتر کر کس قدر تحمل اور خوش اسلوبی سے اپنا فرض نبھایا ہے، تقریبا ہر مکتبہ فکر پر رد لکھا ہے، جن پر ردود لکھے ان میں بعض تحریریں بڑی سخت تھیں اور بعض موضوعات بڑے حساس، مگر جواب اور رد میں اس قدر شائستگی اور مخاطب کے لئے خیرخواہی ہے کہ فریق مقابل بھی پڑھے تو اسلوب کی گرانی یا طبیعت کے تکدر کی شکایت نہ کرپائے۔ فی زمانہ ایسے سلجھے قلم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں نے علامہ اسماعیل سلفی گوجرانوالہ کے بعد حافظ صاحب کی تصانیف کے اندر یہ چیز پائی ہے کہ اس میں “انتصار للحق” یعنی حق کی سربلندی کے ساتھ اسلوب میں “الرحمة بالخلق” یعنی بندوں کی خیر خواہی کا جذبہ بھی ساتھ ساتھ چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ سرحدیں فکر و نظر کے رشتوں کو ختم نہیں کرسکتیں، زمین پر کھینچی گئی لکیر دماغوں میں فاصلے نہیں پیدا کرسکتی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسمانی طور پر لوگ ایک دوسرے سے جدا کردییے جاتے ہیں اور براہ راست ایک دوسرے سے کما حقہ استفادہ سے اکثر محروم ہوجاتے ہیں، پھر ایسی صورت میں گنے چنے صرف چند نام رہ جاتے ہیں جو اپنی علمی شان اور فکری قوت کے دم پر ایسی اڑان بھرتے ہیں کہ پھر کوئی سرحد ان کی شہرت و شناخت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اور وہ ہر جگہ اپنے اثرات یا بالواسطہ شاگرد چھوڑ جاتے ہیں، حافظ صلاح الدین یوسف ایک ایسا ہی نام ہے کہ نہ صرف ہندوپاک کی سرحد بلکہ تمام بین الاقوامی سرحدوں کو پار کرتا ہوا ہر اس شہر تک پہونچا جہاں اردو لکھنے پڑھنے والے حضرات موجود ہوں۔

حصول علم یا شاگردی کے جو درجے محدثین نے طے کئے ہیں ان میں کم تر درجہ “وِجادہ” کا ہے، اور صحیح موقف یہی ہے کہ اس سے شاگردی ثابت نہیں ہوتی، اگر اسے قابل قبول مان لیں تو پھر حافظ صلاح الدین یوسف ایک ایسی علمی شخصیت کا نام ہے کہ محض ان کی کتابیں پڑھ کر علم دوست حضرات اسی وجادہ کے اصول پر خود کو ان کا شاگرد کہنے میں فخر محسوس کریں گے، اور اسی اصول کے تحت خود کو اس فہرست میں رکھنا اور حافظ صاحب کو اپنا محسن ماننا میرے لئے بھی سعادت کا باعث ہوتا۔

حافظ صاحب کی ایک اور امتیازی خصوصیت ہے؛ عصر حاضر میں تفسیر اور حدیث و فقہ کے میدان سے ذرا ہٹ کر فکر و نظر کے میدان میں یا مفکرین کی دنیا میں سلفیت کی ترجمان شخصیتوں میں ایک نمایاں ترین نام حافظ صاحب کا بھی ہے، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی سرپرستی اور منحرف افکار کا تتبع کرنے والے الاعتصام جیسے زندہ رسالہ سے وابستگی نے آپ کے فکری سانچہ کی ترتیب و ساخت اور اس کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی مردِ حق آگاہ کی شاگردی و سرپرستی طالب علم کی جڑیں مضبوط کرتی ہے تو جرائد و مجلات جیسے ذرائع سے کسی بھی قسم کا رشتہ آپ کو زمینی حقائق سے جوڑے رکھتا ہے پھر شخصیت کا ارتقاء کچھ یوں ہوتا ہے کہ وہ حق شناس ہونے کے ساتھ ساتھ زمانہ شناس بھی ہوجاتی ہے۔ صلاح الدین یوسف صاحب ایسی ہی ایک حق شناس اور زمانہ شناس شخصیت کے مالک تھے جس کی گواہ آپ کی تحریریں اور وہ “علمی ترکہ” ہے جو ہم جیسی خوشہ چینوں کا “مشترک ورثہ” ہے۔

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی تفسیر أحسن البيان، ریاض الصالحین کی شرح، اور دیگر کتابوں میں سے کئی ایک کتابیں ایسی ہیں جو تفصیلی جائزہ و تجزیہ کا تقاضا کرتی ہیں، امید ہے کہ مختلف فنون سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اپنے اپنے تخصص کی روشنی میں ان پر اظہار خیال کریں گے، سردست اتنا ضرور کہوں گا کہ برصغیر کے مدارس کے طلبہ ہوں کہ علمی ذوق رکھنے والے اردو داں حضرات، کوئی بھی حافظ صاحب کے علمی ورثہ سے مستغنی نہیں ہوسکتا، ان کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے طالب علم کی جیسی علمی، فکری، اخلاقی و منہجی تربیت ہوسکتی ہے اس کی مثالیں خال خال ملیں گی۔
اللہ غریق رحمت کرے، جنت الفردوس نصیب کرے، بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے ۔ آمین

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul mateen

Allah jannatul firdous main jaga kare hafez saheb ko

Khansa Abdul Aziz

شیخ عبد الحسیب مدنی نے شیخ کی زندگی کا جو نقشہ کھینچا ہے حق ادا کردیا۔
کچھ اضافہ کروں گی کہ شیخ کی کتب اب المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی سے طبع ہوتی ہیں۔
شیخ کی آخری کتاب جو طبع ہوئی وہ جنازے کے مسائل پر گراں قدر اضافہ امت کے لئے ہے۔
مفصل تفسیر لکھ چکے تھے وہ پریس میں ہے۔
اللہ تعالیٰ شیخ کی تمام جھود کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس کا وارث بناے۔

سعد

شکریہ ،مضمون کےلئے۔اللہ ان سے اور ان جیسے علماءسے ربط و نسبت رکھنے والوں کی غیب سے مدد فرمائے۔ واللہ المستعان۔