نیپولین بونا پارٹ نے چین کے بارے میں کہا تھا:
“Let she sleep, for when she wakes she will shake the world”
(چین کو سونے دو کیونکہ جب وہ بیدار ہوگا تو دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا)
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح چین نے بھی اپنے پیروں میں غلامی کی بیڑیاں پہنی ہیں، طوق اسیری کو اپنے گلے کی زینت بنائی ہے، لاشوں کے ڈھیر پر راتیں بسر کی ہیں، زندگی کی آرزو چھوڑ کر موت کی تمنا کی ہے۔ اپنے سہانے خوابوں کو اجڑتے اور عزیزوں کو سولی چڑھتے دیکھا ہے۔تباہی اور بربادی اس کا مقدر اور ہلاکت خیزی اس کا نصیب رہا ہے، بے بسی اس کے ماتھے کی زینت اور قیدوبند کی صعوبتیں اس کا دردناک ماضی رہی ہیں۔ چین نے بھی اپنے کھیتوں میں زندگی کی کاشت کی جگہ موت کی زراعت کی ہے۔ نشے کے سوداگروں نے اس کے نونہالوں کو بھی زیست کے بدلے نشہ بیچا ہے اور چین آج دنیا کے سپر پاور کا خواب اپنی پتلیوں پر سجانے والا بھی مجبوری کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ ظلم وبربریت کی اس روداد کو تاریخ کے وفا شعار پنوں نے بنا کسی خرد برد کے انصاف کی سیاہی سے لکھ کر طاق عنبری کے حوالے کردی ہے جو کہ نہ صرف آئندہ نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے بلکہ تادم دنیا روشنی کی ایک مثال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ بھول جائے اسے مٹانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اوپیم کی جنگوں(OPIUM WARS) سے لے کر انقلاب چین تک کی کہانی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ میری تاریخ دانی کی بساط تک گوروں نے جہاں بھی اپنی حکمرانی کا کمند ڈالا ہے، وہاں کی نہ صرف نسلوں کو ہی برباد کیا ہے بلکہ ان کو رہتی دنیا تک نہ بھرنے والا زخم تحفے میں دیا ہے۔ جہاں وطن عزیز کا ماضی خود اس بات کی شہادت دیتا ہے وہیں حالیہ عالمی منظر نامے میں بے شمار معصوموں کی آہ وبکا اور چیخ وپکار اس بات کا مبین ثبوت ہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ چین نے بھی تاریخ کے تاریک دور دیکھے ہیں اور قید وبند کی اذیتیں برداشت کی ہیں۔ لیکن کیا چین اس کو ماضی کا ایک اندوہناک خواب سمجھ کر آج اکیسویں صدی کے اس امن پسند اور انسانیت پرست دور میں امن عالم کا علمبردار بننے کا منشا رکھتا ہے یا اپنے ماضی کے کرب کی وجہ سے کرۂ ارض پر فساد برپا کرنا چاہتا ہے؟ کیوں کہ چین جہاں اپنی توسیع پسندی کو لے کر وطن عزیز کی سرحدوں پر دراندازی کی انتھک کوشش کئی دہائیوں سے کرتا آرہا ہے وہیں دوسرے سترہ ممالک سے بھی اس کے سرحدی اور سمندری تنازع برسوں سے رواں ہیں۔ حالیہ دنوں کورونا وائرس (کوویڈ۔19) کو پوری دنیا میں پھیلا کر تیسری عالمی جنگ شروع کرنے اور سپر پاور بننے کا الزام بھی اس کے سر عائد ہوچکا ہے۔ چین نے وطن عزیز کے پڑوسی ملکوں کو اپنے ساتھ ملا کر مکاری کا جو کھیل شروع کیا تھا اس کی وجہ سے وادی گلوان میں ہمارے 20 جوانوں کو جام شہادت نوش کرنی پڑی اور کچھ زخمی بھی ہوئے لیکن رد عمل ایسا ہوا کہ چین کی ہوا نکل گئی۔ ہندوستانی عوام نے حکومت کا خوب ساتھ دیا اور وزیر اعظم کی اچانک سرحدی زیارت سے چین گھبرا گیا اور اسے ایک بڑی آفت کا اندیشہ لاحق ہوا جس کی وجہ سے اس نے اپنے سپاہی واپس بلا لیے۔ جبکہ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے چین ہند اچھے تعلقات کے نغمے گنگنائے جارہے تھے اور ایسا وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ چین اپنی عیاری کے ہتھیار سے اس طرح وار کرے گا کہ سارے رشتے ایک دم سے ختم ہو جائیں گے اور خونریزی کا موسم شروع ہوجائے گا۔
چین شاید اب سمجھ گیا ہے کہ آج ہم بیسویں صدی میں نہیں بلکہ ایک صدی آگے کی طرف بڑھ کر اکسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں جہاں دنیا کے بیشتر ممالک کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ ڈر اور خوف کی سیاست کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ چین کو وقت رہتے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کو اس نے اپنا دشمن بنا لیا ہے اور خود امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جہاں چین کی ان حرکتوں کو عالمی سازش سے تعبیر کرکے اس کو جوابدہی کے کٹگھرے میں کھڑ ا کررہے ہیں وہیں چین ہند کشمکش میں کھل کر ہندوستان کا ساتھ بھی دے رہے ہیں جوکہ ہندوستان کے لیے خوش کن اور چین کے لیے صدمے کی بات ہے۔
کیا چین تیسری عالمی جنگ کا سماں پیدا کرنا چاہتا ہے اور اکیلے دنیا کے سارے ممالک سے زور بازو آزمانا چاہتا ہے؟ کیا چین بنا ہتھیار کے تیسری عالمی جنگ لڑنا چاہتا ہے اور اپنے نت نئے ایجادات سے ساری دنیا کو زیر کرنا چاہتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ پوری دنیا چین کی مخالفت میں کھڑی ہوجائے گی اور وہ اکیلا پڑجائے گا۔ اس لیے چین کے منشا کو سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ چین جہاں تاریک دور سے گزرا ہے وہیں اس کی مکاری اور عیاری کی بھی ایک داستان رہی ہے۔ چین کو بھی اپنی ساری صعوبتوں کو بھلا کر آج کے امن پسند دور میں جینا چاہیے ورنہ باد مخالف کا سامنا وہ نہیں کرپائے گا اور پھر گئے وقت ہاتھ ملنا کچھ کام نہیں آتا۔
آپ کے تبصرے