ہماری یونیورسٹی راجوری کے کوہساروں پر ایسی جگہ واقع ہے جو قبل ازیں چرند پرند اور جانوروں کا مسکن ومنبع اور مخبأ ہوا کرتی تھی۔ جب یونیورسٹی قائم ہوئی اور لوگ یہاں آباد ہوتے گئے تو جانور دم دباکر بھاگنے لگے مگر پرندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔انواع واقسام کے رنگ برنگ پرندے اس معمورے کو صبح وشام اپنی مدھر بھری چہچہاہٹ سے سرمست کیے رہتے ہیں۔ مینا، کبوتر، طوطا، بلیو برڈ، کویل، گوریّے جیسے انسانوں سے مانوس رہنے والے کچھ پرندوں کی تعداد تو کسی قدر زیادہ ہی ہے۔
کل بڑا پر بہار موسم تھا۔ میں اپنی بلڈنگ کی چھت پر گیا تو دیکھا سو پچاس کبوتروں کا ایک جھنڈ گرلس ہوسٹل کے اے بلاک سے ایک ساتھ اڑتا ہے اور ہلالی شکل بناتے ہوئے ڈی بلاک پر جاکر بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں سے وہ اس کے عقب میں بنے ہوئے فیکلٹی کوارٹر پر یک ساتھ جست لگاتے ہیں۔ اور پھر وہاں شیڈ پر اپنے چونچوں سے کٹ کٹ مار کر مستی کرتے پھرتے ہیں۔
بہت پہلے کی بات ہے ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے کمرے کی کھڑکی کی چھت پر روزانہ بے شمار پرندے آکر بیٹھتے ہیں تو ہم نے وہاں کبھی پکے اور کبھی کچے چاول کے دانے ڈالنے شروع کردیے۔ جوں ہی دانے ڈالے تھوڑی دیر میں ختم۔ جس دن دانے نہیں ڈالتے ہیں پرندے کھڑکی کے شیشے پر چونچ مارتے ہیں۔ جیسے کھانا مانگ رہے ہوں۔ میں نے اسی کھڑکی سے ایک روز دیکھا بلڈنگ سے متصل پہاڑی پر واقع ایک درخت کی ایک شاخ پر دو پرندے ایک ساتھ بالکل چپک چپک کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کا سر کھجا رہے ہیں جیسے کہ ایک دوسرے سے فلرٹ کررہے ہوں۔ عشق کے پینگ لڑا رہے ہوں۔ ایک ہفتے تک وہ اسی شاخ پر آکر اسی طرح بیٹھتے رہے اور سرشام اڑ جاتے رہے۔ ایک دن دیکھا وہ دونوں ایک دوسرے سے مسافت بناکر بیٹھے ہوئے ہیں جیسے کہ دونوں میں لڑائی ہوگئی ہو۔ پھر اس کے بعد وہ نظر نہیں آئے۔ (یہ فسانہ نہیں حقیقت ہے) میں نے ایک دن دیکھا میرے کوارٹر کی بالکنی کی ریلنگ پر ایک مینا آئی۔ اس نے ریلنگ پر دو چار چونچ مارے اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ میں بھی اسے کمرے کی کھڑکی کے شیشے کے عقب سے بہت قریب سے دیکھ رہا تھا مگر وہ مجھے نہیں دیکھ رہی تھی۔
پرسوں تو حد ہی ہوگئی۔ ایک کبوتر گرلس ہوسٹل کے بی بلاک کے پیچھے بیٹھ کر دانے چگ رہا تھا کہ کسی باز نے پوری سرعت سے اس پر حملہ کردیا اور اس کو اپنی چونچوں میں دباکر پوری طاقت سے اس کے اوپر چڑھ بیٹھا۔ میں مسلسل دیکھتا رہا، کبوتر پورے تیس چالیس منٹ تک اس کی قید سے رہائی کی کوشش کرتا رہا مگر اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ کبوتر کو رہائی نہ مل سکی۔ ایک دو بار وہ باز اس کی پشت سے گرا بھی مگر اس نے اسے اپنی چونچ سے نہیں چھوڑا۔ وہ باز حجم میں ذرا چھوٹا تھا۔ شاید پہلی مرتبہ اس نے شکار کیا ہوگا مگر کامیاب رہا۔
میں کبھی کبھی صبح کو جب واک کے لیے نکلتا ہوں تو جہاں پرندوں کا جھنڈ دیکھتا ہوں یا ان کی چہچہاہٹ سنتا ہوں وہیں رک جاتا ہوں۔ مجھے انھیں ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکتے ہوئے، قلابازیاں کرتے ہوئے دیکھ کر بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ مگر انھیں جب میری موجودگی کا احساس ہوتا ہے تو وہ پھُر سے اڑ جاتے ہیں۔ اللہ اکبر! کیا اسپیڈ ہوتی ہے۔ کیا چستی ہوتی ہے۔ اس ڈال سے اس ڈال۔ اس شاخ سے اس شاخ۔ لمحے میں سینکڑوں میٹر کی مسافت طے کرلیتے ہیں۔ مجھے وہ آیت یاد آجاتی ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ’’مامن دابة الا علی اللہ رزقہا‘‘(ہر جانور کا رزق اللہ کے ذمے ہے) مجھے وہ حدیث بھی یاد آجاتی ہے جس میں رسول رحمت نے پرندوں کے بارے میں فرمایا ہے: ’’تبدوخماصا وتروح بطانا‘‘ کہ یہ پرندے صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام پیٹ بھر کے واپس آتے ہیں۔ میں سوچنے لگتا ہوں بارالہا! تو نے ہم انسانوں کو کیوں ایسا بنایا؟ ساز وسامان سے ہمیں لاد دیا۔ زمین جائیداد، اہل وعیال اور دنیا کی محبت ہماری رگوں میں پیوست کردی۔ کاش ہم بھی انھی پرندوں کی طرح ہوتے۔ ادھر ادھر پھدکتے رہتے۔ اڑتے رہتے۔دانے چگ چگ کے کھاتے رہتے۔ نہ کوئی گھر ہوتا نہ مکان۔ نہ اہل نہ عیال۔ نہ زمین نہ جائیداد۔ جہاں چاہتے جاتے جہاں چاہتے رہتے۔ نہ کوئی روک ہوتی نہ کوئی ٹوک۔اور پھر نہ حساب نہ کتاب۔ یوں ہی میں اپنے خیالوں میں آگے بڑھ کر اپنا واک مکمل کرلیتا ہوں۔
ایک دن میں نے صبح صبح ایک پروفیسر صاحب کو دیکھا وہ اپنے موبائل کیمرے کی آنکھ سے کسی پرندے پر نشانہ لگارہے ہیں۔ مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب ہم بالکل اسی طرح اپنے غلیل سے پرندوں پر نشانہ لگایا کرتے تھے۔ آج کل لاک ڈاؤن کی شانتی میں تو کسی کویل کے کوکو کی آواز تو بہت دور سے کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی سناٹے میں اس کی ویسے ہی نقل کرنے پر وہ مزید جوش میں آجاتی ہے۔
آخری بات! صبح چار بجے کے قریب اور فجر کی نماز (اول وقت) سے تقریبا آدھے گھنٹہ پہلے، سب سے پہلے کوئی ایک پرندہ اپنے گھونسلے سے اپنا سر باہر نکالتا ہے اور تین بار بولتا ہے۔ اور پھر کوئی دس منٹ تک اسی طرح بولتا رہتا ہے۔ میں بغور سنتا ہوں۔ روزانہ سب سے پہلے اسی کی آواز آتی ہے اور اسی خاص جگہ سے آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ یہ اپنی مسجد میں صبح کی اذان دیتا ہو۔ اس کے بعد ایک ایک کرکے مختلف پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ کوئی کسی لہجے میں۔ کوئی کسی سُر میں، کوئی کسی آواز میں اور کسی اسٹائل میں اپنی آواز نکالتا ہے۔ جوں جوں افق مشرق سے سپیدی صبح کا سلسلہ درازتر ہوتا جاتا ہے پرندوں کے چہچہانے کی آواز میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور پھر پورا دن ان کے مدھر سنگیت ونغمگی سے یہ پورا علاقہ سرمست ومدہوش اور مخمور سا ہوا رہتا ہے۔
یہ طیور خوش نوا وخوش الحان جن کے پاس نہ کپڑے ہوتے ہیں نہ لباس۔ نہ زمین ہوتی ہے نہ جائیداد اور نہ ہی محل نما مکانات۔ نہ نوکری نہ ملازمت۔ نہ ہی انواع واقسام کی وہ ساری نعمتیں اور غذائیں جو ہم بنی نوع انسان کو میسر ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔ خوش رہتے ہیں۔ صبح وشام اپنے رب کا شکر بجالاتے ہیں۔ ذکر واذکار اور تسبیح وتہلیل کی آیتوں کی تلاوت سے خطۂ ارضی کو معمور کیے رہتے ہیں۔مگر ہم بنی نوع انسان جو فکرو شعور کی لذتوں سے آشنا ہیں۔ جو اشرف المخلوقات کے تاج سے آراستہ ہیں۔ جو انواع واقسام کی الٰہی نعمتوں سے فیضیاب ہیں۔ رب کائنات اور خالق ارض وسما کے شکر واحسان، ذکر واذکار، تسبیح وتہلیل، تلاوت وعبادت سے کم کم آشنا ہوپاتے ہیں۔ بار الہا! کاش کہ ہم بھی چرند وپرند ہوتے۔
بہترین دلچسپ تحریر اس موضوع پر مضامین کی ضرورت
اللہ تعالی کا فرمان ہے “وإن من شيء إلا يسبح بحمده ولكن لاتفقهون تسبيحهم”(سورة الإسراء، آیت :44)
ہر چیز اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔
سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے جناب 🌹
ببھت خوبصورت اور موثر تحریر۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
Masha Allah wonderful explanation sir
Allah bless you all time 🙏