قربانی کی معنویت

محمد مظہر الاعظمی عبادات

لفظ قربانی وسیع تر معنویت کا حامل ہے مگر ہم لوگوں نے صرف جانور ذبح کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے تک محدود اور تنگ کر دیا ہے، جبکہ یہ قربانی جس ذات اقدس کی طرف منسوب اور مربوط ہے ان کی پوری زندگی ہی قربانی سے عبارت ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی اسوہ اور آئیڈیل بنا دیا ہے، فرمایا: قدکانت لکم اسوة حسنة فی ابراھیم والذین معه (سورہ ممتحنہ، آیت نمبر:٤)
تمھارے لیے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب شرک زدہ ماحول میں توحید کی آواز بلند کی تو گھر، خاندان اور وطن عزیز کو چھوڑنے کی قربانی دینی پڑی، سنگلاخ وادی میں بیوی بچوں کو چھوڑنے کی قربانی دینی پڑی اور جب بیٹا ہاتھ بٹانے اور تعاون کرنے کے لائق ہوا تو ذبح کرنے کا حکم ہوا جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی قربانی دی، یہ تمام قربانیاں ہیں۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو آئیڈیل قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام قربانیوں کو یاد رکھا جائے اور یاد رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دین و ایمان کے تحفظ کے لیے بوقت ضرورت ان تمام قربانیوں کو بروئے کار لایا جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم جانور کے علاوہ کوئی بھی قربانی دینے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مسلم سماج میں جو بہت سارے مسائل ہیں جو روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اگر ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کو نمونہ اور آئیڈیل بنا کر جذبہ قربانی کے خوگر بن جائیں تو صرف جذبہ قربانی ہمارے سماج کے بہت سارے مسائل کو فوراً حل کر دے گا۔ مگر افسوس کہ ہم نے آپ کی تمام قربانیاں بھلا دیں اگر کوئی قربانی یاد ہے تو صرف بیٹے کی قربانی کیونکہ بیٹے کی قربانی تو ایک تمثیل ثابت ہوئی اس کی جگہ تو دنبہ نے لیا جو ہمارے لیے لذت کوشی اور لطف اندوزی کا سامان اور ذریعہ ثابت ہوا۔
ہم لوگ قربانی کا جانور بڑے شوق سے ذبح کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے فضلات کو اپنے ہی گھر کے قرب وجوار، راستے یا غیر مناسب جگہ پر پھینک دیتے ہیں جس سے ہر راہ گیر کو دشواری ہوتی ہے اور اس کے تعفن سے فضا مکدر ہوتی ہے۔ جس وقت ہم فضلات پھینکنے کا عمل انجام دیتے ہیں اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح راستوں اور غیر مناسب جگہوں میں پھینکنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور اسلامی تعلیمات پر عمل بھی قربانی ہی ہے نیز ایک شخص قربانی کرسکتا ہے تو کیا فضلات کو کہیں مناسب جگہ پھینکنے کی قربانی نہیں دے سکتا۔ اب آپ تصور کیجیے کہ وہ کون سا جذیہ قربانی ہے جو آدمی کو جانور ذبح کرنے پر تو آمادہ کرتا ہے مگر فضلات کو دور پھینکنے کی قربانی کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ اس کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے کہ جانور کی قربانی لذیذ ہے اس لیے محبوب ہے اور فضلات کو دور پھینکنا مزاج کے خلاف ہے اس لیے اگر چہ اس سے عوام الناس کو تکلیف پہنچے مگر یہ کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔
جانور کی قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جبکہ داڑھی تمام انبیاء کی سنت ہے بلکہ بہت سے علماء کرام تو داڑھی کو فرض کہتے ہیں، اس حقیقت کو جاننے کے باوجود عوام کے نزدیک جانور کی قربانی فرض کی طرح ہے۔ اس کے بر خلاف ڈارھی کے ساتھ جو ہمارا رویہ ہے وہ کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہے، حد تو یہ ہے کہ جانور کی قربانی کے ساتھ داڑھی کو بھی اسی کے ساتھ قربان کردینے کا پلان پہلے ہی سے تیار رہتا ہے، ایک طرف جانور کی قربانی ہوتی ہے اور دوسری طرف رخ انور سے سنت رسول کا ظالمانہ قتل عام شروع ہوجاتا ہے اور پھر بڑی ہی بے دردی سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گندی نالیوں کے حوالہ کر دیا جاتا ہے۔
آپ خود فیصلہ کیجیے اگر دونوں سنت ہے تو ایک سنت کے ساتھ اس قدر ہمدردی کیوں؟ پورے سال پالا جائے دیکھ ریکھ کی جائے اور اس کی صحت و سلامتی کے لیے ناز برداری کی جائے اور دوسری سنت ایک لمحہ بھی گوارا نہیں، دونوں سنتوں میں اس کے علاوہ کیا فرق ہے کہ ایک سنت لذیذہ ہے اور دوسری سنت غیر لذیذہ اور جو غیر لذیذہ ہونے کی وجہ سے گوارا نہیں۔ قربانی لذت کو قربان کرنے کا نام ہے لذت کو طشت ازبام کرنے اور فروغ دینے کا ‌نام نہیں ہے، اس لیے جس قربانی میں آدمی اپنی لذت کو قرباں نہ کرسکے بلکہ لذت کا حصول ہی مقصد اور ہدف ہو وہ قربانی معنویت سے اور مقصدیت سے عاری اور خالی ہے۔ اس لیے قربانی کرنے سے پہلے اور بعد میں قربانی کی مقصدیت اور معنویت محسوس ہونا چاہیے۔ اگر قربانی کی معنویت محو ہوگئی تو یہ سودا دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں بڑے نقصان اور خسران کا سودا ہوگا، اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے۔ (آمین)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
MD Jahangi

ما شاء الله ما قلت صدقت احسن الحديث
يحفظكم الرب